دنیا الجھ گئی ہے۔ بہت سے معاملات میں شدت کا گراف بلند ہوا ہے اور خرابیاں بڑھتے بڑھتے ایسی شکل اختیار کرگئی ہیں کہ سب کچھ معاشی اور مالیاتی مفادات کی چوکھٹ پر قربان ہوتا جارہا ہے۔ بات مفادات سے شروع ہوکر مفادات پر ختم ہو رہی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایثار کا معاملہ قصۂ پارینہ سا ہوگیا ہے۔
باہمی انحصار خواہش ہو نہ ہو‘ ضرورت ضرور ہے۔ ایسے میں لازم سا ہوگیا ہے کہ سب مل کر رہیں۔ اشتراکِ عمل اس قدر ہو کہ کوئی پیچھے نہ رہے اور کسی کو شکایت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تحت بین الاقوامی یا بین الریاستی تجارت کا نظام وضع کیا گیا ہے‘ تاکہ تمام اقوام اپنی اپنی ضرورت کے مطابق‘معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوں اور کوئی کسی کے مفادات پر غیر ضروری انداز سے متصرف نہ ہو۔ ڈبلیو ٹی او سے قبل عالمی یا بین الاقوامی تجارت کو جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرفز اینڈ ٹریڈ (گیٹ) کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا تھا۔ تب بین الریاستی تجارتی تنازعات سے نمٹنے کا میکینزم اس نوعیت کا تھا کہ بیشتر اقوام کوئی بڑا تنازع پیدا کرنے سے گریز کرتی تھیں۔ تنازعات کی سماعت کرنے والا پینل جو رپورٹس تیار کرتا تھا‘ اُس کا تمام ارکان کی طرف سے قبول کیا جانا لازم تھا۔ رفتہ رفتہ صورتِ حال کچھ ایسی ہوگئی کہ بُری رپورٹس کو قبول کرنے سے انکار کی روایت نے زور پکڑا۔ یوں تنازعات ختم ہونے کے بجائے مزید الجھ گئے۔
''گیٹ‘‘ کی جگہ ڈبلیو ٹی او نے لی ‘تو اُس کے تحت ایک اپیلیٹ باڈی بھی تشکیل دی گئی‘ جو ڈبلیو ٹی او کے رکن ممالک کے درمیان تجارتی تنازعات سے متعلق سماعت کا مینڈیٹ رکھتی تھی۔ اپیلیٹ باڈی کی تشکیل کا بنیادی مقصد ایسی رپورٹس تیار کرنا تھا‘ جنہیں قبول کرنے میں متعلقہ ارکان کو زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
معاشی معاملات میں مفادات کا تصادم انتہائی پیچیدہ صورتِ حال پیدا کرتا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازع اس کی ایک انتہائی واضح مثال ہے۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اکنامک انجن ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین کی برتری کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اس وقت امریکا سمیت کسی بھی ملک میں نہیں۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے۔ وہ دنیا کی قیادت کرتے آئے ہیں۔ عالمی معاشی اور مالیاتی نظام کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر امریکا اور یورپ نے کئی عشروں تک غیر معمولی فوائد بٹورے ہیں اور کئی خطوں کو پسماندہ رکھا ہے‘ تاکہ وہ کچھ کرنے اور مغرب کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے قابل نہ ہوسکیں۔
ڈبلیو ٹی او کی اپیلیٹ باڈی تنازعات کے حل کے لیے ہے ‘مگر امریکا کی ہٹ دھرمی نے اس پینل ہی کو متنازع بنادیا ہے۔ حالیہ اجلاس میں ناروے کے نمائندے نے کہا کہ مقبول ٹی وی سیریز کی وضع کردہ اصطلاح میں کہیے تو ''موسمِ سرما سر پر کھڑا ہے!‘‘ بات کچھ یوں ہے کہ اپیلیٹ باڈی کو فعال رکھنے کے لیے سات میں کم از تین ارکان کا ہونا لازم ہے۔ 10 دسمبر کو اس پینل کے باقی رہ جانے والے تین میں سے دو ارکان ریٹائر ہوجائیں گے۔ امریکا نئے ارکان کے تقرر میں طویل مدت سے رکاوٹیں کھڑی کرتا آرہا ہے۔ پینل کا محض ایک رکن سماعت نہیں کرسکتا۔
امریکا نئے ارکان کے تقرر میں رکاوٹیں ‘اس لیے کھڑی کر رہا ہے کہ اُس کے مفادات متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکی مینوفیکچرنگ سیکٹر مسابقت کی پوزیشن میں نہیں۔ چین عالمی تجارت پر چھاگیا ہے۔ امریکا کے لیے گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں امریکی قیادت کے لیے لازم سا ہوگیا ہے کہ کسی بھی تنازع کی صورت میں حقیقت پسندی اور انصاف پسندی کے اصول کی بنیاد پر دیئے جانے والے فیصلے کی مخالفت کرے۔ امریکا نے اس سے ایک قدم آگے جاکر بین الریاستی تجارتی تنازعات کی سماعت کرنے والے پینل ہی کو غیر موثر کرنے کی ٹھانی ہے۔
یہ سب کچھ کیوں؟ امریکی قیادت عالمی منڈی میں چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کا سامنا کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ چین نے خاص طور پر پریشان کر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ چینی مصنوعات پر غیر معمولی درآمدی ڈیوٹی عائد کرکے امریکی قیادت نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
اپیلیٹ باڈی کو ڈبلیو ٹی او کے تاج کا ہیرا کہا جاتا ہے۔ اس پینل کے قیام کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ایسی رپورٹس تیار کی جائیں جو کسی بھی رکن کو بری نہ لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ پینل غیر جانب داری اور انصاف پسندی کی طرف جھک گیا اور متعدد تنازعات میں ایسے فیصلے دیئے ‘جو بڑی طاقتوں کے مفادات کے یکسر منافی تھے۔ امریکا کو بعض معاملات اور نکات پر اختلاف تھا ‘تاہم اصلاح کی کوئی صورت نکالنے کی خود اُس نے بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ امریکا نے اب تک معاملات کو اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی نافذ کرکے درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ براک اوباما کے دور میں اپیلیٹ باڈی کو غیر موثر بنانے کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہوا۔ تب سے اب تک امریکا ہی اپیلیٹ باڈی کو ناکام بنانے کے لیے زیادہ اڑا ہوا ہے۔
انڈونیشیا اور ویت نام نے لچک دکھائی ہے۔ دونوں نے طے کیا ہے کہ کسی بھی تنازع کی صورت میں مرتب کی جانے والی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ یورپی یونین‘ ناروے اور کینیڈا نے بھی تنازعات کے حل کے لیے کسی عارضی میکینزم کے تیار کیے جانے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ تجارتی معاملات زیادہ الجھن کا شکار نہ رہیں۔
ڈبلیو ٹی او کے دائرے میں رہتے ہوئے تنازعات کے حل کا کوئی میکینزم نہ ہونے کی صورت میں ویسے تو تمام ہی ممالک کو اپنے اپنے مفادات کی خاطر مرضی کا کھیل کھیلنے کی چھٹی مل جائے گی‘ تاہم امریکا اور یورپ زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ تنازعات کے حل کا کوئی باضابطہ اور احتسابی قسم کا میکینزم نہ ہونے کی صورت میں ڈبلیو ٹی او کے تمام ارکان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پروٹیکشن اِزم کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے۔ ایسے میں درآمدی ڈیوٹیز بڑھائے جانے سے بین الریاستی تنازعات کی آگ مزید بھڑکے گی۔ جب انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی احتسابی نظام نہیں ہوگا ‘تو تجارت کے میدان میں سب اپنی مرضی کے مطابق ‘یعنی اندرونی مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے کے لیے کھیلنے کو ترجیح دیں گے۔ کہاوت مشہور ہے کہ جب بِلّی دور ہوتی ہے تو چُوہے مسرور ہوتے ہیں ‘کیونکہ انہیں کُھل کر کھیلنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
بڑی طاقتوں کے درمیان تجارت کے محاذ پر معرکہ آرائی عالمی تجارت کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان ٹیرف کے جھگڑے نے کئی معیشتوں میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ اس قضیے نے بھارت جیسی بڑی معیشت کے لیے بھی مشکلات کھڑی کی ہیں۔ کسی بھی بڑے قضیے کے ابھرنے سے چھوٹی معیشتوں کی جان پر بن آتی ہے‘ کیونکہ وہ کوئی بھی بڑا جھٹکا یا صدمہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔ عالمی معیشت میں کساد بازاری کے آثار ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ کسی بھی مناقشے کو ایک خاص حد سے آگے نہ جانے دیا جائے۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے بھرپور اُچھل کود کرنے والے چوہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بِلّی ‘یعنی احتسابی نظام ناگزیر ہے۔ اپیلیٹ باڈی کی مکمل اور بھرپور بحالی یقینی بناکر ہی ڈبلیو ٹی او بہتری کی توقع کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے بڑی طاقتوں کو زیادہ احساسِ ذمہ داری‘ قوتِ برداشت اور ایثار کا مظاہرہ کرنا ہے۔