پاکستان کو تبدیل کرنے کے نعرے بھی لگائے جاتے رہے ہیں اور دعوے بھی بہت کیے گئے ہیں۔ کبھی وعدوں سے کام چلایا گیا اور کبھی یقین دہانیوں سے۔ کچھ تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں؟ کیا اِس لیے کہ کچھ تبدیل ہو ہی نہیں رہا؟ یا معاملہ یوں ہے کہ ہمارے پاس دیکھنے والی نظر ہی نہیں؟ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب / آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
معاملات کو سمجھنے کے لیے بصارت کافی نہیں‘ بصیرت کا بھی التزام ہو تو بات بنے۔ جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ سب کا سب سمجھ میں نہیں آتا اور بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو دکھائی دینا چاہیے مگر دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہو ہم اُسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اسی نکتے کی طرف اقبالؔ نے یوں اشارا کیا تھا ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی / ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
اطمینان رکھا جائے‘ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ مکمل جامد تو کبھی نہیں ہوتا۔ کچھ نہ کچھ بدل رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل بالعموم غیر محسوس نوعیت کا ہوتا ہے۔ اندر ہی اندر بہت کچھ بدل چُکتا ہے تب کسی بڑی تبدیلی کا دیدار ہوتا ہے اور ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی معاملہ اپنی اصل میں حیرت انگیز نہیں۔ اگر ہم معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں اور دیکھنے والی نظر پیدا کریں تو بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی بھی دیتا ہے اور محسوس بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی تبدیلیوں کے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے۔ ہمیں زیریں سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا زیادہ اندازہ اس لیے نہیں ہو پارہا کہ ہم اول تو دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے اور اگر کچھ دکھائی دے بھی جائے تو اُسے سمجھنے اور مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی طرف مائل نہیں ہو رہے۔
دو ڈھائی عشروں کے دوران دنیا بھر میں جو انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہی پاکستان میں بھی تو آئی ہیں۔ ہمارا معاشرہ بہت سے حوالوں سے بدلا ہے۔ دیکھنے والی نظر بدلی ہے‘ دیکھنے کا انداز اور زاویہ بدلا ہے‘ عمل کے حوالے سے رویوں میں تبدیلی رونما ہوئی ہے‘ زندگی بسر کرنے سے متعلق نظریے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ معاشرہ نہیں بدلا یا اُس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی؟ پورے ملک میں کوئی ایک فرد بھی پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کہیں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور یہ کہ وہ خود بھی نہیں بدلا۔
وقت اپنے اثرات چھوڑتا جاتا ہے۔ حالات و واقعات کی دست بُرد سے کوئی چیز محفوظ رہتی ہے نہ کوئی فرد۔ پاکستان معاشرہ بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران بہت کچھ بدلا ہے۔ یہ تبدیلی انفرادی سطح پر بھی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ ہماری زندگی میں بہت کچھ غیر محسوس طور پر در آیا ہے۔ میڈیا ہی کو لیجیے۔ آج ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارا اپنا وقت بھی ہمارا نہیں۔ اگر فراغت کے چند لمحات کسی طور میسر ہو بھی جائیں تو ہم خود اُنہیں غیر متعلق سرگرمیوں میں ضایع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر پاتے۔ یہ بے بسی پہلے کبھی انسان کا مقدر نہ بنی تھی۔ زندگی الجھنوں سے عبارت رہی ہے۔ انسان اور مسائل کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے مگر ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ انسان کا اپنے وجود اور وقت ہی پر اختیار نہ رہے۔ آج کا انسان بہت سے معاملات میں انتہائی درجے کی بے بسی کا مرقع ہے۔
دنیا بھر میں معاشرے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ جن ممالک کے قائدین باہوش اور باضمیر ہیں وہ مثبت تبدیلیوں سے ہم کنار ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کے قائدین اب تک پوری طرح ہوش مند بھی نہیں ہو پائے‘ باضمیر ہونا تو بہت دور اور بعد کا مرحلہ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت حد تک غیر محسوس ہیں کیونکہ شعوری سطح پر کچھ کرنے کا چلن عام نہیں۔ کوئی بھی معاشرہ حقیقی تبدیلیوں سے اُسی وقت ہم کنار ہوتا ہے جب شعوری سطح پر کچھ کیا جائے۔ اگر منصوبہ سازی کے ساتھ کچھ کرنے سے گریز کیا جائے تو معاملات اپنے طور پر بھی تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ انفرادی سطح پر کی جانے والی کاوشیں بھی رنگ لاتی ہیں مگر اُنہیں اپنے اثرات کا جلوہ دکھانے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستان بھی تبدیلی کے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے مگر یہ سب کچھ چونکہ منصوبہ سازی کے بغیر اور بالعموم انفرادی سطح پر ہے اس لیے ٹھیک سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو کچھ بدل رہا ہے اُس کے مجموعی یا اجتماعی اثرات کیا ہوں گے۔ معاشی رویے بھی بدلتے جارہے ہیں اور معاشرتی رویوں میں بھی اچھی خاصی اُتھل پُتھل واقع ہو رہی ہے۔ ایک سے ڈیڑھ عشرے کے دوران معاشی رویوں میں رونما ہونے والی خرابیوں نے پاکستانی معاشرے کو اچھے خاصے خلجان میں مبتلا کیا ہے۔ اب تک مجموعی طور پر نظام کچھ ایسا ہے کہ کچھ لوگ جتنا پاتے ہیں اُس سے کہیں کم کام کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے پاکستانی بھی ہیں جو اپنی محنت کا بمشکل تیس چالیس فیصد معاوضہ پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ عدل سے عاری یہ نظام ختم ہو تو کچھ بہتری آئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں وہ اس غیر عادلانہ نظام کو برقرار رکھنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ جو جہاں پھنس گیا سو پھنس گیا اور جس کے مزے ہوگئے بس یہ سمجھیے کہ اُس کے مزے ہی ہوتے رہنے ہیں۔ ایسے نظام میں کسی حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب کچھ سوچا جائے اور شعوری سطح پر جاکر فیصلے کیے جائیں۔ ہمارے یہاں ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا جارہا۔
معاشروں کو تبدیل کرنا بالعموم ریاستی مشینری کا کام ہوا کرتا ہے۔ حکمراں طبقہ جس نوعیت کی تبدیلیاں چاہتا ہے وہی ممکن ہو پاتی ہیں۔ عام آدمی کے سوچنے سے اُس کی اپنی زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آسکتی ہے‘ پورے معاشرے میں کوئی فوری انقلابی تبدیلی ممکن نہیں ہو پاتی۔ ہمارے ہاں جن کے ہاتھوں میں ملک و قوم کے تمام معاملات ہیں وہ اب تک تو کسی بڑی مثبت تبدیلی کے خواہاں دکھائی نہیں دیتے۔ ہاں‘ لوگ اپنے طور پر کچھ کرنا چاہیں تو اور بات ہے۔ انفرادی تبدیلیوں کے اثرات کا دائرہ خاصا محدود ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر جو کچھ کر رہا ہوتا ہے اُس کی حقیقی غایت تو یہی ہوتی ہے کہ زندگی کا رخ تھوڑا سا تو تبدیل ہو‘ کچھ تو نیا ہو جو دکھائی ہی نہ دے بلکہ اُس کے اثرات نمایاں طور پر محسوس بھی ہوں۔
اس وقت ہمارا معاشرہ جس نوعیت کی معمولی تبدیلیوں کے مرحلے سے گزر رہا ہے اُس کے نتیجے میں ملک کی تقدیر تو نہیں بدل سکتی مگر ہاں‘ اتنا ضرور ہے کہ لوگوں میں سوچنے کی صلاحیت کسی حد تک پروان چڑھ رہی ہے۔ میڈیا نے باخبری کی سطح بلند کردی ہے۔ یہ باخبری انسان کو سوچنے پر بھی مائل کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے تھوڑی سی تحریک دینے کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلی کا عمل غیر محسوس اور تحت الشعوری نہ ہو بلکہ اس معاملے میں سوچ سمجھ کر کچھ کرنے کی روش اپنائی جائے۔ حکومتی یا ریاستی سطح پر تبدیلی کے حوالے سے جو بڑھکیں ماری جاتی رہی ہیں اُن کے نتائج ہم دیکھ چکے۔ جب اہلِ اقتدار کوئی حقیقی تبدیلی نہیں چاہتے تب عوام کو آگے بڑھ کر یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ کنواں تو پیاسوں کے پاس آتا نہیں‘ پیاسوں ہی کو کنویں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہم کون سے انوکھے ہیں کہ قدرت ہمیں اس کُلیے سے مستثنیٰ قرار دے۔
معاشرے یونہی تبدیل نہیں ہوتے۔ بہت دیکھنا‘ سمجھنا‘ سوچنا اور پھر اُس کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے۔ آج کے انتہائی ترقی یافتہ معاشروں نے بھی شعوری سطح پر فیصلے کرکے خود کو بدلنے کی کوشش کی تو بات بنی۔ ہمارے ہاں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور ہمارے تمام معاملات کو بدل کر ہمیں بہتر زندگی کی طرف جانے کی پوزیشن میں لے آئے گا۔ اس سادہ لوحی نے ہمیں سات عشروں تک لُوٹا ہے‘ برباد کیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم خود کو اور ماحول کو بدلنے کے لیے شعوری سطح پر متحرک ہوں‘ حُسنِ ترتیب سے سوچیں اور عمل کی راہ پر اس طور گامزن ہوں کہ جینا بامقصد ٹھہرے۔