تین دن قبل جماعتِ اسلامی کراچی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری نے یاد کیا۔ معاملہ تھا جماعت ِ اسلامی کے تحت ''حق دو کراچی کو‘‘ ریلی کے بعد کی صورتِ حال اور کراچی کے حقوق کے حوالے سے تحریک کو مضبوط تر کرنے سے متعلق تبادلۂ خیال کی محفل سجانے کا۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے کالم نگاروں اور ڈائری رپورٹرز کو مدعو کیا تھا۔ ملاقات ہوئی اور خوب رہی۔ پہلے حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے مسائل اور بنیادی ضرورتوں کا اجمالی خاکہ پیش کیا۔ اس کے بعد سوال و جواب کا دور چلا۔ کراچی کے مقامی اور غیر مقامی‘ تمام ہی باشندوں کو درپیش مسائل پر سیر حاصل تبادلۂ خیال ہوا۔ اس نشست کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ اہلِ کراچی کو اُن کے حقوق دلانے کے حوالے سے جو کچھ کیا جارہا ہے اُس کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ مزید کیا ہوسکتا ہے اور اِس راہ میں کون کون سی مشکلات حائل ہیں۔
کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے وفاق کچھ خاص کام کرنے پر یقین رکھتا ہے نہ صوبائی حکومت۔ معاملات کو ''آٹو پائلٹ‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ کراچی کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ بعض زخموں کا موزوں طریقے سے علاج نہ کرایا جائے تو کچھ مدت کے بعد بہرحال بھر جاتے ہیں مگر ہم یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ ایسے زخم اندر ہی اندر کتنا نقصان پہنچاتے ہیں!
اس وقت عالم یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے مسلسل کراچی کا مسئلہ سلگ رہا ہے اور اسی باعث اب یہ میگا سٹی بہت حد تک مسائلستان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ شہر کا رقبہ بھی بہت زیادہ ہے اور آبادی بھی۔ دونوں معاملات میں کوئی کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ ملک کے بہت سے حصوں میں روزگار کے بہتر ذرائع اور مواقع میسر نہ ہونے کے باعث لوگ بڑے شہروں اور بالخصوص کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی سب کو اپنے دامن میں سمو لیتا ہے۔ آبادی چونکہ بڑھتی جارہی ہے اس لیے رقبے کا بھی بڑھتے جانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ ہاں! تشویش ناک ضرور ہے کیونکہ پھیلتے ہوئے رقبے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے جس قدر منصوبہ سازی ہونی چاہیے‘ وہ نہیں کی جارہی۔ معاملات کو آزاد و بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہر شعبے میں مافیا نمودار ہوچکے ہیں‘ بلکہ اب نمودار ہونا بھی پرانی بات ہو چلی ہے‘ہر شعبے میں مافیاز اپنے پنجے نہ صرف گاڑ چکے ہیں بلکہ اپنی جڑیں بھی خاصی مضبوط کر چکے ہیں۔ پانی اور ٹینکر والی بات تو پرانی ہو چلی کہ جو بنیادی سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی‘ وہ پرائیوٹ سیکٹر بلکہ مافیا سیکٹر کو سونپی جا چکی ہے۔ حد یہ ہے کہ نہ صرف حکومت اپنے بنیادی فرائض پورے کرنے سے غافل و قاصر نظر آتی ہے بلکہ باقاعدہ ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ مافیاز پنپنے لگتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا نظام دانستہ خراب کیا گیا ہے تاکہ لوگ پانی خرید کر پینے پر مجبور ہوں۔ اب تو صفائی ستھرائی کا نظام بھی لوگ اپنے طور پر چلانے پر مجبور ہیں۔ بجلی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سے صنعتی اور تجارتی ادارے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث اپنی بجلی خود پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس مد میں اُنہیں خطیر رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ پیداواری لاگت پر اثر انداز ہوتا ہے اور یوں صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے مسابقت دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔
ملک بھر سے لوگوں کی آمد اور کراچی میں رہائش اختیار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی پہلے سے بُری حالت کے حامل بنیادی ڈھانچے کو مزید خراب کر رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ گزشتہ برس طوفانی بارشوں نے کراچی کے نام نہاد بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر بے نقاب و بے لباس کردیا۔ صورتِ حال کی سنگینی کے پیش نظر وزیر اعظم اور آرمی چیف نے کراچی کا دورہ کرکے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ اس پیکیج پر کس حد تک عمل ہوسکا ہے اور اب تک کراچی پر کتنے سو ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔ یہ پیکیج تین سالہ ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کے نام سے بروئے کار لایا جانا تھا۔
وفاق اور صوبائی انتظامیہ کے مابین تاحال ورکنگ ریلشن شپ قائم نہیں ہو سکا ہے۔ وفاق کو شکایت ہے کہ سندھ حکومت بعض معاملات میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے جبکہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاق کو کراچی میں زیادہ کھل کر کام کرنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ کراچی صوبائی دارالحکومت ہے۔ بظاہر سندھ حکومت کا موقف درست معلوم ہوتا ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ کراچی کو ترقی نہیں دی جائے گی تو وفاق ہی کچھ کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ کراچی سے متصل جزیروں کے معاملے پر دونوں کی ٹھنی ہوئی ہے، ٹیکس وصولی کے معاملات میں بھی صوبائی حکومت حصہ داری چاہتی ہے جبکہ اب وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے نئی مردم شماری کا مطالبہ بھی کر دیا ہے
کراچی کو ایسے بھرپور ترقیاتی عمل کی ضرورت ہے جس میں تنازعات اور مناقشے کم ہوں۔صوبائی حکومت کے پاس حقِ ملکیت کے دعوے زیادہ ہیں مگر کام کم ہے‘ پچھلے دس بلکہ بارہ سالوں سے جو صوبائی حکومت کی کارکردگی رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے پیشِ نظر وفاق کو یہ حقیقت اب پوری شدت سے محسوس کرنی چاہیے کہ کراچی کو سندھ حکومت یا سٹیک ہولڈر ہونے کی دعویدار جماعتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جو سٹیک ہولڈر ہونے کے دعویدار ہیں انہیں بھی لوگوں نے تین عشروں کے دوران بھرپور اختیارات کا حامل ہونے کی حالت میں اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ وفاق کو اب تو ہوش آنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ کراچی پورے ملک کے لیے بھرپور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ کراچی کے مسائل حل کرنے سے صرف مقامی باشندوں کو ریلیف نہیں ملے گا بلکہ ملک بھر سے آکر بسے ہوئے لوگ بھی زندگی میں آسانی محسوس کریں گے اور اُن کے وہ متعلقین بھی بہت حد تک مستفید ہوں گے جو اپنے اپنے آبائی علاقوں میں رہتے ہیں۔ یوں کراچی کی ترقی ملک کے بہت سے علاقوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے گی۔ ساتھ ہی ساتھ وفاق کو یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا ہے کہ کراچی کے اصل باشندوں کو ملازمتوں اور پروفیشنل تعلیمی اداروں میں بھرپور نمائندگی ملنی چاہیے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ کراچی میں سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مقامی باشندے اس حوالے سے شدید محرومی کی حالت میں ہیں۔ یہ سلسلہ بہت طُول پکڑ چکا ہے۔ اس کی خرابیاں بھی ہیں جو ہمیں دکھائی نہ بھی دے رہی ہوں تو اپنے اثرات تو مرتب کرکے ہی دم لیں گی۔ کراچی کے مسائل بہت بڑے الاؤ کے مانند ہیں۔ اِس الاؤ میں بہت کچھ جل رہا ہے۔ اب یہ آگ بجھانا ہی پڑے گی۔
اہلِ کراچی کو جدید خطوط پر استوار اور لاگت کے اعتبار سے معقول ماس ٹرانزٹ سسٹم چاہیے۔ پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بھی جنگی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعتِ اسلامی نے اہلِ کراچی کو حقوق دلوانے کے حوالے سے جو تحریک شروع کر رکھی ہے‘ یہ درحقیقت اہالیانِ کراچی کی تحریک ہے‘ جسے ہر حال میں صرف جاری نہیں رہنا چاہیے بلکہ اُس کی قوت میں اضافہ بھی ہونا چاہیے۔