یہ دو‘ چار برس کی بات نہیں بلکہ سات عشروں کا قصہ ہے۔ پاکستان کی تین نسلوں نے امریکا کی حاشیہ برداری کی ہے اور اس کا نتیجہ بھی بھگتا ہے۔ اہلِ پاکستان کے لیے تو یہ ناکردہ گناہوں کی سزا کہلائے گی کیونکہ پالیسیاں وہ نہیں بناتے۔ جنہوں نے ملک کو امریکا اور یورپ کے ہاتھوں گروی رکھا اور پژمردہ قسم کی پالیسیاں تیار کیں اُن سے تو وہی حساب کتاب کرسکتا ہے جسے ایک دن حساب کتاب کرنا ہے۔ ہمارے قائدین ابتدا ہی سے مغرب، بالخصوص امریکا کے آگے جھکے رہے ہیں۔ جب بڑوں کو امریکا کے سامنے بھیگی بلی بنتے دیکھا تو عوام نے بھی یہی روش اپنائی۔ آج تک پاکستان کے عوام امریکا سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اُس میں آباد ہونے کے خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں! اِسے کہتے ہیں دو کشتیوں کا سفر۔ ایسے سفر میں منزل تک پہنچنا کم و بیش ناممکن ہوتا ہے۔ ایک زمانے تک ہمارے قائدین نے امریکا کی ہر خواہش کو بسر و چشم تسلیم کرتے ہوئے قوم کا امن و سکون اور استحکام غارت کیا۔ سلامتی و سالمیت دونوں ہی کو داؤ پر لگایا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر کبھی حقیقی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی گئی۔ ہر قوم کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں‘ پالیسیاں ضرورتوں کے مطابق مرتب کی جاتی ہیں اور ترجیحات کو ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ حالات کے تناظر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہمارے قائدین کی آنکھیں نہ کھلیں گی؟ وقت آگیا ہے کہ پالیسیاں تبدیل کی جائیں، نئی پالیسیاں خود بنائیں۔ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہیں۔ دوسروں کی مرضی کے تابع نہ رہتے ہوئے ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے۔ قائدین روش بدلیں گے تو قوم کی روش بھی تبدیل ہوگی۔ وقت نے کروٹ بدلی ہے تو اب کوئی بھی خطہ تبدیلیوں سے محفوظ نہیں رہا۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی انسان اور کوئی بھی علاقہ جزیرہ نہیں۔ سبھی مل جل کر ایک سمندر کی صورت ہیں۔ اس سمندر میں سب کو ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ الگ تھلگ رہنے کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ ایک دوسرے کو اپنائے بغیر ہم معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ نئی زندگی تلاش کی جائے۔ اس نئی زندگی میں سبھی کچھ نیا ہونا چاہیے۔ کسی ایک پہلو سے بھی طرزِ کہن جھلکنی نہیں چاہیے۔ اب کسی ایک معاملے میں بھی پرانی روش پر گامزن رہنے کی گنجائش نہیں۔
سیاست، سفارت، معیشت اور معاشرت میں پرانے انداز و اطوار ترک کرکے نئی طرزِ فکر و عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے بل کر پر کرنا ہے۔ بیرونی امداد صرف ناگزیر حالت میں قبول کی جائے۔ ہم عالمی برادری کا حصہ ہیں۔ دوسروں سے کٹ کر رہنا ممکن نہیں مگر قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بل پر جینے کی کوشش کریں۔ اقوامِ عالم میں حقیقی اور بے مانگا احترام پانے کی یہی ایک صورت ہے۔ جب امریکا اور یورپ کی طاقت بے مثال تھی تب ہمارے پاس بظاہر کوئی متبادل نہیں تھا اس لیے ان کی حاشیہ برداری کو مجبوری کے ذیل میں رکھا جائے؛ تاہم اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا ہے۔ امریکا اور یورپ کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ چین اور روس تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ جاپان اگرچہ طاقتور ہے مگر اب تک امریکا کے ساتھ ہے‘ وہ اپنے دفاع کے لیے بھی بہت حد تک امریکا پر انحصار کرتا ہے۔ کل کی طاقتیں اب کمزوری سے دوچار ہیں۔ ایسے میں عالمی سیاست کے خد و خال کا تبدیل ہونا لازم ہے۔ اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔
ہم نے ایک زمانے تک جس امریکا کو اپنا سمجھا ہے اور جس کے لیے بہت کچھ جھیلا ہے اُسے اب صرف اپنی فکر لاحق ہے۔ صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں امریکی پالیسیوں میں بہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا کل تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور دنیا پر جتادیا کہ اب امریکا اندرونی اصلاح کی طرف مائل ہے۔ امریکیوں کو گھر کی فکر لاحق ہے کیونکہ بہت سے مسائل شدت اختیار کرچکے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ امریکی قیادت نے بیرونِ ملک جو سیاسی و عسکری مہم جوئیاں کی ہیں اُن کے نتیجے میں ملک دنیا بھر میں بدنام ہوا ہے۔ کسی بڑی طاقت کا احترام اگر صرف خوف کی بنیاد پر ہو تو عوام کو کچھ زیادہ مل نہیں پاتا۔ امریکیوں کا یہی معاملہ ہے۔ بیرونی قوتوں کی حاشیہ برداری کا دور لَد گیا۔ یہ جاگنے کا وقت ہے۔ ایسے میں خوابیدہ رہنے کی گنجائش نہیں۔ گراں خواب چینی صرف بیدار نہیں ہوئے بلکہ ایک دنیا کو بیدار کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ ایک طویل مدت کے بعد کوئی نئی طاقت ابھری ہے اور کمزور پڑتی ہوئی عالمی طاقتوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ روش کے مطابق چین کے ساتھ ہولیں۔ اتنی بڑی طاقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ سات سمندر پار کی طاقتوں کے بھروسے پر جینا کسی بھی اعتبار سے دانش کا مظہر نہیں۔
امریکا اور یورپ کی کاسہ لیسی نے ہمیں کیا دیا؟ کچھ بھی نہیں! اور دوسری طرف ہم نے بہت کچھ لے لیا ہے۔ سب سے پہلے تو قومی حمیت کو روئیے۔ مغرب کے بل پر جینے کی کوشش ہمیں قومی حمیت سے محروم کرگئی ہے۔ آج کی دنیا میں چیلنجز نئے اور زیادہ ہیں۔ ہر چیلنج ایسا ہے کہ نمٹنے میں ناکام رہیے تو بقا کا مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ ایسے میں وقت ضائع کرنے کی گنجائش ہے نہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی۔ بہت کچھ کرنا ہے اور اس طور کرنا ہے کہ مسائل حل ہوں۔ دل بہلانے کے سے انداز سے کی جانے والی کوششوں کا زمانہ لد گیا۔ اکیسویں صدی کا ہر چیلنج لاجواب ہے، بے مثال ہے۔ ایسے میں، ظاہر ہے کہ، ہماری ہرکوشش بھی لاجواب نوعیت کی ہونی چاہیے۔ امتِ مسلہ پر صدیوں سے جمود طاری ہے۔ ماضی کی خرابیوں کو یاد کرکے رونا اور جلنا کُڑھنا ہمارے حصے میں بھی آیا ہے مگر یہ کوئی بہت پسندیدہ روش نہیں۔ بہت کچھ کرنا ہے اور تیزی سے کرنا ہے۔ ایسے میں ماضی کی اچھی باتوں کو یاد کرکے خوش فہمی کے گھونٹ پینا اور تلخ باتوں کو یاد کرکے جلنا کُڑھنا کسی طور سودمند نہیں۔ لمحۂ موجود میں رہتے ہوئے جینا ہی ہمارے مسائل کے حل کی راہ ہموار کرے گا۔ سات عشروں تک ہم نے امریکا اور یورپ کی نازبرداری کی۔ اب ایسا کچھ بھی کرنے کی گنجائش نہیں۔ جو کچھ ہم نے امریکا اور یورپ کے حوالے سے کیا اُس نے ہمارے لیے الجھنیں بڑھائی ہیں، گھٹائی نہیں۔ آج بھی ہم سات عشروں کے دوران اپنی پالیسیوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والی خرابیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمیں کئی مواقع پر استعمال کرکے پھینک دیا گیا۔ ہمارے وسائل کو بے دریغ استعمال کیا گیا اور اس کے نتیجے میں جو خسارہ پیدا ہوا وہ ہمارے حصے میں آیا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
اب کسی بھی ابھرتی ہوئی طاقت کی ہم نوائی کے معاملے میں ہمیں قومی حمیت کو مقدم رکھنا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات ہمیں اگر کچھ دے سکتے ہیں تو صرف اُس وقت جب ہم قومی غیرت کو داؤ پر نہ لگائیں۔ کسی بھی نئی طاقت سے بہتر تعلقات برابری کی سطح پر اُستوار ہونے چاہئیں۔ وگرنہ ہمیں پھر خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پھر کسی کی آرزو کریں اور بے قرار بھی رہیں۔ اگر کسی کے دامن سے وابستہ ہونا ہے تو احترام ملحوظِ خاطر رہے۔ کوئی ہمیں استعمال کرکے پھینکنے کا تصور نہ کرے۔ قومی تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسیاں مرتب کرنا تنے ہوئے رسے پر چلنے جیسا عمل ہے اور اب ہمیں اس مرحلے سے گزرنا ہے۔