کوشش تو ہم بھی کرکے دیکھ چکے ہیں مگر ہر بار ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے۔ پُرانی عادتیں بھی پُرانے دوستوں کی طرح ہوتی ہیں، آسانی سے جان نہیں چھوڑتیں۔ کراچی میں زندگی گزری ہے اور زندگی کا بڑا حصہ گھر سے باہر گزرا ہے کہ یہی اب اِس شہر کی ریت ہے۔ اب آپ سے کیا چھپانا؟ آمدم برسرِ مطلب۔ معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی یہ طے نہیں کرسکتا کہ ہم کمبل کو نہیں چھوڑ رہے یا کمبل ہمیں نہیں چھوڑ رہا۔ اہلِ کراچی اب رات رات بھر گھر سے باہر یعنی ہوٹلوں کے باہر لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر بتیانے کے ایسے رسیا ہوچکے ہیں کہ ع
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ایک دور تھا کہ رات کے نو بجتے ہی گھروں میں بستر بچھادیے جاتے تھے۔ رات نو بجے کا خبر نامہ ختم ہوتے ہی شہر اونگھنے لگتا تھا۔ رات دس بجے تک گلیوں میں سنّاٹا چھا جایا کرتا تھا۔ لوگ دن بھر کی مشقّت کے بعد کھا پی کر سو جانے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ صبح پھر کام پر جانے کا مرحلہ درپیش ہوتا تھا۔ یہ مرحلہ تو آج بھی درپیش ہوتا ہے مگر اب سب نے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے۔ آج کسی بھی دکان‘ دفتر یا فیکٹری کے مالک سے پوچھیے کہ جو لوگ کام کر رہے ہیں اُن کی کارکردگی سے آپ پوری طرح مطمئن ہیں تو جواب نفی میں ملے گا۔ اگر کہیے کہ ڈھنگ سے کام نہ کرنے والوں کو نکال کیوں نہیں دیتے تو جواب ملتا ہے ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پوری ''لاٹ‘‘ ہی خراب ہے! جسے بھی لایا جائے گا وہ ناکارہ اور کام چور ہی نکلے گا۔ خیر! بات ہو رہی ہے کراچی کے روشن و رخشاں ''کلچر‘‘ کی۔ شب بیداری اب کراچی کی شناخت بن چکی ہے۔ اچھے خاصے شہر کو روشنیوں کا شہر قرار دے دے کر لوگوں نے ایسا جگایا ہے کہ اب یہ سونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس شہر نے اپنے مکینوں پر ایسا جادو کیا ہے کہ اب رات رات بھر جاگنا مزاج اور معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ اگر کسی کو رات جلد سونے کا موقع ملے تب بھی آنکھ نہیں لگتی۔ ؎
مرنے کے بعد بھی مِری آنکھیں کھلی رہیں
عادت جو پڑ گئی تھی ترے انتظار کی
رات بھر جاگنے کی عادت ایسی پڑی ہوئی ہے کہ جب دنیا کسی نہ کسی طور خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہی ہوتی ہے تب ہم اور ہمارے قبیل کے دوسرے بہت سے لوگ آنکھوں میں نیند بھرنے کے لیے اپنے آپ سے لڑ رہے ہوتے ہیں! ہم نے جب سے عملی صحافت شروع کی یعنی 1992ء میں ایک قومی روزنامے کے مرکزی نیوز ڈیسک سے وابستہ ہوئے تب سے اب تک نائٹ ڈیوٹی ہی کی ہے۔ جس وقت لوگ کام پر سے واپس آرہے ہوتے ہیں تب ہم کام پر جارہے ہوتے ہیں۔ ع
دستور ہے نِرالا عامل صحافیوں کا
ہم تو خیر اپنے آپ کو تھوڑے بہت گریس مارکس دے کر خوش ہولیتے ہیں۔ ہماری تو ڈیوٹی کی مجبوری ہے کہ رات کے ساڑھے تین بجے تک واپسی ہوتی ہے۔ جنہیں صبح آٹھ بجے کام پر جانا ہوتا ہے وہ رات آٹھ بجے سے تین بجے تک ہوٹلوں کی کرسیوں پر کیوں براجمان رہتے ہیں؟ پوچھیے تو جواب ملتا ہے کیا کریں، گھر میں بیٹھا ہی نہیں جاتا ع
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو
اہلِ خانہ ترستے ہی رہتے ہیں کہ کچھ دیر گھر میں بیٹھیے، اُن کے ساتھ بھی کچھ وقت گزاریے مگر یاروں کا معاملہ یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ بعض کا تو یہ حال ہے کہ کام پر سے واپسی کے بعد باہر دوستوں میں جانے سے قبل تھوڑی سی دیر کے لیے بھی گھر میں بیٹھنا پڑے تو سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگتی ہے۔ کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے حکومت نے لاک ڈاؤن متعارف کرایا تو دوسرے بہت سے کاروباروں کی طرح ہوٹل بھی بند کردیے گئے۔ رات بھر جاگنے والے اہلِ کراچی کے لیے تو یہ ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا معاملہ تھا۔ ملنا جلنا اور مل بیٹھنا ہی ختم ہوگیا۔ دو چار دن ہی میں کیفیت یہ ہوگئی کہ ؎
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
رات کے سنّاٹے پر جان و دل سے فدا ہونے والوں کے لیے تو ہوٹلوں کا بند کردیا جانا قیامت سے کم نہ تھا۔ ایسے میں ''چور چوری سے جائے‘ ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ والی کہاوت کا مفہوم بھی کچھ کچھ سمجھ میں آیا۔ بعض ''اہلِ دل‘‘ قسم کے شب پرستوں کو ہم نے، لاک ڈاؤن کے دوران، بند ہوٹلوں کے باہر گہری تاریکی میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھی وقت کا قتلِ عام کرتے دیکھا۔ اُن کی حالت خاموشی کی زبان سے کہہ رہی تھی ع
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے!
لاک ڈاؤن کے دوران ہوٹلوں کی بندش نے بہت سوں کو گھروں تک یوں محدود کیا کہ اب ہوٹل تو کھل گئے ہیں مگر وہ معمول بحال نہیں کر پارہے۔ جو روزانہ رات بھر گھر سے باہر رہتے تھے وہ چار ماہ تک مل نہیں پائے اور اب کچھ بیان بھی نہیں کر پاتے کہ دل و نظر پر کیا بیت گئی ہے! ع
کیسے گزر گئی ہے جوانی نہ پوچھیے
ابھی کل ہی کی یعنی چار پانچ ماہ پہلے کی تو بات ہے کہ ہم بھی اپنے اپارٹمنٹ کے نیچے محفلِ شب سجایا کرتے تھے۔ حلقۂ یاراں ہوتا تھا اور ہم ہوتے تھے۔ بُرا ہو کورونا کا کہ وہ محفل ہی اجڑگئی۔ کل‘ کم و بیش پانچ ماہ کے بعد‘ بھائی حشمت سے ملاقات ہوئی۔ حالات کا رونا روتے ہوئے انہوں نے پوچھا کسی سے ملاقات ہوئی یا نہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ دفتر سے رات کو ساڑھے تین بجے تک واپسی ہوتی ہے۔ اگر کوئی محفل آباد کی گئی ہو تو وہ بھی رات کے پچھلے پہر تک اجڑ ہی چکی ہوتی ہے۔ بھائی حشمت نے پوچھا: کیا حسن بھائی بھی نہیں آتے؟ وہ تو پُرانے پاپی ہیں یعنی رات کے راہی ہیں۔ ہم نے یاد دلایا کہ حسن علی امام نے جب یہ دیکھا کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھنا نصیب نہیں ہو پارہا یعنی محفل اجڑگئی ہے تو موقع غنیمت جانتے ہوئے وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر گھر بسالیا! حسن علی امام کی دانش کو داد دیتے ہی بنے گی کہ اُنہوں نے اِس حقیقت کو ذہن نشین رکھا کہ عام حالات میں تو رات ہوٹلوں کے باہر یا فٹ پاتھوں پر دوستوں کی نذر ہو جاتی ہے‘ اچھا ہے کہ گھر ہی بسالیا جائے۔ لاک ڈاؤن میں شریکِ حیات کو اِس بات کا رونا رونے کا موقع تو نہیں ملے گا کہ اُسے وقت نہیں دیا جاتا!
یعنی لاک ڈاؤن ختم ہوا، ہوٹل کھل گئے اور بزم ہائے یاراں آباد ہوئیں۔ کراچی کی راتیں ایک بار پھر جگمگارہی ہیں۔ ہر طرف ع
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
کا سماں ہے۔ چار ماہ سے بھی زائد مدت کے ترسے ہوئے اور راتوں کو نیند کی نذر کرنے والے ایک بار پھر ہوٹلوں کو آباد کر رہے ہیں۔ حکیم مومن خاں مومنؔ نے شاید ایسے ہی لمحات کے لیے کہا تھا ؎
پھر بہار آئی، وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
کراچی جاگ اٹھا ہے۔ جہاں چار پانچ ماہ سنّاٹوں کا راج رہا‘ وہاں ایک بار پھر محفلیں سج رہی ہیں۔ یہ سب بہت اچھا ہے مگر اِن چار پانچ ماہ کے دوران جنہیں گھر راس آگیا ہے اُنہیں ہمارا پُرخلوص مشورہ ہے کہ قدرت کے انتظام کو سمجھیں اور گھر کو دل میں گھر کرلیں۔ اور حسن علی امام کے لیے ہمارا خصوصی مشورہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران جو فیصلہ کیا اُسے اللہ کی عنایت سمجھیں اور گھر کو وقت دینے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اگر شہر کی بحال ہوتی ہوئی رونقِ شب پر ایک بار پھر فدا ہونے کا تہیہ کرتے ہوئے انہوں نے گھر کو ثانوی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تو اوروں کے ساتھ ساتھ ہم بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ع
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا!