"MIK" (space) message & send to 7575

زمانۂ غار کی واپسی

ذہن مسلسل قبولیت کی حالت میں رہتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے وہ ذہن پر اپنے اثرات مرتب کیے بغیر نہیں رہتا۔ ہر انسان کے لیے ذہن کی اِس خصوصیت کو سمجھنا لازم ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بات اُس پر اثر انداز نہیں ہوتی تو وہ جان لے کہ یہ بھی اثر پذیری ہی کی ایک شکل ہے۔ معلوم کائنات میں صرف انسان ہے جو معاملات کو سمجھنے، اُن پر غور کرنے اور کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عمل کم و بیش ہر انسان کی ذہنی ساخت کا حصہ ہے مگر چند ہی ہیں جو اس عمل کا حق ادا کر پاتے ہیں۔ شان الحق حقّیؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے!
ہماری زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو غیر محسوس طور پر ذہنی ساخت کا حصہ بنا ہے۔ ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے اور ہمیں متاثر کیے بغیر نہیں رہتا یعنی کہ چند ایک اثرات ضرور مرتب کرتا ہے، ہمیں وہاں نہیں رہنے دیتا جہاں ہم کچھ دیر پہلے ہوتے ہیں۔ ماحول میں واقع ہونے والی تبدیلیاں ہمارے ذہن میں داخل ہوکر فکری ساخت کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ جو کچھ ہم تک پہنچتا ہے وہ ہمارے لیے کسی نہ کسی حد تک تبدیلی کی راہ ضرور ہموار کرتا ہے۔ بیسویں صدی نے انسان کو مکمل طور پر بدل ڈالا۔ کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال کے دوران انسان نے علم و فن کی سطح پر جو کچھ کیا تھا وہ سب بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا۔ جو کچھ ایجاد ہوچکا تھا اُسے حتمی شکل ملی اور بہت کچھ نیا ایجاد و دریافت کی منزل سے گزرا۔ انسان روزِ اول سے زندگی کو آسان تر بنانے کا خواہش مند رہا ہے۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اُس نے بہت کچھ سوچا، کیا اور بنایا۔ آج ہمیں ماحول میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ زندگی کو آسان تر بنانے کی خواہش ہی کا مظہر ہے۔ یہ عمل بیسویں صدی میں اپنے درجۂ کمال کو پہنچا۔ انسان پر کئی زمانے گزرے ہیں۔ ابتدائی زمانہ غار کا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ دیگر حیوانات سے خود کو بچانے کی خاطر انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ شکار پر گزارہ تھا۔ جو کچھ شکار کیا ہوتا تھا اُسے کئی دن تک کھایاجاتا تھا اور پھر ضرورت کے تحت مزید شکار پر نکلا جاتا تھا۔ غار کے زمانے کی ذہنیت یہ تھی کہ اپنی بقا کو باقی تمام معاملات پر مقدم رکھا جائے۔ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اپنا پیٹ کیسے بھرنا ہے۔ اِس ضرورت کے تحت لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور جس کے پاس لاٹھی ہوتی تھی بھینس بھی وہی لے جاتا تھا۔ انسان کی مجبوری اور بدنصیبی دیکھیے کہ ضرورت کے مطابق تقریباً سبھی کچھ ایجاد اور دریافت کرچکنے کے باوجود غار کے زمانے کی ذہنیت عود کر آئی ہے۔ جب ماحول میں سہولت کے نام پر تقریباً کچھ بھی نہیں تھا تب انسان کا اپنی بقا یقینی بنانے کے حوالے سے بات بات پر بدحواس ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ آج وہی ذہنیت کیوں کارفرما ہے؟ آج کم و بیش ہر انسان کے لیے بقا کا سامان موجود ہے۔ کھانے کو بہت کچھ اور آسانی سے میسر ہے۔ موسم کی سختیوں کا سامنا کرنے کا بھی انتظام انسان نے کرلیا ہے۔ دوسرے حیوانات سے مکمل سلامتی یقینی بنانا بھی ایسا کام ہے جو کرلیا گیا ہے۔
ایک دور تھا جب مستقبل کا واضح تصور موجود نہ تھا۔ بقا کا مسئلہ سب سے بڑا اور پیچیدہ تھا۔ اوسط عمر بہت کم تھی۔ کوئی کسی بھی وقت موت کے منہ میں جاسکتا تھا۔ وبائیں پھیلتیں تو آن کی آن میں لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد لقمۂ اجل بن جاتے۔ جنگیں ہوتیں تو کیا سپاہی اور کیا عام شہری‘ سبھی موت کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہوتے تھے۔ عام سی بیماری بھی موت کا سبب بن جایا کرتی تھی۔ تب ہر انسان اِس بنیادی تصور کے تحت زندگی بسر کرتا تھا کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ عام سے زخم بھی جان لے کے ٹلتے تھے۔ حادثاتی موت سے بچنا بھی آسان نہ تھا۔ تب انسان لمحۂ موجود کو آنے والے زمانے پر فوقیت دیتا تھا۔ گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنا تو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے جیسا معاملہ تھا۔ اور آنے والے زمانے کے حوالے سے تیقن چونکہ خفیف سا ہوتا تھا اس لیے کوشش یہ ہوتی تھی کہ جو لمحات میسر ہیں اُن سے بھرپور حِظ اٹھاتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ یہی سوچ بے حواسی بھی پیدا کرتی تھی۔ تب ہر انسان زیادہ سے زیادہ کے حصول کا خواہش مند رہتا تھا تاکہ بقا کے ساتھ ساتھ زندگی کو پُرلطف بنانے میں بھی کامیاب ہو۔ غار کے زمانے کے انسان کا بات بات پر بدحواسی کے گڑھے میں گرنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کا انسان غار کے زمانے کی ذہنیت کے ساتھ کیوں جی رہا ہے۔ آج صحتِ عامہ کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند ہے۔ ایسے میں موت کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت بھی اطمینان بخش حد تک بڑھ چکی ہے۔ ایک دور وہ تھا کہ جب انسان کو وسائل کی تلاش میں نکلنا پڑتا تھا اور اُن کے حصول کے لیے جان ہتھیلی پر رکھنے کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ اب ایسی کوئی الجھن درپیش نہیں۔ آج انسان کو بہت کچھ بہت آسانی سے میسر ہے۔ پھر بھی انتہائی درجے کی بدحواسی؟ یہ بات بالائے فہم ہے۔ بنیادی مسئلہ نفسی الجھنوں کو نظر انداز کرنے کا ہے۔ انسان کو مرتے دم تک تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسانی مزاج میں ایسی بہت سی باتیں ودیعت کی گئی ہیں جو شدید مضر ہیں اور اُن سے نجات پائے بغیر معیاری زندگی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔
انسان نے ظاہر پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور باطن کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ ہزاروں سال کے دوران انسانی مزاج میں جس نوعیت کی پیچیدگیاں دکھائی دیتی رہی ہیں وہی آج بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ فطری ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو کل تک بالکل نہیں تھا۔ انسان نے بہت کچھ بنایا ہے۔ بلند و بالا عمارتیں، پُل، سڑکیں، زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرآسائش بنانے والی اشیا اور متعلقہ خدمات وغیرہ وغیرہ۔ ظاہری زندگی آسائشوں اور تعیشات سے مزین ہے۔ ہاں! باطنی زندگی کے حُسن میں اضافے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ایسا کرنا سرے سے ضروری ہی نہیں سمجھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں باہر جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اندر ہی کا عکس ہے۔ جو کچھ ذہنی ساخت میں ہوتا ہے وہی تو پردۂ ظاہر پر منعکس ہوتا ہے۔ جیسی سوچ ہوتی ہے ویسا ہی ماحول پروان چڑھتا ہے۔ زندگی کے مادّی پہلو کو زیادہ سے زیادہ خوش نُما بنانے کی کوشش میں ہم نے باطنی اور روحانی پہلو سے کم و بیش مکمل چشم پوشی برتی ہوئی ہے۔ مزاج کی درستی اور فکری ساخت کی تہذیب کو نمایاں ترجیح کا درجہ دینے کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج زندگی میں بہت کچھ ہے مگر محسوس یہ ہوتا ہے جیسے کچھ بھی نہیں ہے ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے
آج کا انسان بہت کچھ پانے کے بعد محرومی کی سی کیفیت اس لیے محسوس کر رہا ہے کہ اُس نے باطن کو درست کرنے پر توجہ نہیں دی، روحانی بالیدگی کا اہتمام نہیں کیا۔ زندگی کو اگر سکہ سمجھیے تو اُس کے دو رخ ہیں ... ظاہر اور باطن۔ کسی ایک رخ یا پہلو کو بہت نکھارنے اور دوسرے کو نظر انداز کرتے رہنے سے بات بنتی نہیں۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا سبھی کھلے دل اور خندہ پیشانی سے اعتراف نہیں کرتے کیونکہ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
زمانۂ غار کی ذہنیت کے غار سے نکلنے کے لیے لازم ہے کہ باطن کی تطہیر و تہذیب کا بھی اہتمام کیا جائے۔ فکری ساخت کو درست کرنے ہی سے بدحواسی کا چلن بھی ختم ہوگا۔ دانش کا مظہر یہ ہے کہ زندگی کا مادّی پہلو مضبوط کرنے کی دُھن میں روحانی پہلو نظر انداز نہ کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں