"MIK" (space) message & send to 7575

ایک نئی تحریک کی ضرورت

اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران یورپی طاقتیں باہم متصادم رہنے کے ساتھ دوسرے خطوں کو زیر نگیں کرنے کی کوشش میں بھی مصروف رہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ پرتگال ؛ سبھی نے جنگ و جدل کے ذریعے استعماریت کے پَر پھیلائے اور زیادہ سے زیادہ خطوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے سرگرداں رہے۔ انیسویں صدی اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس کے دوران رونما ہونے والے واقعات نے عالمی امور کو ایک باضابطہ شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عصری (فطری) علوم و فنون میں غیر معمولی اور تیز رفتار پیش رفت دنیا کو ایک ایسے مقام تک لائی جہاں سے نئے عہد کا آغاز ہوا۔ یہ عہد اپنے ساتھ سیاسی اور معاشرتی سطح پر بھی بہت سی تبدیلیاں لایا۔ بیسویں صدی کی آمد تک دنیا میں بہت کچھ بدل چکا تھا اور مزید بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہونے کی راہ پر گامزن تھا۔ یورپ نے کم و بیش تین صدیاں ایسی حالت میں گزاریں کہ مذہب سے سیاست و معیشت تک سبھی کچھ بدل گیا۔ بہت کچھ ہاتھ آیا اور دوسرا بہت کچھ ایسا تھا ‘جو کچھ اس طرح سے ہاتھ سے جاتا رہا کہ اب کبھی ہاتھ نہ آئے گا۔ یورپ نے صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی اور پھر اس انقلاب کے کاندھوں پر سوار ہوکر اُس نے دنیا کی خوب سیر کی‘ مگر خیر جو کچھ یورپ نے پایا‘ اُس کی بہت بھاری قیمت بھی اُسے ادا کرنا پڑی۔ دنیا نے تو صرف یہ دیکھا کہ یورپی طاقتیں عسکری قوت اور جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت کے ذریعے متعدد ممالک اور خطوں کو مطیع بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس طرف کم ہی لوگوں کا دھیان گیا کہ اس عمل میں یورپ نے اخلاقی اقدار کھودیں‘ خاندانی نظام سے محروم ہوگیا۔ پاپائیت سے عاجز یورپی قیادتوں نے مذہب کو ترقی اور خوش حالی کا دشمن قرار دے کر بالائے طاق رکھ دیا۔ پاپائیت کو لگام دینے کے نتیجے میں چند ایک معاملات درست بھی ہوئے ‘مگر مجموعی طور پر خرابیاں زیادہ پیدا ہوئیں۔ مذہب کو ایک طرف ہٹانے کے نتیجے میں اہلِ یورپ کی سرشت بے لگام ہوگئی۔ قتل و غارت کے طویل ادوار سے گزرنے کے نتیجے میں اُن کے مزاج میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ‘جنہیں دُور کرنا لازم ٹھہرا۔ 
انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں ایک بڑی اصلاحی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اہلِ قلم نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اصلاحی مواد کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کی۔ وہ جانتے تھے کہ ڈھائی تین صدیوں کے عمل میں جو کچھ ہوا ہے‘ اُس کے نتیجے میں عام ذہن بہت حد تک کباڑ خانہ بن چکا ہے۔ ''نیو تھاٹ‘‘ کے زیر عنوان شروع ہونے والی اصلاحی تحریک کا زور تحریر پر تھا۔ اس تحریک نے بڑی تعداد میں ایسے لکھنے والے تیار کیے جن کے رشحاتِ قلم سے کروڑوں افراد کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک ملی۔ ذہنوں میں پیدا ہونے والی کجی اور مزاج میں در آنے والی خرابیوں کو دور کیے بغیر معاشروں کو درست کرنا ممکن نہ تھا۔ اصلاحی مصنفین نے بہت لکھا اور اُس کا مثبت نتیجہ بھی دیکھا۔ بیسویں صدی کے دوران قلم کے ذریعے اصلاح کی تحریک نے یورپ اور امریکا میں مزید زور پکڑا۔ بیسویں کے اوائل ہی سے معاملات خرابی کا شکار تھے۔ دوسرے عشرے کے وسط میں پہلی عالمی جنگ چھڑگئی ‘جس نے یورپ کو غیر معمولی تباہی سے دوچار کیا۔ اس کے بعد 1930ء میں امریکا شدید معاشی ابتری سے دوچار ہوا‘ جس کا اثر یورپ کے علاوہ بھی کئی خطوں پر مرتب ہوا۔ رہی سہی کسر دوسری عالمی جنگ نے پوری کردی۔ دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں یورپ کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا اور امریکا کے لیے جو مشکلات پیدا ہوئیں ‘اُن کا تقاضا تھا کہ لوگوں کو فطری طور پر پیدا ہونے والی منفی سوچ کے چنگل سے نکالا جائے۔ یوں امریکا اور یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر تحریکی (motivational) مواد کی تیاری اور مارکیٹنگ نے زور پکڑا؛ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 
امریکا اور یورپ کے معاشرے دو عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کے باوجود بہت حد تک برقرار و بکار (intact) تھے‘ اس لیے بحالی میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ مادّی معاملات کو درست کرنا بھی دشوار تھا‘ مگر بہت زیادہ نہیں۔ ہاں‘ اخلاقی و روحانی انحطاط کی رفتار کم کرنا ایک بڑا چیلنج تھا اور ہے۔ امریکا اور یورپ میں شخصی ارتقاء اور بہتر زندگی کی تحریک دینے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ عوام میں مثبت سوچ پیدا کرنے کا ٹاسک اہلِ قلم کو ملا تو اُنہوں نے حق ادا کیا اور پڑھنے‘ سمجھنے کے لیے بہت کچھ دیا۔ پاکستانی معاشرہ بھی اس وقت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ معاشی الجھنوں نے نفسی پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے۔ معاشرتی سطح پر زوال کے نتیجے میں اخلاقی اقدار صرف کتب کی حد تک رہ گئی ہیں۔ لوگ اپنے کردار اور مزاج کی اصلاح پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ عمومی سطح پر مزاج کی کجی زندگی کو دشوار سے دشوار تر کرتی جارہی ہے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں عمومی اصلاح پر توجہ دی گئی۔ اشاعتی اداروں نے عام آدمی کو مثبت سوچنے کی تحریک دینے کے لیے بہت کچھ شائع کیا۔ مغرب کی بڑی کتب کے تراجم کیے گئے اور طبع زاد بھی خاصا لکھا گیا۔ آج پاکستانی قوم کو پھر اصلاحی مواد کی ضرورت ہے۔ بڑے مصنفین کے ساتھ ساتھ نئے لکھاریوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر فضول آئٹم اپ لوڈ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے لکھا جائے۔ مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کو آپ بیتی لکھنے پر متوجہ ہونا چاہیے‘ تاکہ نئی نسل کو کامیابی کے حوالے سے اُن کی محنت کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ اس حوالے سے اہلِ قلم کو اپنی ذمہ داری پوری شدت سے محسوس کرنی چاہیے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں