"MIK" (space) message & send to 7575

’’ہیرو‘‘ کی تلاش

اس سرزمین پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی سوچ عام تھی۔ پاکستان جب قائم ہوا تب حالات انتہائی نامساعد تھے۔ کوئی بھی چیز اپنے منطقی ٹھکانے پر نہ تھی۔ ایسے میں صرف ایک چیز تھی جس نے معاشرے کو تتر بتر ہونے سے بچایا۔ کیا؟ نیت کا اخلاص! عمومی سطح پر بدنیتی عام تھی نہ پسندیدہ۔ لوگ ملک کے لیے سوچتے تھے۔ اپنا مفاد اپنی جگہ مگر دوسروں کا بھلا چاہنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ ہر انسان چاہتا تھا کہ اس کی زندگی میں سہولتیں اور آسائشیں ہوں مگر یہ سب کچھ وہ دوسروں کے لیے تکلیف پیدا کرنے کی قیمت پر نہیں چاہتا تھا۔ پاکستانی معاشرے نے وہ دور بھی دیکھا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؔ نے بڑے فخر سے کہا تھا ؎ 
اِک دور تھا کہ خدمتِ اُستاد کے عوض
جی چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
جی ہاں! معاشرے میں عمومی سطح پر اخلاق، کردار، مزاج اور خدمت کے بہترین نمونے اساتذہ تھے۔ وہی بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرتے تھے۔ پانچویں جماعت کے بعد بچوں میں کسی بھی خاص شعبے کے حوالے سے دلچسپی اور جھکاؤ اساتذہ محسوس کرتے تھے اور پھر والدین کو بتاتے تھے کہ اُن کے حصے کا کام کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ سرکاری اور نجی ہر دو سطحوں پر پڑھانے والے ہی معاشرے میں بہترین نمونوں کا درجہ رکھتے تھے۔ تب تک شوبز کی شخصیات کو سیلیبرٹی کا درجہ دینے کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ کم و بیش ہر گھر میں استاد کے احترام کی روایت زندہ و تابندہ تھی۔ ہم نے پانچویں تک کراچی کے علاقے پاک ماڈرن کالونی میں واقع ایک پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کی۔ یہ سکول کچھ خاص نہ تھا۔ عمارت بھی ٹوٹی پھوٹی تھی اور ڈیسک تو درکنار‘ فرش تک نہ تھا۔ بیشتر کمروں کی کچی زمین پر بیٹھنے کے لیے ہم بسا اوقات دری بھی گھر سے لے جایا کرتے تھے۔ پھر بھی ہمیں وہاں بہت کچھ ملا۔ تین سال تک ہمارے کلاس ٹیچر چاند سر رہے۔ اُن کی والدہ اور بہن بھی وہیں پڑھاتی تھیں۔ چاند سر عام سرکاری سکول ٹیچرز سے تھوڑے مختلف تھے۔ وہ بچوں کو لکھنے کی تحریک دیا کرتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ بچے زیادہ سے زیادہ لکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ کمرۂ امتحان میں ہاتھ نہ رکے اور وہ لکھتے چلے جائیں۔ ہمیں کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا لکھنے کا شوق تھا اس لیے چاند سر نے ہم پر کچھ زیادہ توجہ دی۔ وہ کبھی کبھی ہمیں کوئی موضوع دے کر اُس پر فی البدیہہ کچھ لکھنے کو کہتے تھے۔ یوں لکھنے کی عادت خاصی چھوٹی عمر میں پروان چڑھی اور عہدِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت ہم اخبارات میں لکھنے کے قابل ہو پائے۔ 
ایک زمانے میں سرکاری سکول ٹیچرز میں بچوں کو سکول سے ہٹ کر پڑھانے کا کلچر بھی عام تھا۔ جب نویں اور دسویں کے امتحانات قریب آتے تھے تب اساتذہ طلبہ کے گروہوں کو اپنے گھر پر بھی بلاتے تھے اور بالخصوص امتحان کے دنوں میں تین تین‘ چار چار گھنٹے اضافی پڑھتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ بچے نویں، دسویں کی سطح پر زیادہ تیاری کے ساتھ پرچے دیں کیونکہ اس امتحان میں کامیابی کی نوعیت ہی مستقبل کا رخ بھی متعین کرتی تھی۔ ہم اُس دور کی بات کر رہے ہیں جب ٹیوشن کلچر عام نہیں ہوا تھا۔ اساتذہ عام طور پر اضافی تعلیم کے پیسے نہیں لیتے تھے اور معمولی سی رقم وصول بھی کرتے تھے تو محض اس خیال سے کہ بچوں کو یہ احساس ہو کہ اُن کی پڑھائی پر اُن کے والدین کچھ نہ کچھ خرچ کر رہے ہیں اس لیے پڑھنے پر توجہ دی جائے! ایسے ماحول میں بچے بھی پڑھنے کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری تصور کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم کراچی میں ناظم آباد کے پٹرول پمپ سٹاپ کے نزدیک واقع مشہورِ زمانہ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری سکول (مڈل تا سیکنڈری) میں پڑھتے تھے تب آٹھویں کلاس میں ہمیں محمد احمد صاحب کلاس ٹیچر کی حیثیت سے ملے۔ وہ پڑھانے کے معاملے میں جنونی تھے اور پڑھنے میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے لیے خاصے جلّاد صفت واقع ہوئے تھے! اُن میں ایک خصوصیت ایسی تھی جس کے بدولت کئی طلبہ عملی زندگی کے لیے بہتر طور پر تیار ہو پائے۔ محمد احمد صاحب تقریر کے فن پر بہت زور دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ لکھنے کی تحریک بھی دیا کرتے تھے۔ کلاس روم میں وہ کسی بھی لڑکے کو کھڑا کرکے کسی بھی موضوع پر اظہارِ خیال کا حکم دیتے تھے۔ یوں بہت سے لڑکوں کو ڈھنگ سے بولنا آگیا۔ بولنے کے لیے سوچنا بھی لازم ہے۔ بولنے کی مشق نے سوچنے کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھایا۔ ہم نے فرسٹ ایئر کامرس سے بی کام تک تعلیم جس کالج میں حاصل کی جو اُس دور میں کامرس کی تعلیم کے دو بہترین کالجز میں سے ایک تھا۔ اس کالج میں ہمیں سعید احمد صدیقی اور مدثر کمال قریشی جیسے اساتذہ ملے جن کی طرف سے تحریک ملنے پر ہم سوچنے اور لکھنے کے معاملے میں مزید پختہ ہوئے۔ سعید احمد صدیقی نے کامرس کے مختلف موضوعات پر متعدد درسی کتب تحریر کیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کالج کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بزنس کی تعلیم کا ایک معیاری نجی ادارہ بھی قائم کیا۔ بچے کے لیے اصل ہیرو دو ہی ہوتے ہیں؛ والد اور استاد۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ یہ دونوں ہیرو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔ آج کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنی اولاد کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ میڈیا و سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہر ایرا غیرا نتھو خیرا ہیرو بن بیٹھا ہے۔ شوبز کی جن شخصیات میں دم خم ہے وہ اگر پُرکشش محسوس ہوں تو کوئی بات نہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جس میں کچھ نہیں وہ بھی نئی نسل کے لیے نمونۂ حیات کا درجہ پاگیا ہے۔ ایک دور تھا کہ کھلاڑی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ پھر شوبز کے لوگ ہیرو شپ کے حامل ہوئے۔ اب ٹِک ٹاکرز یعنی الٹی سیدھی حرکتیں کرنے والوں نے ہیرو کا درجہ پالیاہے۔ جو جتنی اوٹ پٹانگ باتیں اور حرکتیں کرتا ہے وہ اُتنا ہی بڑا ہیرو ہے۔ 
آج کل شوبز سے معیاری ''انسانی مواد‘‘ نہیں آرہا۔ اب شوبز میں جو بھی بے سَر و پا باتوں اور حرکتوں سے دوسروں کی توجہ پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ خود کو ہیرو سمجھنے لگتا ہے۔ شوبز میں محمد علی، سنتوش کمار، سہیل رعناؔ، آغا طالش اور خواجہ خورشید انور جیسی شخصیات بھی گزری ہیں جنہیں دیکھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا اور لوگوں نے سیکھا بھی۔ اب تو اُس دور کی صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ دو تین عشروں تک تو لکھنے والے بھی ہیرو کے مقام پر رہے۔ ہم اُن لکھنے والوں کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے معاشرے کو کچھ دینے کی کامیاب کوشش کی۔ فکشن یا نان فکشن کے ذریعے انہوں نے معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔ حقیقی ہیرو شپ کے حوالے سے اس وقت شدید قحط الرجال دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف تو لوگوں کا رویہ ہے کہ وہ ہر کس و ناکس کو ہیرو بنا بیٹھتے ہیں اور دوسری طرف اُن لوگوں کی طرف سے بھی کچھ کوتاہی ہے جو معاشرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں مگر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اُنہیں سنجیدگی کا دامن تھامنا ہے۔ پاکستانی معاشرہ الجھنوں سے دوچار ہے۔ معاملات ہیں کچھ اور دکھائی کچھ دے رہے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں نمایاں ہونا ہے جو اب تک محض تماشائی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ملک و قوم کو اصل ہیروز کی تلاش ہے۔ اساتذہ یہ کمی بخوبی پوری کرسکتے ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ابتدائی ڈھائی تین عشروں تک اساتذہ نے جو کردار ادا کیا تھا وہی کردار انہیں ایک بار پھر ادا کرنا ہے۔ ہر معاملے میں کمرشل اِزم اس وقت دیگر پسماندہ اور ترقی پذیر معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی سرایت کرچکا ہے۔ اساتذہ بھی کمرشل اِزم سے آلودہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ معاشرے کو درست سمت رواں کرنے میں اساتذہ اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔ کسی اور زمانے کی نئی نسل کے مقابلے میں موجودہ نسلِ نو کو زیادہ رہنمائی درکار ہے۔ اساتذہ کو پورے خلوص کے ساتھ یہ قومی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایک بار پھر ہیرو بننا ہے۔ معاشی تقاضے اپنی جگہ اور قومی ذمہ داری اپنی جگہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں