عبدالکریم بھائی اب اِس دنیا میں نہیں۔ اپنے حصے کا کام کرکے وہ دنیا چھوڑ گئے مگر خیر، جب وہ زندہ تھے تب بھی اِس دنیا کے کب تھے؟ انہوں نے دنیا کو زیادہ درخورِ اعتنا نہ گردانتے ہوئے دین کی خاطر جینے کا فیصلہ خاصی چھوٹی عمر میں کرلیا تھا اور پھر اس فیصلے پر عمل یقینی بنانے پر بھی غیر معمولی توجہ دی۔ معاملہ یہ ہے کہ عبدالکریم بھائی نے چند ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر ایک مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اپنے آپ کو اس کام میں کھپادیا۔ جس مسجد کی تعمیر کا اُنہوں نے بیڑا اٹھایا اور کلیدی کردار بھی ادا کیا وہ آج ایک پُروقار مدرسے کے ساتھ موجود ہے۔
کل فرید خان سے ملاقات ہوئی تو عبدالکریم بھائی کا ذکر بھی ہوا۔ بات ہو رہی تھی کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کی۔ ابدی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کام اُس رفتار سے موزوں رہتا ہے جو اللہ نے طے کر رکھی ہے۔ یہ کائنات ایسے اصولوں کے تحت کام کر رہی ہے جو عمومی حالت میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اللہ عز و جل چاہیں تو ایسا بہت کچھ ہوسکتا ہے جو معلوم کائنات کے عمومی اصولوں سے ہٹ کر ہو اور ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ عمومی سطح پر تو سب کچھ اُسی طریق سے ہوتا ہے جو اللہ نے ہمارے لیے طے کیا ہوا ہے۔
عبدالکریم بھائی سے فرید خان کی ملاقات رہتی تھی۔ وہ مختلف امور پر فرید خان سے خوب بتیاتے تھے اور بالعموم ایسے نکات بیان کرتے تھے جو عام آدمی کے ذہن کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ فرید خان کی زندگی گاڑیوں کی مرمت کرتے گزری ہے۔ وہ اچھے مکینک ہیں۔ اس شعبے میں وہ کم و بیش 38 سال گزار چکے ہیں۔ کار سے ٹرک تک وہ کسی بھی گاڑی کی کسی بھی تکنیکی خرابی کو شناخت کرکے دور کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ برسوں پہلے کا قصہ ہے کہ عبدالکریم بھائی نے معمول کی ملاقات میں فرید خان سے ایک موضوع پر گفتگو کی۔ موضوع یہ تھا کہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے کب ہو پاتا ہے۔ عبدالکریم بھائی کہہ رہے تھے ''آپ کو گاڑیوں کی مرمت کرتے عمر گزری ہے۔ جب آپ یہ کام سیکھ رہے تھے تب انجن کی پیچیدگیاں دیکھ کر ذہن الجھ جاتا ہوگا۔ میں خود بھی انجن دیکھتا ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سٹارٹ کیسے ہوتا ہے اور اتنی بڑی گاڑی کو کھینچتا کیسے ہے۔ ٹرک دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سڑک پر ڈرائیور اِسے کیسے دوڑا لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کے لیے بھی اُس وقت بہت حیران کن رہا ہوگا جب آپ کام سیکھ رہے تھے۔ ایسا ہی ہے نا؟‘‘
فرید خان نے اثبات میں سَر ہلایا۔ عبدالکریم بھائی نے بات جاری رکھی ''زندگی کا ہر معاملہ ایسا ہی ہے۔ ہم کبھی کبھی سوئچ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں جبکہ الیکٹریشن پورے بورڈ کو کھول کر سوئچ بدلتا ہے یا کچھ اور اِس طور کر گزرتا ہے کہ ہم محض دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ذہن کے پردے پر یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کیا اُسے بجلی سے ڈر نہیں لگتا۔ ضرور لگتا ہوگا مگر تب کہ جب وہ کام سیکھنے کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ پھر اُسے سمجھایا گیا ہوگا کہ جن تاروں میں کرنٹ دوڑ رہا ہو مرمت کے دوران اُن سے کس طور بچنا ہے اور شارٹ سرکٹ کی راہ مسدود کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔‘‘
فرید خان دم بخود ہوکر عبدالکریم بھائی کی باتیں سُنتے رہے۔ چند دوسرے معاملات کا بھی اُنہوں نے ذکر کیا اور پھر اپنے شعبے کی طرف آگئے۔ اُنہوں کہا ''دین کی سمجھ اور خدمت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم دین کو بھی مرحلہ وار سیکھتے ہیں۔ تمام معاملات کو راتوں رات جاننے اور سمجھنے کی کوشش ذہن کو الجھا دیتی ہے۔ دینی تعلیم پانے والے بچے کو استاد کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اگر وہ موجودہ سبق سے بہت آگے کی باتوں پر دھیان دے تو ذہن الجھ جاتا ہے۔ غیر معمولی ذہانت رکھنے والے بچے تیزی سے سیکھتے ہیں مگر معلم کو طلبا‘ طالبات کے عمومی مزاج و کیفیت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ یہی معاملہ دین پر عمل کرنے کا بھی ہے۔ جو لوگ خصوصی طور پر دین کی طرف آتے ہیں یعنی پنج وقتہ نماز سے آگے جاکر دین کی تبلیغ اور رفاہِ عامہ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں منظم انداز سے، مرحلہ وار آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ بہت سے کام بہت تیزی سے کرنے کی خواہش عمومی سی سکت بھی باقی نہیں رہنے دیتی کیونکہ ذہن الجھ کر ڈھنگ سے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے میں انسان کا ولولہ ماند پڑنے لگتا ہے۔ تمام اہلِ ایمان کے لیے شخصی ارتقا کے حوالے سے سب سے بڑا نمونہ نبی کریمؐ کی ہستی ہے۔ آپؐ نے اللہ کا پیغام بتدریج پہنچایا۔ وحی کا سلسلہ کم و بیش بائیس سال جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھے کہ پورا قرآن ایک ہی بار نازل فرمادیتے۔ تمام احکام بتدریج وحی کیے گئے تاکہ آپؐ معاشرے کی تربیت کے ذریعے اُن احکام پر عمل کی راہ ہموار کرتے جائیں اور مومنین کو مزید احکام کے لیے تیاری کی حالت میں بھی رکھ سکیں۔ یہ کائنات اِسی اصول کے تحت کام کر رہی ہے۔ معاملہ دنیا کا ہو یا دین کا، تیاری مرحلہ وار ہونی چاہیے تاکہ کوئی ایک پہلو بھی بے جا عجلت کی نذر ہوکر زندگی کا توازن نہ بگاڑے۔ یہ آپؐ کی طرف سے شاندار تربیت ہی کا فیضان تھا کہ عرب کے بوریا نشین ایران و روم کی سلطنتوں کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوئے۔ آپؐ نے یہ عظیم الشان تربیت 23 برس کی مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچائی۔ مقصود یہ تھا کہ لوگ ہر معاملے کے لیے پوری طرح تیار رہیں۔‘‘
عبدالکریم بھائی دینی خدمت کے معاملے میں یہی انداز اختیار کرتے تھے۔ اور اس کا پھل بھی اُنہیں ملا۔ جس مسجد کی تعمیر کا بیڑا ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر انہوں نے اٹھایا تھا وہ مرحلہ وار تعمیر ہوئی اور آج ایک وسیع مدرسے کے ساتھ دین کی خدمت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس ہمارے لیے ہر معاملے میں فکر و عمل کا بہترین نمونہ ہے۔ جسے زندگی کو متوازن رکھتے ہوئے کچھ کرنا ہے وہ آپؐ کے اُسوۂ حسنہ کی پیروی کرے۔ آپؐ نے 23 برس تک اہلِ ایمان کی تربیت پر توجہ دی۔ دین و دنیا کی تمام باریکیاں تحمل کے ساتھ سمجھائیں۔ آپؐ پر ایمان لانے والوں نے سیکھنے کا حق ادا کیا۔ جو کچھ بتایا جاتا تھا اُسے اچھی طرح سمجھنے کے بعد اُس پر جان و دل سے عمل کو ترجیح دی جاتی تھی۔ عظیم ترین ہادیؐ کی معیت میں جتنا بتایا جاتا تھا وہ اُتنے ہی پر اکتفا کرتے تھے، عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے کی کوئی بات پوچھنے سے بالعموم گریز ہی کیا جاتا تھا۔ اہلِ ایمان کا یہ مزاج راتوں رات ابھر کر سامنے نہیں آگیا۔ آپؐ نے اہلِ ایمان کی تربیت کے دوران تحمل اور تدریج پر خاص زور دیا تھا۔
آج ہمارے سامنے دین مکمل حالت میں ہے مگر اب بھی اگر کوئی خصوصی طور پر دین کی طرف آئے تو اُسے تحمل کے ساتھ مرحلہ وار ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ پہلے تفہیم، اُس کے بعد تعمیل۔ ہر اُمتی کے لیے آپؐ کی یہی تعلیم و ہدایت ہے۔ اُخری فلاح کی طرح دُنیوی کامیابی بھی اُسی وقت یقینی بنائی جاسکتی ہے جب ہم سب کچھ مرحلہ وار سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حوالے سے نمایاں استقامت کا مظاہرہ کریں۔
فرید خان نے عبدالکریم بھائی کی نصیحت کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے۔ وہ قدرے پُرسکون رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے قائل ہیں۔ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا، بے جا عجلت یا بے صبری محض الجھن دیتی ہے اور اِس کے نتیجے میں بنے بنائے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ طویل مدت تک تربیت کے مختلف مراحل سے گزارے جانے ہی کا تو یہ نتیجہ تھا کہ بدر کے میدان میں صرف 313 اہلِ ایمان نے نمایاں حد تک بے سر و سامانی کی حالت میں اپنے سے تین گنا اور ہتھیاروں دیگر ضروری ساز و سامان سے لیس لشکر کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ ہم دین و دنیا کے ہر معرکے میں ظفریاب ہوسکتے ہیں۔ شرطِ اوّل یہ ہے کہ بے جا عجلت کے آغوش میں جا چُھپنے کے بجائے معاملات کی منطقی رفتار کو سمجھتے ہوئے استقامت دکھائی جائے یعنی راتوں رات بہت کچھ کرنے کے بجائے ڈٹے رہنے کو ترجیح دی جائے تاکہ معاملات فطری و منطقی رفتار سے انجام کو پہنچیں۔