"MIK" (space) message & send to 7575

اپنے آنگن کی فکر

ایک بار پھر یہ سوال تیزی سے سر اٹھا رہا ہے اور دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو پریشان کر رہا ہے کہ امریکا نے خود کو مرکزی سٹیج سے ہٹالیا یا اپنا کردار گھٹالیا تو کیا ہوگا۔ دنیا بھر کی خرابیوں کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کے بعد واحد سپر پاور کو خیال آیا ہے کہ وہ صرف عسکری طور پر ہی نہیں بلکہ سفارتی، سیاسی، نظریاتی اور معاشی طور پر بھی غیر معمولی بوجھ اور تناؤ کا شکار ہے اور یہ کہ اب اس بوجھ اور تناؤ کو کم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بہت سے لوگ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص امریکا کا صدر کیسے بن گیا؟ کاروبار کا میدان ہو یا میڈیا کی دکان، ہر جگہ ٹرمپ کا اندازہ خالص کاروباری رہا ہے اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا ہے‘ وہ خالص نعرے باز کے سے انداز سے کیا ہے۔ اُن کے عہدِ صدارت میں امریکی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ایک دنیا کو حیران کیے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر امریکی خارجہ پالیسی میں اس نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ ہموار کیسے ہوئی۔ اب یہ بات سب کی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر سنجیدہ شخص کو امریکی صدر کے منصب پر لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ جو کچھ بھی ایک نارمل صدر نہ کر پائے وہ اس انوکھے صدر کے ہاتھوں کرالیا جائے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اہداف بھی حاصل کرلیے اور بُری بھی نہیں بنی۔ دنیا بھر میں امریکا نے جو خرابیاں پیدا کی تھیں‘ اُنہیں دور کرنے پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جارہی اور سامان سمیٹا جارہا ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر یورپ کم و بیش پورا کا پورا تباہ ہوچکا تھا مگر امریکا سلامت تھا اور اس کی مینوفیکچرنگ مشینری بھی کام کر رہی تھی۔ امریکا نے یورپ کے تباہ ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے میں دیر لگائی نہ کوئی کوتاہی برتی۔ ایک طرف تو اُس کے لیے غیر معمولی معاشی امکانات پیدا ہوئے اور دوسری طرف وہ لبرل نظام کا سب سے بڑا نمائندہ بلکہ سرپرست و ضامن بن کر ابھرا۔ امریکا نے سرد جنگ کے دور میں دنیا بھر میں لبرل نظامِ زندگی کو فروغ دینے کی کوشش کے نام پر سابق سویت یونین کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب رہا۔ کئی خطوں کو اس نے تاراج کیا اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ توانا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے اور امریکا کے لیے بھی بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ ایسے میں وہ نہ بدلے ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ اس کے پالیسی میکرز وقت کے تقاضوں کے مطابق سوچ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ امریکا کی تمام پالیسیاں وقت اور حالات کے تابع ہیں۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ امریکی پالیسی میکرز کو کسی خطے کے حوالے سے تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی ہو اور انہوں نے تبدیلی یقینی بنانے میں دیر لگائی ہو۔ غیر معمولی طاقت کے ذریعے وہ دنیا بھر میں اپنی مرضی کے مطابق کھیل سکتے تھے اور کھیلتے رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم لبرل امریکا کو بھول جائیں۔ ایک دور تھا کہ امریکا دنیا بھر میں لبرل ازم کو فروغ دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ نظریات سے زیادہ اپنے مفادات کو فروغ دینے کی خاطر تھا۔ اب حالات کچھ کے کچھ ہیں۔ ایسے میں امریکا لبرل ازم کو فروغ دینے سے متعلق اپنی ذمہ داری پر بھی نظرِ ثانی کرچکا ہے۔ معاشی اور سیاسی اعتبار سے کئی ممالک بلکہ خطوں کو تاراج کرنے کے بعد اب وہ اس نظریاتی محاذ پر پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اب ایک نیا امریکا ابھر رہا ہے جو دنیا بھر میں مہم جوئی سے گریز کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ امریکا کو اپنی صلاحیت و سکت کی حدود کا احساس ہوا۔ ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے سے گریز ہی بہتر طریقِ فکر و عمل ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے نہیں کہ جو کچھ امریکا نے اب تک کیا ہے‘ اُسے بھلا دیا جائے یا نظر انداز کردیا جائے۔
''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ لگاکر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو بتادیا تھا کہ اب امریکی پالیسیوں میں جوہری یا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ یورپ نے اپنی راہ بہت پہلے بدل لی تھی۔ اب چند ایک یورپی ممالک ہی امریکا کے ساتھ ہیں۔ یہ ساتھ بھی مسلمانوں کے خلاف ہے جو مغربی تہذیب کے لیے سب سے بڑے خطرے کی شکل میں ابھرے ہیں۔ صرف برطانیہ ہے جو کھل کر امریکا کا ساتھ دے رہا ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر مضبوط یورپی ممالک ایک ایسی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں جس میں عسکری مہم جوئی کی زیادہ گنجائش نہ ہو اور معاملات علم و فن کے میدان میں طے کیے جائیں۔ وہ ''نرم قوت‘‘ کا قائل ہے۔ چین کی طرح اب یورپ بھی صرف علم و فن، معاشیات اور مالیات کی بنیاد کام کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی بھی ملک پر قبضہ کرکے اُس کے لوگوں کو مطیع و فرمانبردار بنانے کا خواہاں نہیں۔ یورپ کا ماضی بھی داغدار رہا ہے مگر اُس نے خود کو بدلے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی ہے۔
امریکا کو اب صرف اپنے آنگن کی فکر لاحق ہے۔ امریکی عوام بھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی قیادت نے دنیا بھر میں غیر معمولی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ خرابیاں پیدا کرنے کی ذہنیت سے چھٹکارا پاتے ہوئے کچھ بہتر کیا جائے۔ اگر دوسروں کے لیے کچھ بہتر کرنا ممکن نہ ہو تو اپنے معاملات ہی درست کرلیے جائیں۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کی اوور ہالنگ کی‘ تب دنیا تھوڑی بہت حیران ضرور ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے اتحادیوں پر طنز و تشنیع سے گریز کیا نہ عالمی معاہدوں سے امریکا کو الگ کرنے میں دیر لگائی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپ سے بھی راستے جدا کرلیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دیے ہوئے ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے نے لبرل انٹرنیشنل سسٹم کو شدید نقصان پہنچایا۔ اب تک امریکا دنیا بھر میں لبرل اقدار کے سرپرست اور ضامن کا کردار ادا کرتا آیا تھا‘ اب اس معاملے سے خود کو اچانک الگ کرلینا بھی بہت سی خرابیوں کو جنم دے گا۔ چند ایک بڑے تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ ٹرمپ کے جانے کے بعد بھی امریکا کا لبرل کردار باقی رہے گا مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ اُن کا کوئی واضح نظریہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی خالص کاروباری سوچ کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ سوچ اُنہوں نے خارجہ پالیسی میں بھی متعارف کرائی۔ چار برس کے دوران انہوں نے جو کچھ بھی کیا‘ وہ خالص کاروباری انداز سے کیا۔ ہر معاملے میں لین دین کی جھلک دکھائی دی۔ ایسے میں کسی بھی نوع کی بہتری کی امید کیسے وابستہ کی جاسکتی ہے؟ کم و بیش دو صدیوں کے دوران امریکا کے تمام سیاسی و سفارتی معاملات میں خالص کاروباری سوچ ہی تو کارفرما رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نیا نہیں کیا بلکہ اُس سوچ کا احیا کیا ہے۔ اب امریکا میں سبھی نے کاروباری انداز سے سوچنا شروع کردیا ہے۔ کاروباری سوچ کے پنپنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ بظاہر متنازع اقدامات کو بھی عوام کی حمایت حاصل رہی ہے۔ امریکا میں معمر آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف آٹومیشن کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے یعنی افرادی قوت کی ضرورت گھٹ رہی ہے۔ ایسے میں تارکین وطن کی ضرورت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ افرادی قوت کے معاملے میں اندرونی ذرائع پر بھروسا کیا جائے۔ تارکین وطن کے حوالے سے غیر لچک دار سوچ کے پنپنے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ سفید فام امریکیوں کو اپنی بالا دستی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ یہ اچھا ہے کہ امریکیوں کو اب اپنے آنگن کی فکر لاحق ہوئی ہے مگر دنیا بھر میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں اُن کا کیا؟ امریکی رائے عامہ کو اس بڑی بیرونی ذمہ داری کا بھی تو کچھ احساس ہونا چاہیے۔ بہر کیف‘ سرِ دست اتنا بھی کافی ہے کہ امریکا اپنی حدود سے باہر خرابیاں پیدا کرنے سے باز آجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں