سارے دکھ سوچنے سے ہیں۔ پنجابی کی وہ کہاوت تو آپ نے سُنی ہوگی کہ جہاں سوچیں نہیں ہوتیں وہاں موجیں ہی موجیں ہوتی ہیں؛ یعنی زندگی دکھوں سے دور اور مسرت سے ہم کنار رہتی ہے۔ ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو برملا کہتے ہیں کہ جو سوچوں میں گم رہتے ہیں وہ زندگی کے حقیقی لطف سے ناآشنا رہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مزے سے جینا ہے تو سوچنے کا عمل ترک کردیجیے۔
سوچنے کا عمل ترک کرنے سے کیا ہوگا؟ زندگی شادمانی سے بھر جائے گی؟ کیا نہ سوچنا ہمیں تمام مشکلات سے نجات دلانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا؟ سوچنے کے عمل سے گریز ہمیں ایسی ذہنی حالت کی طرف لے جائے گا جس میں ہر طرف سکون ہی سکون، مسرت ہی مسرت ہو؟ بادی النظر میں ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ جو لوگ بہت سوچتے ہیں اُنہیں مشکلات میں گِھرا ہوا دیکھا گیا ہے۔ سوچیں انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں رہنے دیتیں۔
بھروسا آنکھوں کا ہے نہ ذہن کا۔ آنکھیں ایسا بہت کچھ دیکھتی ہیں جو واقع نہیں ہو رہا ہوتا مگر واقع ہوتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ذہن کا بھی ہے۔ ذہن میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے جو حقیقی زندگی سے کچھ خاص تعلق نہیں رکھتا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سوچوں کا بھی ہے۔ سوچیں ہوتی کچھ ہیں اور دکھائی کچھ دیتی ہیں۔ بعض معاملات میں یہ صریح دھوکا دیتی ہیں۔ ذہن میں ایسا بہت کچھ پنپتا رہتا ہے جس کے پنپنے کا کوئی عقلی یا اخلاقی جواز نہیں ہوتا۔ ماحول میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات ذہن پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں ذہن میں بہت سی بے بنیاد باتیں پنپتی رہتی ہیں جو رفتہ رفتہ خیالات کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ یہ خیالات اظہار چاہتے ہیں۔ اگر اظہار کا موقع نہ ملے تو یہ اندرونی الجھاؤ کو کسی اور شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ سوچ کا ٹیڑھا ہو جانا بھی اِسی کیفیت کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ ؎
ساری بے رنگ سوچ کے چہرے
لفظ پہنیں تو پھر نکھرتے ہیں
اس حقیقت کو سمجھنا انتہائی لازم ہے کہ عام حالات میں ہم جنہیں سوچیں قرار دیتے ہیں وہ کسی بھی درجے میں سوچیں نہیں ہوتیں۔ مختلف واقعات اور حادثات کے نتیجے میں ذہن کا منتشر ہو جانا خیالات کو بھی منتشر کردیتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان ڈھنگ سے سوچ نہیں پاتا۔ سوچنے کی صلاحیت اگر کمزور پڑ جائے تو انسان عمومی سطح پر صرف پریشان ہو رہا ہوتا ہے اور اِسی کو سوچنے کا عمل سمجھ کر خوش ہولیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی سطح پر لوگ صرف پریشان اور بدحواس ہو رہے ہوتے ہیں اور اِس کیفیت کو سوچ یا خیالات سمجھ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں۔
کوئی بھی صورتِ حال ہمارے لیے دو بنیادی چیلنج کھڑے کرتی ہے۔ پہلا چیلنج ہوتا ہے بدحواسی سے بچنا۔ ذرا سی بھی بحرانی کیفیت ہمارے ذہن میں پنپنے والے خیالات کو منتشر کرکے ہمیں بے خیالی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس مرحلے میں ہمیں ہر وہ چیز پریشان کرتی ہے جو رونما یا واقع ہو رہی ہو۔ اِسی سے بدحواسی جنم لیتی ہے۔ بدحواسی کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی دیکھ اور جھیل رہے ہوتے ہیں اُس سے مطابقت رکھنے والا ردِعمل ظاہر کرنے کے بجائے بے ربط و غیر ہم آہنگ ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اِس سے متعلقین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم صورتِ حال سے مطابقت رکھنے والی سوچ کو پروان چڑھانے کے بجائے صرف پریشانی سے دوچار ہیں۔
اس نکتے پر غور کرنا لازم ہے کہ عمومی سطح پر ہم مختلف واقعات و حادثات کا اثر قبول کرتے ہوئے صرف پریشان ہو رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کو تفکر سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ ہر صورتِ حال ہم سے کسی نہ کسی سطح پر غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ تقاضا نبھانا لازم ہے تاکہ معاملات کو درست کرنے کی راہ نکلے۔ عام آدمی کسی بھی مشکل یا ناخوش گوار صورتِ حال کا سامنا ہونے پر پریشان ہو اٹھتا ہے۔ محض پریشان ہونے ہی کو وہ سوچنا سمجھ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سوچنے اور پریشان ہونے میں اچھا خاصا فرق ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص فکر مند ہے تو اِس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف پریشان ہے اور پریشان ہو رہنے ہی کو سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ سوچنے کا عمل محض پریشان ہونے سے کہیں مختلف اور برتر عمل ہے۔ یہ عمل باضابطہ ذہانت اور مشق کا طالب ہے۔ پریشان ہو رہنا کم و بیش ہر انسان کے لیے ممکن ہے مگر ڈھنگ سے سوچنا اور اپنے معاملات کو درست کرنے کی منصوبہ سازی کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک ہنر ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ سوچنا چونکہ ایک باضابطہ عمل اور ہنر ہے اس لیے غیر معمولی توجہ بھی چاہتا ہے۔
فی زمانہ دنیا بھر میں سوچنے کا عمل سکھانا ایک اہم اور خاصا منافع بخش علمی شعبہ ہے۔ کئی مصنفین سوچنے کے حوالے سے لکھنے کی بدولت غیر معمولی نام کماچکے ہیں۔ اِن میں ایڈورڈ ڈی بونو خاص طور قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں زندگی بھر سوچنے کے عمل کے بارے میں سوچا اور لکھا ہے۔ سوچنے کے بارے میں اُن کی کتابیں غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ نیتھینیل برینڈن نے بھی سوچنے کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوچنے کا معاملہ محض پریشان ہونے سے درست نہیں ہو پاتا بلکہ مزید الجھ جاتا ہے۔ وہ اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ عام آدمی کو سوچنے کا ہنر سیکھنے کے معاملے میں سنجیدہ ہونا چاہیے تاکہ اُسے اچھی طرح اندازہ ہوسکے کہ کب وہ محض پریشان ہوتا ہے اور کب واقعی سوچ رہا ہوتا ہے۔ ؎
پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
سوچنے کا مطلب ہے اپنے حالات کا بغور جائزہ لینے کے بارے میں اُنہیں درست کرنے سے متعلق ممکنہ اقدامات کا جائزہ لینا۔ جنہیں سوچنا آتا ہے وہ امکانات کے بارے میں ذہن تیار کرتے ہیں۔ ہر وہ خیال اہم ہے جس میں کسی امکان کی گنجائش دکھائی دیتی ہو۔ ہر کامیاب معاشرہ سوچ کے اعتبار سے مستحکم اور متوازن ملے گا۔ جس معاشرے میں لوگ سوچنا جانتے ہیں اُن میں پریشانیوں کا گراف گرتا جاتا ہے اور زندگی زیادہ سے زیادہ شادمانی سے ہم کنار ہوتی جاتی ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ سوچنے کے نام پر محض پریشان ہونے کا شوقین ہے۔ لوگ صورتِ حال کے ہر بگاڑ پر پہلے سے زیادہ بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امکانات کے بارے میں سوچنے کا رجحان اب تک پوری طرح پنپ نہیں سکا۔ لوگ ذرا سی بات پر بدک جاتے ہیں، ذہنی توازن سے محروم ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سوچنے کے بجائے محض پریشان ہو رہنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ بہت کچھ درست ہوسکتا ہے۔ سوچنا شرط ہے۔ سوچنے کا عمل ہی انسان کو مسائل کے حل کی راہ سجھاتا ہے لیکن یہ عمل محض سوچنے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے کہ؎
جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے
جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں