"MIK" (space) message & send to 7575

ذہنی سطح کا بکھیڑا

دنیا کو جن معاملات کے باعث ہر دور میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے‘ اُن میں پست ذہنی سطح بھی شامل ہے۔ ہر دور میں روئے زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی طور جیے جانے کی ذہنیت سے متصف رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت یہ چاہتی ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کا دردِ سر پالنے کی بجائے معاملات کو کسی نہ کسی طور نمٹایا جائے ‘یعنی جتنی سانسیں قدرت نے عطا کی ہیں‘ اُنہیں کسی نہ کسی طور پورا کرکے اس دنیا سے رختِ سفر باندھا جائے۔ 
علم کے حصول کی لگن اور عملی سطح پر کچھ کر دکھانے کی شدید خواہش کے حوالے سے معاشروں کے عمومی رویوں میں غیر معمولی تفاوت پایا جاتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ واضح طور پر اکثریت میں ہوتے ہیں ‘جو زیادہ سوچنے اور سیکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے میں ہر اُس انسان کے لیے مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ‘جو معاشرے کے عمومی طریق سے الگ ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں خالص معروضی انداز سے سوچنے اور منصوبہ سازی کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ایڈجسٹمنٹ انتہائی جاں گُسل مرحلے کا درجہ رکھتی ہے۔ 
لگی بندھی سوچ کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ کام کرنے میں سب سے بڑی الجھن یہ درپیش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی نئی بات کو آسانی سے قبول نہیں کرتے اور اگر کسی نہ کسی مجبوری کے ساتھ ایسا کرنا ہی پڑے تو معاملہ بیزاری سے شروع ہوکر بیزاری پر ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں اکثریت نہ سوچنے یا سوچنے سے واضح طور پر گریز کرنے والوں کی ہو‘ وہاں سوچنے والوں کے لیے مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوچنے سے شغف رکھنے والوں کو شدید مزاحمت یا مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جبکہ مخالفین بدنیت بھی نہیں ہوتے! 
عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا بہت ہی عمومی‘ بلکہ پست ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھوں اعلیٰ ذہن و دل کے حامل افراد کو ہمیشہ انتہائی جارحانہ مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ آئن سٹائن نے ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے ‘جو عالمگیر ہے اور ہر دور سے تعلق رکھتی ہے‘ جنہیں سوچنے سے شغف بھی نہ ہو اور سوچنے کی اہمیت سے بھی انکاری ہوں‘ وہ کبھی کسی بھی نئے خیال کا کھلے دل سے خیر مقدم نہیں کرتے۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے ‘کیونکہ اُنہیں کسی بھی نئے خیال یا آئیڈیا کی اہمیت کا کماحقہ اندازہ نہیں ہوتا۔ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کی عادت اُن سے سوچنے کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لیتی ہے۔ جو چیز مزاج میں نہ ہو‘ اُسے وہ بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ نہیں پاتے۔ 
دنیا میں جتنے بھی بڑے مناقشے واقع ہوئے ہیں‘ وہ سوچ کی خرابی ہی کا نتیجہ ہیں۔ جب کسی نئی اور ٹھوس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے‘ تب خرابی پیدا ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جامد ذہن رکھنے والوں کے لیے کچھ بھی نیا سوچنا سوہانِ روح ہوتا ہے۔ ایک طرف تو رجحان یا شغف نہیں ہوتا اور دوسری طرف مستقل مزاجی کے ساتھ کی جانے والی مشق بھی نہیں ہوتی۔ 
بات گھر کی ہو‘ ادارے کی یا پھر حکومتی مشینری کی‘ ہر جگہ جامد سوچ مشکلات پیدا کرتی ہے۔ حالات اور معاملات سے مطابقت رکھنے والی تعمیری سوچ سامنے آتی ہے تو بہت سوں کے لیے دردِ سر کا سامان کرتی ہے۔ پست ذہنی سطح کے حامل افراد ہر وقت اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ کوئی بھی نیا خیال جڑ نہ پکڑے اور مقبولیت سے ہم کنار بھی نہ ہو‘ کیونکہ ایسی صورت میں اُنہیں بھی سوچنا پڑتا ہے اور جب سوچنے کی منزل سے گزرنا لازم ہو جاتا ہے تب عمل کی راہ پر بھی گامزن ہونا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سوچنے سے گریز کرنے والے ‘یعنی پست ذہنی سطح کے لوگ جب معاملات پر متصرف ہوں ‘تب سوچنے والوں کے لیے مسائل کھڑے کرتے ہیں‘ بلکہ اُن کے لیے مسئلے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ 
اس دنیا میں کسی بھی حوالے سے جتنی بھی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے‘ وہ ذہنی سطح کی بلندی سے ممکن بنائی جاسکی ہے۔ ہر شعبے کو بلندی تک لے جانے میں بلند سوچ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ذہنی سطح بلند کیے بغیر ہم کسی بھی نوع کی ترقی اور خوش حالی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آج دنیا بھر میں‘ حتیٰ کہ محض پس ماندہ نہیں‘ بلکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں میں بھی ذہنی سطح کو بلند کرنے کا معاملہ انتہائی پریشان کن کیفیت کا حامل ہوچکا ہے۔ عوام ذہنی سطح کو بلند کرنے کے حوالے سے غیر معمولی مشکلات محسوس کرتے ہیں‘ اِس لیے یہ بھاری پتّھر چُوم کر رکھ دیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو لوگ اس پتّھر کو چُومنے سے بھی گریز کرتے ہیں! 
ذہنی سطح کو بلند کرنا دنیا کے چند انتہائی پیچیدہ مسائل میں سے ہے۔ کم و بیش ہر معاشرہ کسی نہ کسی شکل میں ایک معیار اور سطح پر سمجھوتا کرلیتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ کسی بڑی تبدیلی کے بغیر زندگی گزرتی رہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں نفع کا سودا یہ ہے کہ زیادہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر اور ذہن کو زیادہ متحرک کیے بغیر جیا جائے۔ بہت سوں کے نزدیک ذہنی سطح بلند کرنے کی کوشش مفت کا دردِ سر ہے۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ جب ایسا کیے بغیر کام چل ہی رہا ہے تو پھر ایسا کیوں کیا جائے۔ 
سرسری طور پر دیکھیے تو اُن کی بات بھلی لگتی ہے۔ بہت سے معاشروں میں ذہنی سطح بلند کیے بغیر بھی کام چل ہی رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ذہن کے پردے پر یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ ذہنی سطح کیوں بلند کی جائے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جب معاشروں پر جمود طاری ہوتا ہے‘ تو پائی جانی والی ہر کیفیت کافی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں کچھ نیا سیکھنے‘ سوچنے اور ذہنی سطح بلند کرنے کی سوچ ماند پڑتی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب لوگ ذہنی سطح بلند کرنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ 
ذہنی سطح کا بلند کیا جانا کیوں لازم ہے؟ اس سوال کا بہت سیدھا اور آسان جواب البرٹ آئن سٹائن نے یوں دیا ہے کہ ہم اپنے مسائل کو اُس ذہنی و فکری سطح کے ذریعے حل نہیں کرسکتے ‘جو اُن مسائل کے پیدا ہوتے وقت تھی‘ یعنی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بلند تر ذہنی سطح درکار ہوا کرتی ہے۔ دنیا نے کسی بھی شعبے میں پیش رفت اُسی وقت یقینی بنائی ہے ‘جب سوچنے کے عمل کو اہم گردانتے ہوئے ذہنی سطح بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ تازہ ترین مثال یورپ کی ہے ‘جس نے ڈھائی تین صدیوں کے دوران اَن تھک محنت کے ذریعے جدید ترین علوم و فنون میں مہارت کا گراف بلند کیا اور عمومی طور پر بھی ذہنی سطح بلند کرنے کو اہمیت دی۔ جب عوام بہتر انداز سے سوچنے کے قابل ہوئے تو مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوئی اور یوں یورپی معاشروں میں نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ 
پاکستان جیسے معاشروں کے لیے اب ناگزیر ہوچکا ہے کہ جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے اور عمومی ذہنی سطح بلند کرنے کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے‘ تاکہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا ممکن ہی‘ آسان بھی ہوسکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں