دل کا بھی عجیب ہی معاملہ ٹھہرا۔ اگر تنہائی محسوس کرنے پر آئے تو بھری بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کرے اور اگر طے کرلے کہ تنہائی کو محفل میں تبدیل کرنا ہے تو خیالوں کی انجمن اِس طور سجائے کہ دنیا دیکھے اور حیران رہ جائے۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو!
ہم جو کچھ بھی ہیں وہ ذہن اور دل کی کارکردگی سے ہیں۔ ذہن سوچتا ہے اور دل محسوس کرنے پر مامور ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ ذہن کی خوراک ہے‘ کیونکہ حواسِ خمسہ کی مدد سے ملنے والی معلومات کا ذہن تجزیہ کرتا ہے اور اس تجزیے کی بنیاد ہی پر ہم اپنے لیے کوئی موثر لائحۂ عمل طے کرتے ہیں۔ دل محسوسات کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی صورتِ حال میں رونما ہونے والی نمایاں طور پر مسرّت انگیز یا مثبت تبدیلی دل کو کلی کی طرح کِھلنے کی تحریک دیتی ہے۔ ایسے میں انسان غیر معمولی فرحت محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس کبھی کبھی معاملات کی خرابی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ لوگ اچھے خاصے ہنستے گاتے ماحول میں بھی پژمردہ دکھائی دیتے ہیں۔
صورتِ حال میں رونما ہونے والی ہر منفی تبدیلی اور معاملات میں ابھرنے والی ہر خرابی انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے۔ پُرمسرّت لمحات میں تو لوگ کچھ نہ کچھ اچھا سیکھتے ہی ہیں اور دوسروں کے لیے بھی کچھ اچھا کرنے کی تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں‘ مزا تو جب ہے کہ حالات کی خرابی سے بھی کوئی اچھا سبق سیکھ کر زندگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہوا جائے۔
کسی بھی انسان کے لیے امتحان کی سب سے بڑی گھڑی وہ ہے جب پیٹ خالی ہو۔ زندہ رہنے کے لیے کھانا اور پینا لازم ہے۔ جب کھانے کے لالے پڑے ہوں تب انسان کے لیے حواس بحال رکھنا قیامت کا سا مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ خوراک کا بندوبست ڈھنگ سے نہ ہو پائے تو حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور ایسے میں دانش کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان کا اصل امتحان یہی تو ہے کہ کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں تب بھی تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
آج کی دنیا میں یہ ساری باتیں کتابی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر اس موضوع پر کسی سے بحث کیجیے تو جواب ملتا ہے یہ سب کہنے کی باتیں ہیں‘ آج کی دنیا میں اِن پر عمل کون کرتا ہے؟ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ ہم دن رات مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ لوگ گزارے کی سطح پر زندہ رہتے ہیں اور بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی کوشش میں انسان ساری شائستگی اور تہذیبی روایات داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔ اس معاملے میں آج کے انسان کی نفسی خرابی کچھ زیادہ ہے۔ ہر دور کا انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے تگ و دَو کرتا آتا ہے‘ مگر فی زمانہ یہ معاملہ بہت سی خرابیوں کی آماجگاہ بن چکا ۔ انسان کی بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء صحیح یا مطلوب تناسب سے نہ مل پانے کی صورت میں تمام تہذیبی روایات اور شائستگی بالائے طاق رکھ کر غار کے زمانے کے انسان کی سی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے پر تُل جاتا ہے۔
فی زمانہ عام آدمی کو بہت سے معاملات میں معقول طرزِ فکر و عمل اپنانے کے حوالے سے خاصی تربیت کی ضرورت ہے۔ مشکلات میں ہر انسان کا حصہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ وہ کسی کے لیے آسانی اور کسی کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو صرف مشکلات کا سامنا ہو۔ کبھی کبھی حالات آسانیاں بھی پیدا کرتے ہیں۔ زندگی ‘اسی طور کھٹّی اور میٹھی ہے۔ کبھی کھٹاس بڑھ جاتی ہے اور کبھی مٹھاس!!
اکیسویں صدی میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں‘ جو دن رات تبدیل نہ ہو رہا ہو۔ ایک دور تھا کہ کسی ایک شعبے میں مہارت پیدا کرکے اُسی کو کیریئر کے طور پر اپنالیا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ۔ ہر شعبہ تبدیلی کے عمل سے متواتر گزر رہا ہے۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ انسان اپنے کیریئر اور روزگار کی بقاء یقینی بنانے کے لیے نئی باتیں سیکھتا رہے۔ سیکھنے کا عمل اگر ترک کردیا جائے تو انسان راتوں رات بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
خالی پیٹ کی طرح خالی جیب بھی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ معاشی مشکلات کا سامنا ہونے پر ہی انسان کو اپنی بہت سی صلاحیتوں اور سکت کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ جب معاملات قدرے نارمل چل رہے ہوں‘ یعنی کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہو رہی ہو تو انسان پُرسکون زندگی بسر کرتا ہے۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
یہ اضطراب ہی تو ہے جس کے دم سے دنیا کی رونق ہے۔ جو تبدیلی کسی کے لیے موافق ہوتی ہے وہی کسی اور کے لیے ناموافق ہوتی ہے۔ دنیا کا کاروبار اسی طور چلتا ہے۔ دنیا ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے۔ آج کا انسان‘ چونکہ اپنے حواس پر غیر معمولی دباؤ محسوس کر رہا ہے‘ اس لیے بات بات پر پریشان ہو اُٹھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ آج ہمیں جھیلنا پڑ رہا ہے ‘ویسا ہی کچھ ہر دور کے انسان کو جھیلنا پڑا ہے۔ ہاں‘ معاملات کی نوعیت ضرور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کسی زمانے میں حکمرانوں کی خباثتیں ناک میں دم کرتی تھیں۔ آج ٹیکنالوجی کی پیش رفت دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نجات کسی کے لیے نہیں۔ سبھی کو اپنے حصے کا عذاب جھیلنا ہے۔
بہتر انداز سے گزر بسر کرنے کی کوشش اور معاشی معاملات کو قابلِ رشک حد تک لے جانا ہر انسان کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ اب پوری زندگی اس ایک مقصد کے حصول کی راہ میں صرف ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور اگر صرف بھی ہو رہی ہو تو کوئی بات نہیں‘ یہاں تو معاملہ ضیاع کا دکھائی دے رہا ہے!
انفرادی سطح کی معاشی مشکلات نے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ایک بڑے ''مشن‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ لوگ اس حوالے سے دن رات محنت کرتے ہیں‘ مگر جب مطلوب نتائج نہیں مل پاتے تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ امتحان یہی تو ہے کہ معیارِ زندگی بلند تر کرنے کی کوشش بھی جاری رکھنی ہے اور افسردگی سے بھی بچنا ہے۔ وقت نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ آن کی آن میں بہت کچھ بدل جاتا ہے اور ہمارے حواس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اثر پذیری حیرت انگیز نہیں۔ ہاں‘ اکیسویں صدی کی یہ خصوصیت اب ہمارے لیے زیادہ حیرت انگیز نہیں رہنی چاہیے۔ ہمیں بدلتے ہوئے اطوار کے مطابق خود کو بدلنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی الجھتی جارہی ہے۔ مسائل کی نوعیت بھی کچھ کی کچھ ہوتی جارہی ہے اور شدت بھی۔ ایسے میں ہر انسان کو حواس قابو میں رکھتے ہوئے چلنا ہے۔ ہم اور آپ بھی اِس کُلیے سے مستثنٰی نہیں۔
دنیا ایسے موڑ پر آگئی ہے‘ جہاں شخصی آزادی کا غلغلہ ہے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ ہر انسان کے لیے تنہائی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ آج ہر انسان کو اپنی بقاء یقینی بنانے کا مرحلہ درپیش ہے۔ وہ بھری بھیڑ میں بھی اکیلا ہے‘ کیونکہ سب کو اپنی پڑی ہے۔ اجتماعیت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی گھوم پھر کر انفرادیت کی چوکھٹ ہی پر قربان ہو رہا ہے۔ آپ بھیڑ میں تنہائی محسوس کرنے والے انسان ہیں‘ مگر تنہائی کے احساس سے گھبراکر گوشہ نشینی اختیار نہیں کرنی۔ پورے عزم کے ساتھ ڈٹے رہنا ہے‘ زندگی کا معیار بلند کر دکھانا ہے۔ بس‘ یہی آج کا مقصدِ حیات ہے۔