ایک بار پھر ملک وہیں آ کھڑا ہوا ہے جہاں وہ تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد آجایا کرتا ہے۔ جمہوریت ایک بار پھر محض خطرے میں نہیں پڑی بلکہ اپنی اصل سے محروم ہو جانے کے موڑ پر آگئی ہے۔ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہر اُس پاکستانی کے لیے انتہائی افسوس ناک ہے جو قوم کا درد رکھتا اور وطن کے لیے سوچتا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ اِس بات کو، ایک بار پھر‘ ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ جسے جمہوریت کہا جارہا ہے وہ جمہوریت نما بھی نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو پہلے سینیٹ الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اور پھر جس انداز سے وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا‘ وہ بھی عجیب ہے۔ سوال یہ ہے کہ تین دن پہلے غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے والی اپوزیشن کو راتوں رات کیا ہوا کہ عدم اعتماد کی فضا میں اعتماد کے ووٹ کے لیے پولنگ کے دوران اُس نے اپنے پَر سمیٹ لیے۔ بہر کیف! جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس قدر قابلِ فہم ہے کہ مستقبل قریب کے بارے میں سوچ کر دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔
جب تحریک انصاف برسراقتدار آئی تھی تب قوم نے سوچا تھا کہ شاید اب کچھ بہتری آئے۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس حکومت کرنے اور افسر شاہی سے بطریقِ احسن نمٹنے کا تجربہ تو خیر نہیں تھا مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُن میں پایا جانے والا جوش و جذبہ بہت کچھ ملنے کی نوید سنارہا تھا۔ خاص طور پر نئی نسل کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ عمران خان کی قیادت میں ملک کچھ نہ کچھ حاصل کرکے رہے گا۔ عمران خان کا اندازِ سیاست ایک طرف‘ مگر اُن پر کرپشن کا الزام تو اُن کے بدترین دشمن بھی عائد نہیں کرتے۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے موقع پر قوم کا خیال تھا کہ روایتی سیاست دانوں سے ہٹ کر کوئی آرہا ہے تو شاید اب نئی طرز کی جمہوریت دیکھنے کو ملے گی۔ وائے ناکامی! کہ ایسا کچھ نہ ہوا یعنی عوام کی امیدیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ اُن کے مسائل جوں کے توں ہیں، بلکہ زیادہ شدت اختیار کرگئے ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا رونا رویا ہے۔ یہ رونا بلا جواز ہے نہ غیر منطقی۔ ہاں! طریقہ تھوڑا سا نامناسب تھا اور الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ عام پاکستانی بھی حالات و واقعات پر تھوڑی سی توجہ دے کر تجزیہ کرے تو اندازہ لگا سکتا ہے کہ گڑبڑ نہ صرف یہ کہ ہوئی ہے بلکہ بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بہت پہلے اندازہ ہوچکا تھا کہ اُن کی اپنی پارٹی کے کئی ارکان وفاداری بدل چکے ہیں۔ ایسے میں ان کا پریشان ہو اٹھنا فطری امر تھا۔ اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کا منتخب ہونا معاملے کو اتنا پیچیدہ بناگیا کہ وزیر اعظم کے لیے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا لازم ٹھہرا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اُن کی سیاسی ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی۔ انہوں نے پارلیمانی جمہوریت کی روایات کے مطابق ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا درست جانا۔ یہ اچھا فیصلہ تھا مگر اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرنے کے بعد انہیں ''مشاورت‘‘ کرنا پڑی۔ قوم کو اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان اپنے طور پر اور عجلت میں کیا تھا۔ ہمارے ہاں جس انداز کی جمہوریت پائی جاتی ہے اس میں اپنے طور پر فیصلے کرنے کی گنجائش برائے نام ہے۔ عبدالحمید عدمؔ نے خوب کہا ہے ؎
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بہت جلد باز ہوتے ہیں
الیکشن کمیشن نے وہی کیا جو عدالت نے کہا تھا یعنی یہ کہ پولنگ رازداری کے اصول کے تحت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم صاحب کو چونکہ ہارس ٹریڈنگ کا اندازہ ہوچکا تھا اس لیے وہ اس بات کے خواہش دکھائی دیے کہ بیلٹ پیپر قابلِ شناخت ہو۔ الیکشن کمیشن نے آئینی ترمیم سے قبل ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وزیر اعظم نے سینیٹ کے الیکشن میں اپنی پارٹی کی شکست کے بعد قوم سے خطاب میں الیکشن کمیشن کو بھی نشانے پر لیا تھا۔ اس پر الیکشن کمیشن نے فوری ردِعمل دیا۔
سینیٹ الیکشن کے دوران اور اس کے بعد کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کا اجلاس چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی صدارت میں ہوا جس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی کو کسی بات پر اختلاف ہے تو شواہد کے ساتھ بات کرے۔ ہر شخص اور ہر سیاسی جماعت میں شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ بیان کے مطابق‘ الیکشن کمیشن ہر طرح کے دباؤ کے بغیر کام کرتا ہے۔ کسی کی خوشنودی کی خاطر قواعد نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ کئی وفود نے الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ ان کی بات سنی گئی۔ الیکشن کمیشن نے سب کی تجاویز سنیں مگر کِیا وہی جو آئین اور قانون کے مطابق تھا۔ بیان کے مطابق جب تجاویز سنی جاسکتی ہیں تو شکایات کیوں سنی نہیں جاسکتیں؟ اور یہ کہ الیکشن کمیشن کا کام قانون سازی نہیں بلکہ قانون کی پاسداری و پاسبانی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اداروں کو متنازع بنانے اور اُن پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز کیا جائے۔
جمہوریت کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قوم کے کس کام کا؟ ٹی وی پر تجزیے کیے جارہے ہیں، تبصرے فرمائے جارہے ہیں مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ عوام جو کچھ دیکھنے کے متمنی اور منتظر ہیں وہ کب دکھائی دے گا۔ عام آدمی کو اس بات سے بھلا کیا غرض کہ اقتدار کی مسند پر کون بیٹھا ہے اور اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں۔ تجزیوں اور تبصروں سے بھی اس کا کچھ خاص لینا دینا نہیں۔ ویسے تو بہت کچھ ہو رہا ہے مگر عوام کے مسائل حل کرنے کے حوالے ہی سے کچھ نہیں ہو رہا۔ عام آدمی اب تک مشکلات کی چکّی میں پس رہا ہے۔ اس کی مایوسی کا گراف بلندتر ہوتا جارہا ہے۔ حالات نے اُس کی کمر توڑ دی ہے۔ وہ یومیہ بنیاد پر جی رہا ہے یعنی روزانہ اُسے صرف دو تین وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے ہی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس سطح سے بلند ہوگا تو کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچ سکے گا، زندگی کا گراف بلند کرکے ملک و قوم کے لیے کچھ کرسکے گا۔یہ دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ایک باصلاحیت اور حوصلہ مند قوم کو دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے جال میں پھانس لیا گیا ہے، جمہوریت نام کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔ عوام کی حکمرانی کے نام پر صرف کرپشن کا بازار گرم رکھنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ معیشت سمیت ہر شعبہ شدید گراوٹ کا شکار ہے۔
عوام بہت کچھ نہیں کرسکتے مگر جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ بھی تو نہیں کر رہے۔ عمومی شعور کی سطح بلند کرنا ہوگی۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب میڈیا اور سوشل میڈیا‘ دونوں سے مثبت کام لیا جائے۔ جمہوریت کے نام پر ہمیں جس نظام کے ذریعے بہلایا جارہا ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے مکمل طور پر قابلِ قبول نہیں۔ ملک بند گلی میں ہے۔ اس گلی سے نکلنا لازم ہے کیونکہ وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ ڈھائی تین عشروں سے منتخب حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں بھی یہ تجربہ اب تک ناکام رہا ہے۔ یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ ملک کو حقیقی استحکام کی راہ پر ڈالنے کے لیے مضبوط حکومت لازم ہے۔ وسط مدتی انتخابات کی تو خیر کوئی گنجائش نہیں اور اِن ہاؤس تبدیلی بھی بلا جواز نہ ہو تو اچھا۔ تحریک انصاف کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسے ناکام بنانے کی کوششیں ترک کی جائیں۔ حکومت کی ناکامی عوام کی ناکامی تصور کی جانی چاہیے یعنی اُن کے مسائل کے حل کی راہ ہموار نہ ہو پائے گی۔