"MIK" (space) message & send to 7575

مزا تو جاچکا ہے

عارف انصاری ہمارے اُن احباب میں سے ہیں جو بہت حد تک ہم مزاج بھی ہیں۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بھری دنیا میں دو چار ہی سہی مگر ہمارے ہم مزاج انسان ہیں تو سہی۔ انصاری صاحب تو موسیقی اور مطالعے کے حوالے سے ہمارے ہم مذاق بھی واقع ہوئے ہیں۔ آپ سوچیں گے جو ہم مزاج نہیں وہ احباب میں کیونکر شمار ہوسکتے ہیں۔ بات یوں ہے کہ حلقۂ احباب میں شامل تمام اصحاب مکمل طور پر ہم مزاج نہیں ہوا کرتے۔ بعض معاملات میں اختلافِ مزاج و رائے کے باوجود بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تمام ہی احباب ہر اعتبار سے آپ کی مرضی کے ہوں یہ کسی بھی طور لازم اور ممکن نہیں۔ ؎ 
لازم کہاں کہ سارا جہاں خوش لباس ہو
میلا بدن پہن کے نہ اِتنا اُداس ہو
خیر! بات یہ ہورہی تھی کہ انصاری صاحب کا مزاج ہمارے مزاج سے بہت ملتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ہماری طرح وہ بھی اچھی خاصی حد تک گزرے ہوئے زمانوں میں رہتے ہیں۔ ہماری طرح اُنہوں نے بھی پاکستان اور اہلِ پاکستان کو کئی ادوار سے گزرتے اور بدلتے دیکھا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل اُن کے حواس پر بھی بہت حد تک اثر انداز ہوا ہے۔ پاکستانی معاشرہ چند عشروں کے دوران تبدیلی کے اتنے مراحل سے گزرا ہے کہ مذاقِ بلند رکھنے والے کسی بھی انسان کے لیے مکمل ذہنی توازن کی حالت میں رہنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہم اور عارف انصاری اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ کل کی ملاقات کے دوران باتوں ہی باتوں میں معاشرے کا انحطاط بھی زیرِ بحث آیا۔ وہ تین چار سال پہلے تک نیو کراچی میں سکونت پذیر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بسایا جانے والا یہ علاقہ بنیادی طور پر وفاقی ملازمین کے لیے تھا مگر جب دارالحکومت منتقل ہوا تو اِس کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ 1950ء سے اب تک اس علاقے میں سکونت پذیر گھرانے برادریوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ یہاں شہر کے دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہونے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو عشروں سے جانتے ہیں۔ میل جول کا گراف خاصا بلند ہے۔ وہ نیو کراچی کے ایک ایسے حصے میں سکونت پذیر رہے ہیں جہاں میل جول عام تھا اور لوگ ایک دوسرے ہی کو نہیں بلکہ رشتہ داروں تک کو جانتے تھے۔ اس سے ملحق علاقے نارتھ کراچی میں اب بلڈنگز کا جنگل اُگ چکا ہے۔ بہت سے گھرانے اپنے آبائی گھروں میں جگہ کی کمی کے باعث اپارٹمنٹس میں منتقل ہوچکے ہیں۔ اپارٹمنٹس یا فلیٹس کی دنیا بالکل الگ ہے۔ اِس دنیا کے اپنے اصول ہیں۔ ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے اپارٹمنٹ کی چار دیواری تک محدود رہیے۔ یہی سبب ہے کہ اپارٹمنٹس میں لوگ دس دس پندرہ سال تک ساتھ رہتے ہیں مگر ایک دوسرے کا نام تک نہیں جانتے! اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جب نام تک جاننے یا بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تو باقی معاملات کی نوعیت کیا ہوگی۔
انصاری صاحب آبائی مکان سے نکل کر ہماری اپارٹمنٹ بلڈنگ کے نزدیک ہی ایک نئی اپارٹمنٹ بلڈنگ میں منتقل ہوچکے ہیں۔ اس بات کو کم و بیش چار سال ہوچکے ہیں مگر اب بھی اُن سے ملنے جائیے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہاں وہ اکیلے ہی رہتے ہیں، پڑوس میں کوئی آباد نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر اپارٹمنٹ آباد ہے۔ انصاری صاحب ایک ایسے علاقے سے آئے جہان ملنا ملانا، ہنسنا ہنسانا زندگی کا خاصا نمایاں اور معقول حد تک لازم سمجھا جانے والا حصہ تھا۔ ایسے میں اپارٹمنٹس کی سُونی سُونی فضا دل و دماغ پر کیا ستم ڈھاتی ہوگی اِس کا اندازہ ہر وہ شخص لگا سکتا ہے جو میل جول پر یقین رکھتا ہو اور وسیع حلقۂ احباب کا حامل ہو۔ کل کی ملاقات میں معاشرتی انحطاط و زوال کی بات نکلی تو عارف انصاری نے کہا اب کسی بھی معاملے میں مزا تلاش کرنا اُتنا ہی محال ٹھہرا ہے جتنا ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا برآمد کرنا! اُن کا استدلال تھا کہ کم و بیش تمام ہی معاملات کا اصل مزا جاچکا ہے۔ معاشرے کے مزاج میں رونما ہونے والی عذابِ جاں قسم کی اس تبدیلی کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ 
کراچی کے عمومی ماحول و مزاج میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت حد تک پریشان کن اور افسوس ناک ضرور ہیں، حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ جہاں پورا ملک تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے وہاں کراچی بھلا کیونکر محفوظ و مامون رہ سکتا ہے؟ معاشروں کا بدلنا کسی بھی درجے میں غیر متوقع بات نہیں۔ ہر معاشرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس عمل کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ایک دور تھا کہ معاشرے فتوحات کے نتیجے میں تبدیل ہوا کرتے تھے۔ ظفریاب اقوام زیرِ نگیں اقوام کو بدلنے پر تُل جاتی تھیں اور تبدیل کرکے دم لیتی تھیں۔ اب وہ سب کچھ تو ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں ٹیکنالوجی نے میدان سنبھال لیا ہے۔ انفارمیشن اور ٹیلی کام سیکٹر کی ٹیکنالوجیکل پیشرفت نے سبھی کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر کی فقید المثال پیش رفت نے ہر وقت باقی دنیا سے جڑے رہنے کی وبا اِس انداز سے پھیلائی ہے کہ اب انسان کا اپنے ہی وجود سے رابطہ تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی تو بہت دن گزر جانے پر یاد آتا ہے کہ ہم بھی ہیں اور یہیں ہیں۔ ہر وقت آن لائن رہنے کا یہ بھیانک نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ ہر انسان ع 
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، تُم ہو جاتا ہوں
والی کیفیت سے دوچار ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آن لائن کلچر کی بدولت جو ہمہ وقت پاس رہتے ہیں وہ بھی حقیقتاً قربت کا احساس دلانے میں ناکام ہی رہتے ہیں ؎ 
اِتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اِتنا نہ دور جا کہ ہمہ وقت پاس ہو
جب معاشرے یا ماحول کی یہ کیفیت ہو تو بیشتر معاملات کا لطف جاتا رہتا ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ اِسی پریشان کن کیفیت سے دوچار ہے۔ بیشتر معاملات میں مزا ٹھکانے لگ چکا ہے۔ آن لائن کلچر نے ہمیں اپنی بنیاد سے الگ کردیا ہے۔ جو کچھ پس ماندہ معاشروں میں رونما ہوسکتا ہے وہی ہمارے ہاں بھی رونما ہو رہا ہے۔ لوگ اپنی اصل کو بھول کر وہ سب کچھ اپنارہے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے اپنا نہیں۔ ہمارا معاشرہ روایت پسند بھی رہا ہے اور جعت پسند بھی۔ رجعت پسندی فی زمانہ قدرے منفی اصطلاح ہے مگر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ رجعت پسندی مکمل طور پر معیوب یا ناقص تصور نہیں۔ ہمارے ماضی میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارا ہے اور ہمارے لیے بے مثال قسم کی طمانیتِ قلب کا سامان بھی کرتا ہے۔ ہماری روایات میں اگرچہ کچھ ناقابلِ قبول بھی ہے مگر ایسا بھی بہت کچھہے جو کسی بھی حال میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ہم بڑے بڑے معاملات میں مزا تلاش کرتے ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مزا تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ ساری دنیا سے تو جڑے رہنا چاہتے ہیں مگر پڑوسیوں سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ عمومی رویے میں اجنبیت کا تناسب خطرناک، بلکہ تباہ کن حد تک بڑھ چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بزرگ بھی چھوٹوں سے 'خائف‘ سے رہتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں جہاں بھی قدیم بستیاں موجود ہیں‘ وہاں ایک دور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو خاندان کی حد تک جانتے تھے اور تب یہ بات عام تھی کہ گلی سے گزرنے والے کسی بھی نوجوان کو بزرگ خواتین اُس کے باپ کے نام سے آواز دے کر بلاتی تھیں اور رقم ہاتھ میں تھماکر حکم دیتی تھیں کہ بازار سے چیزیں لادو۔ اور لاپروائی کی صورت میں سرزنش کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ آج ایسا کچھ بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ 
مزا اگرچہ جاچکا ہے مگر تھوڑی محنت سے واپس لایا جاسکتا ہے۔ سوال صرف اپنی روایات سے جڑنے ‘ بلکہ جڑے رہنے کا ہے۔ مصنوعی شائستگی سے وہ سختی اور برہمی اچھی جس میں اپنائیت اور خلوص کا تناسب نمایاں ہو۔ دعا کیجیے کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کا مزا واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں