خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور کراچی میں بھی بارش ہوئی تو ویرانوں کا منظر پیش کرنے والے دل باغ باغ ہوئے۔ بارش سے غنچے بعد میں کِھلے، دل پہلے کِھل گئے۔ کِھلنے ہی تھے کہ ایک مدت کے بعد دل کی مراد بر آئی تھی۔ پانی برستا ہے تو زمین اپنے خزانے اگلنے لگتی ہے۔ رب کی عنایاتِ خاص میں بارش کا بہت نمایاں مقام ہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے۔ اور علامت کیوں کہیے، یہ زندگی ہی تو ہے۔ پانی پی کر زمین خوش ہوتی ہے تو اُس کے سینے پر پھول، پھل، گھاس پُھوس سبھی کچھ اُگ آتا ہے۔ پانی اور اُس کے فیضان کی بدولت زمین کے بطن سے ہویدا ہونے والا سبزہ زندگی بن کر لہلہاتا ہے۔ بارش کی مہربانی یعنی بارش کی بدولت اللہ کی مہربانی سے مُرجھائے ہوئے چہرے دوبارہ زندگی سے متصف ہوتے ہیں اور یوں دنیا نئی نئی، نکھری نکھری دکھائی دینے لگتی ہے۔ بارش کی بدولت زمین کی تقدیر چاہے کتنی ہی تبدیل ہو جائے یعنی معاملات درست ہو جائیں، شعراء ہر معاملے کو کسی اور ہی نظر سے دیکھتے اور کسی اور ہی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ اعجازؔ رحمانی مرحوم نے بھی بارش کو کسی اور نظر سے دیکھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کمال کیا۔ اُن کا مطلع ہے ؎
کمال یہ ہوا بارش کی مہربانی سے
زمیں کے زخم ہرے ہو گئے ہیں پانی سے!
اِسے خیال کی ندرت اور زبان کا چٹخارا سمجھ کر محظوظ ہو لیجیے۔ شعراء ندرتِ خیال کے ذریعے ہی توجہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر، ذکرِ بارش ہے۔ ایک تو کورونا کی وبا اور اُس پر بارش۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ لوگ بڑی مشکل سے موقع پاکر یعنی لاک ڈاؤن میں نرمی کی بدولت گھروں سے نکلے تھے اور معمول کی زندگی کے مزوں کی طرف لوٹ رہے تھے کہ بارش نے معاملہ بگاڑ دیا۔ مرزا تنقید بیگ کی تو جان پر ہی بن آئی۔ پہلے ہی اچھی خاصی حد تک گھر کے ہو رہے تھے۔ اب تو واقعی کہیں آنے کے نہ رہے نہ جانے کے۔ ویسے سچ پوچھیے تو حال گھر والوں کا زیادہ بُرا ہے! کورونا کی وبا روکنے کے نام پر متعارف کرایا جانے والا لاک ڈاؤن بھی مرزا کے اہلِ خانہ پر بارش کی صورت ہی برسا ہے۔ بے چارے تین ماہ سے مرزا کو بھگت رہے ہیں۔ بارش کی مہربانی سے مرزا چینلز میں مزید گم ہوئے۔ پہلے بھی شغل یہی تھا یعنی نیوز چینلز پر ''عجیب الفکر‘‘ تجزیے سُن سُن کر اپنے دماغ میں ابھرنے والے عجیب تر خیالات دوسروں تک پہنچانے کے نام پر وہ دوسروں کے دماغ کی لَسّی بناتے آئے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا پھرے، مرزا کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ دوسروں پر کیا بیتتی ہے۔ اُنہیں تو بس اپنا منجن بیچنے سے غرض ہے۔ ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے!
ذرا سی بارش کیا ہوئی، کراچی تو جیسے انتظار میں بیٹھا تھا کہ دیارِ کیچڑ میں تبدیل ہو۔ کہیں کہیں تو یہ عالم ہے کہ دو قدم چلنا بھی دوبھر ہوچکا ہے۔ بارش ہوئی اور ختم بھی ہوگئی۔ بارش کے اثرات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ معمولی سے دورانیے کی بارش کے باعث کئی علاقوں کا یہ حال ہوا کہ حوصلے بیٹھ گئے، پانی کھڑا ہے!
بارش نے بجلی کے نام نہاد نظام کو مزید خرابیوں سے دوچار کردیا۔ بجلی ویسے بھی بھولے بھٹکی چھب دکھلاتی تھی، اب تو اُسے ایسا بہانہ ملا ہے کہ پوچھیے مت۔ متعلقہ ادارے کو بھی بہانہ مل گیا کہ پانی کے باعث لوگوں کو کرنٹ لگ سکتا ہے‘ اس لیے بجلی کی فراہمی کا موقوف رکھا جانا ہی قرینِ دانش ہے! لیجیے صاحب، ہوگیا بجلی کا ڈبہ گول۔ اب حالت یہ ہے کہ بعض علاقوں سے بجلی یوں غائب رہتی ہے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ شدید گرمی اور حبس میں عوام کا کیا حال ہوتا ہے یہ تو عوام ہی بیان کریں تو کچھ پتا چلے۔ صورتِ حال کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ عوام بے چارے اپنا حالِ زار بیان کرنے کے قابل بھی نہیں رہے! کراچی کا بھی عجیب ہی مقدر ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے ع
گویم مشکل و گر نگویم مشکل
کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لیتے‘ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی ان مسائل کو حل کرنے نکلے تو مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔
اہلِ کراچی بھی کیا تقدیر لائے ہیں کہ جب کوئی اُن کی پریشانیاں دور کرنے کی ٹھانتا ہے تو پریشانیاں بڑھ کر مزید ناک میں دم کرنے لگتی ہیں۔ یہ تماشا دیکھ کر کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ اب کہیں سے کوئی اپنے تئیں نجات دہندہ گردانتا ہوا نہ آئے، معاملات جوں کے توں رہیں تو اچھا۔ جب کسی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار پانے والے معمورے کو یوں بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے تب ایسے ہی معاملات سامنے آیا کرتے ہیں۔ جب بھی کسی بڑے معمورے کو نظر انداز کیا جاتا ہے تب پوری ریاست کے لیے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کراچی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہونا ہی تھا کیونکہ جو امر مسلّم ہے‘ وہ ہوکر رہتا ہے۔
اِسے بدنصیبی نہیں تو اور کیا کہیے کہ بارش جیسی نعمت جب کراچی کا رخ کرتی ہے تو مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم اللہ کی رحمت کا خیر مقدم کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔ یہ تو خالق و رب کو ناراض کرنے والی بات ہوئی۔ کراچی سمیت پورا ملک انتظامی سطح پر فوری توجہ چاہتا ہے تاکہ برسوں کے جمع شدہ اور بگڑے ہوئے معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوں۔ دیر‘ پہلے ہی اچھی خاصی ہوچکی ہے، مزید تاخیر کی تو ظاہر ہے کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ بارش کے نتیجے میں معاملات کا مزید الجھ جانا کراچی کے معاملے میں تو ہر سال کا رونا ہے۔ لوگ بارش کی دعائیں مانگتے ہیں اور پُرامید رہتے ہیں کہ اللہ اُن کی ضرور سُنے گا۔ حالات ہنستے ہوئے کہتے ہیں ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو!
اللہ کی ذات سمیع بھی ہے اور علیم و خبیر بھی۔ اللہ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بارش سے ہم پر کیا بیتے گی! اللہ ہی کو علم ہے کہ کون سی چیز ہمارے حق میں ہے اور کون سی ہمارے خلاف جاسکتی ہے۔ اہلِ کراچی کے لیے بارش کا معاملہ بھی تو ایسا ہی ہے۔ اہلِ شہر بارش کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ بارانِ رحمت کے لیے دعا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اللہ اپنی رحمت برسانے سے قبل ہماری سکت بھی دیکھتا ہے۔ جب اللہ کی رحمت برستی ہے تو اُسے قبول کرنے کی سکت ہم میں بالعموم نہیں ہوتی۔ تھوڑی بہت بارش ہو تو موسم خوش گوار ہوتا جاتا ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ خصوصی فیاضی دکھانے پر آئے تو ہماری جان پر بن آتی ہے۔
بہت کچھ ہے جو درست کرنا ہے۔ عشروں کے عمل میں انتہائی خطرناک شکل اختیار کرنے والے مسائل اور پیچیدگیوں کو تیزی سے حل کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہوں۔ محض باتوں سے کچھ نہیں ہوا کرتا۔ نتائج مطلوب ہیں تو عمل کو ترجیحی بنیاد پر اپنانا پڑے گا۔ بہتر زندگی کے لیے ہمیں بہت کچھ بدلنا‘ درست کرنا ہے۔ موسم کی سختی کو نرمی میں تبدیل کرنا بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے بطریقِ احسن نمٹنے کے لیے غیر معمولی تیاری لازم ہے۔ ہم نے اب تک اس معاملے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں، کچھ کرنے کا سوچیں۔ اور محض سوچنے کی منزل ہی میں نہ رہیں بلکہ عملی سطح پر بھی کچھ کریں۔ اِتنے بڑے شہر کو منصوبوں کی بھی ضرورت ہے اور عمل کی بھی۔ جب ان دونوں کا تال میل ہوگا تب ہی ایسی کیفیت ہوگی کہ پانی برسنے سے زمین کے زخم ہرے نہیں ہوں گے بلکہ معاملہ واقعی اللہ کی رحمت سے شروع ہوکر رحمت پر ختم ہوگا۔