ہم سبھی زندگی بھر اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ زندگی میں کچھ ہو یعنی یہ اوسط درجے کی نہ ہو۔ اوسط درجے کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ ہم زندگی کا کوئی بھی درجہ کس طور طے کرتے ہیں؟ معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا معیار سیاق و سباق سے طے ہوتا ہے۔ کسی پس ماندہ معاشرے میں زندگی کا جو معیار بہت بلند دکھائی دیتا ہے‘ وہ معیار کسی ترقی یافتہ معاشرے میں معمولی سی اہمیت بھی نہیں پاتا۔ زندگی کا معیار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے‘ یہ بحث سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان جیسے معاشروں میں زندگی کا معیار طے کرنا کسی ترقی یافتہ معاشرے میں زندگی کا معیار طے کرنے سے بہت مختلف ہے۔ تناظر کو سمجھے بغیر یہ بحث مکمل تو کیا کی جاسکے گی‘ شروع بھی نہیں کی جاسکتی۔ آج عام پاکستانی جس نوعیت کی زندگی بسر کر رہا ہے وہ کسی ترقی یافتہ معاشرے کے عام آدمی کے مقابلے میں خاصی کمتر ہے مگر جب اس کا موازنہ کسی انتہائی پس ماندہ ملک کے عام آدمی کے معیارِ زندگی سے کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام پاکستانی تو بہت اچھی زندگی بسر کر رہا ہے!
زندگی کس ڈھب کی ہونی چاہیے اِس کا تعین کوئی اور نہیں ہم خود کرتے ہیں۔ ہر انسان کو خود طے کرنا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں۔ اور یہ کام مستقل بنیاد پر ہوتا ہے یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور ان فیصلوں کو عملی جامہ بھی پہنانا پڑتا ہے۔ زندگی کسی بھی اعتبار سے یکسر جامد معاملہ نہیں۔ معاملات کسی ایک مقام پر ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں۔ تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور ان تبدیلیوں کو منہ دینا پڑتا ہے‘ انہیں جواب چاہیے۔ جب ہماری طرف سے کوئی جواب نہیں جاتا یا ہم کوئی معقول جواب نہیں دیتے تب زندگی کاکوئی نہ کوئی پہلو خسارے سے دوچار ہوتا ہے۔
آج عام پاکستانی کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں زندگی کو برباد کرنے کے دسیوں طریقے ہوں گے‘ ہمارے ہاں معاملہ سینکڑوں کا ہے! زندگی سی نعمت کو یوں ضایع کیا جارہا ہے کہ دیکھ کر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ زیادہ کیا ہو ... حیرت یا افسوس؟ حق تو یہ ہے کہ حیرت کی منزل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اب ہم افسوس کی منزل میں ہیں اور یہاں اٹک گئے ہیں۔ عام آدمی نے سوچ لیا ہے کہ حالات میں رونما ہونے والی خرابیوں کو کسی نہ کسی طور جھیلتے رہنا ہے‘ رونا روتے رہنا ہے اور کسی بھی مثبت تبدیلی کے لیے جو کچھ بھی کرنا لازم ہے وہ کسی حال میں نہیں کرنا۔
اوسط زندگی کیا ہے؟ جب معاملات کسی نچلی سطح پر اٹک جائیں اور ہم معاملات کو درست کرنے کے لیے کچھ بھی نہ کر رہے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ اوسط درجے کی زندگی بسر کی جارہی ہے۔ زندگی کا یہ روپ ہمیں ہر اعتبار سے ساکت و جامد اور محدود کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا احساس ہی باقی نہ رہے تو زندگی میں کیا باقی رہا؟ ایسی زندگی کو ڈھانچے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے؛ یعنی گوشت تو جاتا رہا، صرف ہڈیاں رہ گئی ہیں۔
اوسط زندگی کے بارے میں سوچنے والوں نے بہت سوچا اور لکھا ہے۔ لکھنا ہی پڑتا ہے‘ جب ماحول پر بے حسی چھائی ہوئی ہو تب سوچنے والے کڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل کرنے کے لیے کچھ کیا جائے۔ یہ سوچ انہیں لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ اس تحریک کے دم ہی سے دنیا کی رونق ہے۔ کسی بھی معاشرے میں معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے ہی کو دیکھیے۔ یہاں جو بھی اصلاح کی بات کرتا ہے اسے احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کی باتوں پر عمل کرے‘ نہ کرے، اسے احترام کی نظر سے دیکھنے جتنی زحمت تو بہرحال گوارا کرتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ چنگاری موجود ہے جسے ہوا دے کر آگ بھڑکائی جاسکتی ہے۔
لوگ اوسط درجے کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح کیوں دیتے رہتے ہیں؟ اس سوال نے سوچنے والوں کو ہزاروں سال سے پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں دوسروں سے کچھ زیادہ اور منفرد کرنے کی خواہش اور لگن رکھنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی کیفیت زیادہ مختلف نہیں۔ وہاں عام آدمی ہمارے مقابلے میں اچھی زندگی اس لیے بسر کر رہا ہے کہ معاشرہ ترقی یافتہ ہے۔ دوسروں سے مختلف اور کچھ زیادہ کر دکھانے کی خواہش اور لگن وہاں بھی زیادہ نہیں پائی جاتی مگر ہاں! مثبت طرزِ فکر و عمل عام ہے۔ یہ حقیقت بہت سی خرابیوں پر مٹی ڈال دیتی ہے، معاملات کو مزید بگڑنے سے روکتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا عام آدمی اگر اوسط زندگی کی سطح سے بلند نہیں ہونا چاہتا تو دوسری طرف وہ کچھ ایسا بھی نہیں کرتا جس سے اُس کے معاملات مزید بگڑیں اور دوسروں کے لیے الجھنیں پیدا ہوں۔
آج دنیا بھر میں سب سے بڑا معاشرتی مسئلہ اوسط درجے کی زندگی سے نجات پانے کا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے عام آدمی کو دوسروں سے زیادہ اور منفرد انداز سے کچھ کر دکھانے کی تحریک دینا بہت بڑا چیلنج ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عمومی معیارِ زندگی نسبتاً اتنا بلند ہے کہ لوگ اسی پر اکتفا کرتے ہوئے زندگی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ زندگی بہت کچھ مانگتی ہے۔ ہر دور کے انسان نے کچھ بہتر کرنے کا سوچا ہے۔ اب یہ سوچ معدوم ہوتی جارہی ہے، دم توڑ رہی ہے۔ عام آدمی بہت سے غیر متعلق معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اُسے بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دینا اب واقعی بہت بڑا چیلنج ہے۔
جان میسن کہتے ہیں ''اوسط درجے کی زندگی ایک ایسا مقام ہے جس کے شمال میں سمجھوتا، جنوب میں شش و پنج، مشرق میں ماضی سے متعلق 'غور و فکر‘ اور مغرب میں دور اندیشی کا فقدان واقع ہے!‘‘ سو فیصد درست! جب انسان حالات سے سمجھوتا کرلے، بیشتر معاملات میں شش و پنج میں مبتلا رہے، ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہے اور دور اندیشی کو گلے لگانے سے گریز کرے تب زندگی اوسط درجے کی ہوکر رہ جاتی ہے۔
آج عام پاکستانی بظاہر یہ طے کرچکا ہے کہ بیشتر معاملات میں کچھ سوچنا ہے نہ محسوس کرنا ہے۔ خرابیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر شخص اس میں حصہ ڈالنے پر بضد ہے۔ بنیادی مسائل حل کرنے سے بھی گریز عام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ماحول کے ہاتھوں رونما ہو رہا ہوتا ہے۔ اس پر انسان کا زیادہ بس نہیں چلتا مگر خیر! چند معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اس کا مکمل اختیار ہوتا ہے اور وہ اصلاح کی صورت نکال سکتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ جن ذاتی نوعیت کے معاملات کو خرابیوں سے بچایا جاسکتا ہے ان پر بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ شخصی یا ذاتی سطح پر دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی مشکلات سے دوچار ضرور ہے مگر چند ایک معاملات میں انسان اپنے لیے بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکال ہی سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی آپشن تو موجود رہتا ہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عام آدمی نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ اصلاحِ احوال کا کوئی آپشن نہیں بچا۔ جب مایوسی اور ذہنی پژمردگی اتنی بڑھ جائے تو معاملات کو درست کرنے کی سوچ پروان چڑھنے سے انکار کردیتی ہے۔ تحریک و تحرّک کے بغیر بسر کی جانے والی زندگی در حقیقت زندگی نہیں بلکہ محض سانسوں کی گنتی ہوتی ہے۔ ہر آن بدلتی ہوئی دنیا ہم سے بہت سے معاملات میں متوجہ ہونے اور عملی سطح پر کچھ مثبت کرنے کا تقاضا کرتی رہتی ہے۔ وقت کی پکار پر لبیک کہنا ہی پڑتا ہے۔ وقت کی پکار کو نظر انداز کرنے کا آپشن بھی موجود ہے مگر یہ آپشن کہاں لے جاتا ہے، کس گڑھے میں پھینکتا ہے ‘یہ بھی ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ کسی ایک مقام پر ٹھہری ہوئی زندگی قابلِ رشک نہیں ہوسکتی۔ فکر و عمل سے مزین زندگی ہی زندگی کہلائے جانے کا استحقاق رکھتی ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس پر گامزن ہوکر ہم اوسط درجے کی، نُچڑی ہوئی سی زندگی سے جان چھڑاسکتے ہیں۔