انیسویں صدی میں اردو کو ایسے کئی لکھاری ملے جنہوں نے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنے حصے کا کام کرکے ہی سکون کا سانس لیا۔ اِن میں سرسید احمد خان‘ خواجہ الطاف حسین حالیؔ‘ محمد حسین آزادؔ اور ڈپٹی نذیر احمد نمایاں تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے جن ناولوں نے انگریز راج کے ہندوستان میں آباد مسلمانوں اور بالخصوص اردو داں طبقے پر گراں قدر اثرات مرتب کیے توبۃ النصوح‘ ابن الوقت اور بنات النعش ایسے ناول ہیں‘ جن کے مرکزی خیال میں اصلاح کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ بعد میں بیسویں صدی کے پہلے نصف میں علامہ راشد الخیری‘ عبدالحلیم شررؔ اور دیگر مصنفین نے بھی یہی کام کیا۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت جس نہج پر ہے وہاں ایک بار پھر اُنہی لکھنے والوں کی اشد ضرورت ہے جو اصلاح کو مرکزی نکتہ قرار دیتے ہوئے قلم اٹھائیں۔ کسی بھی معاشرے کو اصلاح کے نقطۂ سے سوچنے اور لکھنے والوں کی ضرورت اُس وقت پڑتی ہے جب ذہن سے کام لینے کا رواج دم توڑتا جارہا ہو۔ شعور کی گرتی ہوئی سطح اس بات کو لازم بنادیتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اس کا توڑ کیا جائے‘ کچھ ایسا سوچا اور لکھا جائے جس کی مدد سے لوگ اپنے معاملات کو درست کریں‘ سوچنے کی عادت پروان چڑھائیں اور باوقار انداز سے جئیں۔
راجا بھائی کو ہم ایک زمانے سے جانتے ہیں۔ کہتے ہیں نام کا اثر انسان پر مرتب ہوکر ہی رہتا ہے۔ راجا بھائی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہر معاملے کو وہ راجا کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہی طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں جو ایک راجا کو اختیار کرنی چاہیے۔ ہاں‘ وہ ایسا کرتے وقتع
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ
والی بات پر ذرّہ بھر یقین نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ بھی وہی برآمد ہوا ہے جو ہوا کرتا ہے۔ بہت کچھ پاکر بھی راجا بھائی محروم سے دکھائی دیتے ہیں۔ جب انسان یافت کو ڈھنگ سے استعمال کرنے پر توجہ نہیں دیتا تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ راجا بھائی ہمارے ''پیر بھائی‘‘ ہیں یعنی اُن کا تعلق بھی میڈیا ہی سے ہے۔ کم و بیش بیس برس قبل میڈیا میں کچھ خاص دم نہ تھا۔ ہم تنخواہ اور مراعات کی بات کر رہے ہیں۔ پھر میڈیا میں ''بوم‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ ہم boom کی بات کر رہے ہیں۔ جب بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی تو میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے مزے ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میڈیا میں boom آیا تو ہمارے بہت سے بھائی بند فارسی والے بُوم ثابت ہوئے! ایک طرف یافت کا گراف بلند ہوتا گیا اور دوسری طرف بے ذہنی کا۔ بعض احباب کی زندگی میں بے ذہنی کا عمل دخل اتنا بڑھا کہ اُنہوں نے سوچنا تقریباً چھوڑ ہی دیا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ خرچ کرتے رہنا ہے۔ راجا بھائی بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ جب بڑھتی ہوئی کمائی کو سوچے سمجھے بغیر خرچ کیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اچھے وقت کے دورانیے آتے رہتے ہیں۔ یہ دورانیے قدرت کی طرف سے ہوتے ہیں تاکہ زندگی کا عمومی معیار بلند کیا جائے۔ جو لوگ منظّم سوچ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں وہ اچھے وقت میں اپنے بہت سے معاملات کو یوں درست کرتے ہیں کہ پھر تادیر کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ جب میڈیا میں آمدن اور مراعات کے حوالے سے بہتری آئی تو بہت سوں کے وارے نیارے ہوئے۔ میڈیا میں مندی ایک زمانے سے تھی۔ اکیسویں صدی کے اختتام تک اس شعبے میں آمدنی کا معیار پست تھا اور مراعات تو نہ ہونے کے برابر تھیں۔ میڈیکل اور پک اینڈ ڈراپ کا تصور تک نہ تھا۔ جب الیکٹرانک میڈیا کی انٹری ہوئی تو شعبے کے عمومی حالات بہتر ہوئے اور لوگوں کو کچھ زیادہ کمانے کا موقع ملا۔ بعض احباب کو کچھ زیادہ ہی موقع ملا یعنی ماہانہ آمدنی چار تا پانچ گنا بھی ہوگئی۔ نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جو کچھ پورے معاشرے میں ہو رہا ہے وہی کچھ میڈیا والوں نے بھی کیا۔ بے ذہنی پر جوبن آیا۔ مالی حالت بہتر تو ہوئی‘ ذہنی حالت بہتر نہ ہوئی۔ میڈیا والے بھی باقی معاشرے کی طرح بدلے ہوئے حالات کے دھارے میں ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہتے ہی چلے گئے۔ منصوبہ سازی کے بغیر زندگی بسر کرنے کی روش پورے معاشرے میں عام ہے۔ میڈیا والوں نے بھی اچھے وقت کو منصوبہ سازی کے لیے بروئے کار لانے کے بجائے بے ذہنی کو راہ دی۔ راجا بھائی کو ہم نے میڈیا بُوم سے پہلے بھی دیکھا تھا‘ اِس بُوم کے دوران بھی دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ تین مختلف ادوار گزرے ہیں مگر راجا بھائی کو نہیں بدلنا تھا سو نہ بدلے۔ کم و بیش دو عشروں تک اچھا کمانے کے باوجود اُن کے مسائل برقرار ہیں۔ جو کچھ ایک طرف سے آیا وہ دوسری طرف سے جاتا رہا۔ راجا بھائی کے معاملات سُرنگ کے سے ہیں۔ آمدنی بڑھتی گئی مگر یہ بڑھتی ہوئی آمدنی اُسی طرح گزر گئی جس طور کسی سُرنگ یا انڈر پاس سے گاڑی گزرتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ انفرادی سطح پر آمدنی چاہے کچھ ہو‘ بیشتر افراد راجا بھائی جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ سوچ لیا گیا ہے کہ سوچنا نہیں ہے۔ زندگی قدم قدم پر منصوبہ سازی چاہتی ہے۔ وقت ہمیشہ ہم سے ذہن کو بروئے کار لانے ‘ سوچنے اور منصوبہ سازی کا تقاضا کرتا رہتا ہے مگر ہم زندگی کے اس انتہائی بنیادی تقاضے کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
ایک طرف تو راجا بھائی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے میڈیا کے بدلتے ہوئے یعنی بہتر ہوتے ہوئے حالات کو اچھی طرح سمجھا‘ اپنایا اور جہاں بھی ضروری ہوا وہاں اپنی طرزِ فکر و عمل تبدیل کی۔ اِن میں عاصم صدیقی بھی ہیں۔ عاصم صدیقی اور چند دوسرے احباب کو ہم نے کم و بیش اڑھائی عشروں سے متوازن زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر آمدنی بڑھی ہے تو اُن کی ذہنی استطاعت بھی بڑھی ہے۔ آمدنی میں واقع ہونے والے اضافے کو انہوں نے اپنے حالات بہتر بنانے کیلئے بروئے کار لانے پر توجہ دی ہے اور اس شعوری کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اڑھائی تین عشروں کے دوران آئی ٹی‘ میڈیا اور فائنانس یعنی بینکنگ کے شعبوں میں غیر معمولی بلندی دکھائی دی ہے۔ لوگوں نے اپنی آمدنی میں پانچ گنا سے بھی زائد اضافہ دیکھا ہے۔ یہ اضافہ اصلاً اس امر کا متقاضی تھاکہ زندگی کا معیار بلند کیا جاتا مگر بیشتر نے بڑھتی ہوئی آمدنی کو خاصی بے ذہنی کے ساتھ خرچ کرنے پر توجہ دی اور اپنی زندگی میں ایسے میلے کا سماں پیدا کیا جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ جن شعبوں میں غیر معمولی سرمایہ کاری ہوئی تھی اُن میں سے بیشتر کا ہنی مون پیریڈ اب گزر چکا ہے۔ آمدنی میں غیر منطقی نوعیت کا اضافہ بیشتر متعلقین کو تباہ کرکے ہوا ہوچکا ہے۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ انسان بے ذہنی کو تج کر شعور کو اپنائے‘ سوچنے پر متوجہ ہو۔ انفرادی سطح پر آمدنی میں غیر معمولی‘ بلکہ حیران کن اضافہ جن شعبوں میں واقع ہوا تھا وہ تمام شعبے اب قدرے گراوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ والی کیفیت پائی جارہی ہے۔ ''میڈیا ببل‘‘ پھٹ چکا ہے۔ خیر‘ بینکنگ‘ آئی ٹی اور چند دوسرے شعبوں کے غبارے بھی پھٹ چلے ہیں۔
وہی معاشرے زندہ رہتے ہیں جن میں حالات تبدیل ہوتے رہیں اور لوگ بھی حالات کے ساتھ ساتھ بدلتے جائیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب شعور کو زندگی کی بنیادی قدر کا درجہ دیا جائے۔ اگر انسان بہت کچھ پاکر بھی انتہائی بالآخر پریشان ہی رہے تو اِتنی بھاگ دوڑ سے کیا حاصل؟ پاکستانی معاشرے کا عمومی رجحان شعور کی ناقدری سے عبارت ہے۔ لوگ کسی اضطراری کیفیت میں رونما ہونے والی اچھائی کو بھی دائمی سمجھ لیتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے لیے اچھا ہے وہ کسی کے لیے بُرا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی دوسروں کے لیے بھی تو کچھ اچھا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے لمحات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو تو وہی کیفیت دامن گیر رہتی ہے جس نے راجا بھائی کو پریشانی سے دوچار کیا ہے۔ بے ذہنی کے اندھے کنویں میں گِرے رہنا کوئی آپشن نہیں۔ اِس سے باہر آنا ہی ہوگا۔ منطقی انداز سے سوچنے والوں کو بولنے اور لکھنے کی رفتار بڑھادینی چاہیے تاکہ اصلاح کا ماحول پیدا ہو۔