"MIK" (space) message & send to 7575

مان نہ مان، میں ہوں ’’جانکار‘‘

اگر ماحول پر طائرانہ سی نظر ڈالیے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ سبھی کو سب کچھ معلوم ہے۔ ماحول ہی کچھ ایسا بنادیا گیا ہے کہ یہ تاثر ابھرے بغیر رہتا نہیں۔ جو معلومات کا مفہوم بھی نہیں سمجھتے وہ عِلم کے عَلم بردار بن بیٹھے ہیں۔ جنہیں پڑوس تو پڑوس، اپنے ہی گھر کے معاملات کا بھی درست علم نہیں وہ ملک کی سیاست و معیشت کے جانکار ہونے کی اداکاری فرمارہے ہیں۔ شکیل حسنین ہمارے سینئر بھی تھے اور دوست بھی۔ جب ہم نے کیریئر کی ابتدا کی تھی تب وہ ایک جریدے میں سینئر رپورٹر تھے، پھر چیف رپورٹر بھی بنے۔ حال ہی میں اُن کا انتقال ہوا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے! شکیل حسنین چونکہ رپورٹر تھے اس لیے کسی بھی خبر کا علم ہونے پر چھوٹتے ہی اُن کے منہ سے نکلتا تھا ''ابے پتا تھا مجھے‘‘ یہی تکیہ کلام پھر اُن کی شناخت بن گیا۔ شکیل بھائی کا تکیہ کلام کسی کو بھی کَھلتا نہ تھا کیونکہ بعض لوگوں کے مزاج میں یہ تاثر دینا شامل ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ اور اِس تاثر میں کچھ زیادہ قباحت بھی نہیں کیونکہ جو کچھ بھی شائع یا نشر ہوتا ہے رپورٹرز واقعی اُس سے قدرے زیادہ ہی جانتے ہوتے ہیں لیکن سیلف سنسر شپ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔آج ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا پاکستانی معاشرہ کسی خاص تیاری کے بغیر شکیل بھائی کی نقّالی میں مصروف ہے۔ کسی کو کچھ بتائیے تو جھٹ سے جملہ جَڑ دیتا ہے ''کون سی نئی بات ہے، یہ تو مجھے معلوم ہی تھا!‘‘
شکیل بھائی دنیا میں نہیں رہے مگر ایسے بہت سے ہیں جو اُن کی کمی محسوس نہ ہونے دینے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ یومیہ بنیاد پر ذرا سی دیر کی رسمی سی گفتگو میں لوگ ایسا اندازِ گفتگو اختیار کرتے ہیں جو خطابت سے ملتا جلتا ہے۔ ''جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار‘‘ کے مصداق لوگ محفل کے سجتے ہی چہکنے لگتے ہیں، آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں اور دوسری دنیاؤں کی خبر لانے کا تاثر دینے لگتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہے؟ کیا محض اِس لیے کہ بڑھک مارنا اور بہت کچھ جاننے کا تاثر دینا انسان کی فطرت یا جبلّت کا حصہ ہے؟ کسی حد تک یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ بڑبولا پن انسان کی فطرت یا جبلّت میں گوندھ دیا گیا ہے مگر صاحب! یہ کیا کہ جب بڑبولے پن کا مظاہرہ کرنے پر آئیے تو تمام حدیں بھول جائیے اور باتوں ہی باتوں میں کہیں بھی نکل جائیے۔ آپ سوچیں گے جب بڑھک مارنا ٹھہرا تو کون سی حد، کیسی حد؟ جو لوگ باقاعدگی سے اخبار پڑھتے تھے وہ مختلف شعبوں کی معلومات کی حد تک دوسروں سے بہتر اور بلند ہوتے تھے اور یہ بات اُن کی گفتگو میں بھی جھلکتی تھی۔ کسی بھی نکتے کی وضاحت کرتے وقت یہ لوگ دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے اور بالعموم اپنا مؤقف منواکر دم لیتے تھے۔ جب چینلز آئے تو انفرادی سطح پر معلومات کا دائرہ وسیع ہوا۔ معلومات میں ہونے والے اضافے کو علم سے تعبیر کرتے ہوئے لوگ خود کو جانکار و تجزیہ کار تصور کرنے لگے۔ چینلز نے حالاتِ حاضرہ پر جب پرائم ٹائم میں بیٹھک سجانے کا اہتمام کیا تو مستقل ناظرین محض ناظرین نہ رہے بلکہ ''جانکاری‘‘ کی منزل تک پہنچے اور پھر اُنہوں نے تجزیہ کار بن کر ہی دم لیا۔ یہ جو ''میں تو سب جانتا ہوں‘‘ کا احساس یا بھرم ہے بس اِسی نے خرابیاں پیدا کی ہیں۔ ہر انسان کے پاس آج معلومات کے حصول کے بہت ذرائع ہیں۔ اِن میں موزوں ترین آپشن اختیار کرنا اُس کے اپنے اختیار کا معاملہ ہے۔ اور یہی اصل امتحان ہے۔ لازم تو نہیں کہ دستر خوان پر دس کھانے چُن دیے گئے ہوں تو سب کے سب کھائے جائیں۔ یہ تو اپنے معدے کو آزمائش میں ڈالنے والی بات ہوئی۔ اگر ہم ایک ہی وقت میں آٹھ دس مختلف النوع کھانے کھائیں تو کیا ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے، ''غدودانِ معدہ میں حالتِ خانہ جنگی‘‘ والا معاملہ پیدا ہوگااور معاملہ بدہضمی کی منزل پر پہنچ کر رکے گا۔ بس جناب! کچھ ایسا ہی حال آج اُن لوگوں کا ہے جو سوچے سمجھے بغیر ہر طرح کی معلومات سے اپنے ذہن کو آزمائش میں ڈالتے رہتے ہیں۔ یاروں نے طے کرلیا ہے کہ ذہن میں قدرت کی طرف سے بنائے گئے ہر شیلف میں کچھ نہ کچھ رکھنا ہے، پورے ذہن کو بھرا ہوا رکھنا ہے۔ جو لوگ کل تک اخبارات پڑھتے اور چینلز پر حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ''مرغوں کی یومیہ لڑائی‘‘ دیکھ دیکھ کر بہت کچھ جان لینے کا تاثر لے بیٹھتے تھے اور اِس بھرم کے ہاتھوں پریشان بھی رہا کرتے تھے وہ آج سوشل میڈیا کے آستانے پر سَر جھکائے ہوئے ہیں۔ سمارٹ فون نے عام آدمی کو جانکار و تجزیہ کار بنانے کا کام ایسا آسان کردیا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ معلومات کی بمباری ہر وقت جاری ہے۔ خبریں ہیں کہ آتی ہی رہتی ہیں۔ ''جلووں‘‘ کی اِس فراوانی میں کوئی اپنی آنکھوں کو خیرہ ہونے سے کیسے بچائے؟
اخبارات اور چینلز خبریں اور تجزیے ہم تک پہنچاتے تھے مگر ایک خاص حساب اور تناسب سے۔ سوشل میڈیا نے سارے بند توڑ دیے ہیں۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے قیامت سی ڈھادی ہے۔ جس کے دل میں جو کچھ آتا ہے وہ وڈیو بناکر اَپ لوڈ کردیتا ہے۔ دنیا دیکھتی ہے اور آنکھ بند کرکے داد دیتی ہے۔ کوئی یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کسی نے اگر کچھ کہا ہے تو اُس کا معیار کیا ہے اور اُسے درست تسلیم کرلینے کا نتیجہ کیا برآمد ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی جانے والی آڈیو اور وڈیو فائلز میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہر اعتبار سے ایسا نہیں ہوتا کہ سَر آنکھوں پر رکھا جائے۔ کوئی بھی دو چار کتابیں پڑھ کر خود کو متعلقہ موضوع کا ماہر سمجھنے لگتا ہے اور پھر وڈیوز اَپ لوڈ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ تماشا تیزی سے گہرائی و گیرائی کا حامل ہوتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز پر جو کچھ پیش کیا جارہا ہے وہ 99 فیصد کی حد تک انفرادی نوعیت کا ہے یعنی اُس کے مستند ہونے کے بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس وقت مشوروں کا بازار گرم ہے۔ جسمانی، معاشی اور معاشرتی خرابیوں کے بارے میں ماہرانہ رائے دینے اور ٹوٹکے پیش کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ اور انتہائے ستم یہ ہے کہ لوگ یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنے ذہنوں کے پیالے میں انڈیل رہے ہیں۔ ڈھنگ سے سوچنے والوں کا خیال یہ تھا کہ جب ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں لوگوں کو زیادہ جاننے کو ملے گا تو اُن میں اصل اور نقل کو پرکھنے کی صلاحیت بھی پروان چڑھے گی، وہ مستند مال کو زیادہ قبول کریں گے اور ہر پست چیز کو ٹھکرانے پر مائل ہوں گے۔ اُن کی سوچ غلط نہیں تھی کیونکہ ہونا تو یہی چاہیے تھا مگر ہاں! اُن کا اندازہ غلط نکلا۔ یہ قوم تو مزید الجھ کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو کچھ دینے کے دعویداروں نے ع
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
والا ماحول تیار کردیا ہے۔ اس بازار کی رونق بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اور دوسری طرف خریدار ہیں کہ اس بازار میں لائی جانے والی ہر چیز کو بسر و چشم قبول کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہیں۔ گویا ع
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
سوشل میڈیا پورٹلز پر غیر مستند مواد پیش کرنے والوں کی کمی نہیں اور اِدھر ''اہلِ دل‘‘ ہیں کہ ہر ایسی ویسی بات پر دل نچھاور کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کر رہے۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
بہت کچھ، بلکہ سبھی کچھ جان لینے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ عام آدمی اِس دوڑ میں ایسے جوش و خروش کے ساتھ شریک ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا اِس پر زیادہ کیا ہونا چاہیے ... حیرت یا افسوس! ؎
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک
بھڑکی ہوئی اِک آگ سی ہے دل سے جگر تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں