"MIK" (space) message & send to 7575

سرپرستی کا عنصر

کون ہے جس میں صلاحیت نہیں پائی جاتی؟ دنیا کے ہر انسان کو کسی نہ کسی خصوصیت کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ کوئی بھی انسان یہ رونا نہیں رو سکتا کہ اللہ نے اُسے کوئی صلاحیت نہیں بخشی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کا نظام چل نہ پاتا۔ ہر انسان کسی نہ کسی صلاحیت ہی کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور یہ سب کچھ اُس دن سے ہوتا آیا ہے جب اللہ نے یہ دنیا بسائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر انسان میں صلاحیت یا صلاحیتیں پائی جاتی ہیں تو عمومی طور پر انفرادی حالات بہتر کیوں نہیں ہو پاتے۔ ہر عہد کے اہلِ دانش نے اس اہم سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ صلاحیتیں ودیعت ضرور کی گئی ہیں مگر اُنہیں نکھار اور سنوار کر بروئے کار لانا انسان کے ہاتھ میں ہے۔ قدرت صلاحیت بھی دیتی ہے اور مواقع بھی مگر اُس کا کام یہیں تک ہے۔ صلاحیتوں کا گراف بلند کرنا اور مواقع شناخت کرکے صلاحیت اور اہلیت کو بروئے کار لانا انسان کا اپنا معاملہ ہے۔
نئی نسل جب عملی زندگی کی طرف بڑھتی ہے تب سب سے بڑا مسئلہ اپنی صلاحیت کو پہچاننے کا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیریئر کونسلنگ کے ذریعے نئی نسل کو بتایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ وہ کس شعبے میں جائے۔ بچوں کے رجحانات کا اندازہ سکول کی تعلیم کے دوران ہی لگالیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور والدین کی مشاورت میں بھی یہی طے کیا جاتا ہے کہ بچوں کو کس طرف جانا ہے، کس شعبے میں اپنے آپ کو آزمانا ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ سازی اور دانش مندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان محض جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا شعبہ منتخب کرلے جو اس کی صلاحیتوں اور مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیریئر کے انتخاب میں غلطی انسان کو شدید خسارے سے دوچار کرتی ہے کیونکہ سب سے بڑا نقصان صلاحیت کا نہیں‘ وقت کا ہوتا ہے جو حقیقی نقصان ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں بچوں کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے اور انہیں عملی زندگی کے حوالے سے درکار معلومات کی فراہمی اور رہنمائی کے معاملے میں سنجیدگی کا شدید فقدان ہے۔ عمومی سطح پر والدین کو بھی اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ بچہ کیا بنے گا، کیا کرے گا۔ نچلے طبقے میں والدین اور خاندان کے بزرگ کسی بھی بچے یا نوجوان سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ وہ کیا بننا اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ کیریئر جیسے معاملات کو random لیا جاتا ہے۔ نئی نسل کا مجموعی طور پر معاملہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور انٹر یا گریجویشن کی سطح تک تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور پھر جہاں سینگ سمائیں وہاں بیٹھ جاتی ہے۔ عملی زندگی شروع کرنے کا یہ طریقہ کسی بھی طور معیاری نہیں۔
نئی نسل کے ذہن میں بہت سی الجھنیں ہوتی ہیں۔ ہر نوجوان چاہتا ہے کہ ایسے شعبے کو کیریئر کے طور پر اپنائے جس میں نام بھی ہو اور مال بھی۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے نوجوان کسی شعبے کو محض جذباتی ہوکر اپناتے ہیں مگر جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شعبہ ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو مجبور ہوکر کسی اور شعبے کی طرف جاتے ہیں۔ اس تبدیلی سے اچھا خاصا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور صلاحیتیں بھی۔ کسی شعبے میں ناکامی کے بعد جب نوجوان دوسرا شعبہ اپناتے ہیں تو اُن کا مورال بھی گر جاتا ہے۔ قوتِ ارادی میں واقع ہونے والی کمی اُن میں کام کرنے کی لگن کا گراف بھی گرا دیتی ہے۔ یوں نئی نسل کو درست سمت میں عملی زندگی کا سفر جاری رکھنے کے حوالے سے اچھا خاصا دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نئی نسل کو سب سے زیادہ ضرورت رہنمائی کی ہوتی ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں اپنے آپ کو بہتر حالت میں نہیں پاتی۔ جہاندیدہ افراد کو آگے بڑھ کر ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ سوال محض تعلیم و تربیت یا کوچنگ کا نہیں، مینٹورنگ کا بھی ہے۔ مینٹورنگ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کسی بھی شعبے کا ماہر نئی نسل کو روایتی یا رسمی انداز سے ہٹ کر بھی راستہ دکھائے۔ قدیم ہندوستان میں گرو اور چیلے کا یہی معاملہ ہوا کرتا تھا۔ چیلا جسے گرو بناتا تھا اُس کے گھر میں رہتا تھا، گرو کی خدمت کرتا تھا اور ان سے متعلقہ شعبے میں تربیت پاتا تھا۔ یہ روایت اس لیے سود مند تھی کہ گرو کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کی صورت میں چیلا بہت کچھ سیکھتا تھا اور اس میں غضب کا اعتماد بھی پیدا ہو جاتا تھا۔
اسلامی دنیا میں بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں رہا ہے۔ علماء کی خدمت میں حاضر رہ کر، ان کی خدمت کے ذریعے علم حاصل کیا جاتا تھا۔ عرب دنیا میں بھی استاد کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھنے کی روایت رہی ہے۔ فی زمانہ یہ روایت موجود نہیں کیونکہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب اس بات کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے کہ کوئی کسی کو استاد تسلیم کرے اور پھر اس کے گھر میں رہ کر کچھ سیکھے۔ آخر آخر میں یہ روایت کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں میں رہ گئی تھی۔ اب وہاں بھی شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے۔ موجودہ پاکستانی معاشرے میں مینٹورنگ انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ ہر شعبے کے ماہرین کو اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بہت سے کامیاب لکھنے والوں نے نئے لکھنے والوں کو بہت کچھ سکھایا اور میدان میں لاکر دنیا کو ان کی صلاحیتوں سے روشناس بھی کرایا۔ اب یہ سلسلہ بھی نہیں رہا۔ ایک دور تھا کہ بعض جرائد تربیتی ادارے کا درجہ رکھتے تھے۔ نوآموز وہاں بہت کچھ سیکھتے تھے اور جب وہ عملی زندگی شروع کرتے تھے تب اپنی صلاحیتوں کو عمدگی سے بروئے کار لاتے تھے۔ آج سکھانے والے ادارے خال خال ہیں۔ قومی سطح پر ایسی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہر شعبے کے قابل ترین اور کامیاب ترین افراد کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ نئی نسل کی رہنمائی کریں۔ کالج کی سطح پر تعلیم حاصل کرچکنے کے بعد نئی نسل کو حقیقی رہنمائی درکار ہوتی ہے تاکہ عملی زندگی کی ابتدا درست طریقے سے ہو۔
کمرشل ازم پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہر معاملے کو صرف اور صرف مالی منفعت کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کا رجحان خطرناک حد تک پنپ چکا ہے۔ تعلیم و تربیت دنیوی ہو یا دینی، ہر جگہ صرف مالی مفادات کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے۔ جنہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہو اُن پر معاشرے کی مدد کے حوالے سے اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں آگے بڑھ کر نئی نسل کو بہتر راستہ دکھانا چاہیے تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ بنیں، کچھ کر پائیں۔
بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پہلے والدین کی ذہنی تیاری لازم ہے۔ پاکستان میں زیریں متوسط طبقے میں والدین بچوں کی عملی زندگی کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اور پس ماندہ طبقے میں تو خیر کیریئر کونسلنگ اور مینٹورنگ کا تصور پایا ہی نہیں جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نچلے طبقے کے لاکھوں نوجوان ایسے شعبوں میں اپنے آپ کو آزما رہے ہوتے ہیں جو ان کے مزاج اور رجحان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کام حکومت کا بھی ہے کہ وہ نئی نسل کو کیریئر کونسلنگ اور مینٹورنگ کی سہولت فراہم کرے۔ ہر شعبے کے ماہر ترین افراد کی خدمات حاصل کرکے اُنہیں پیشہ ورانہ ہی نہیں اخلاقی طور پر بھی ذمہ دار قرار دیا جائے کہ نئی نسل کو راہ دکھائیں۔ یہ کام قومی سطح اور جنگی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔ عملی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں بنیادی چیز ہے سرپرستی۔ نوجوانوں میں علم اور تجربے کے ساتھ ساتھ اعتماد کی بھی کمی ہوتی ہے۔ سرپرستی اور رہنمائی کا عنصر عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں نوجوانوں کے لیے انتہائی کارآمد بلکہ فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کئی خطوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب اہلِ علم و فن نے اپنی میراث کو آگے بڑھانے پر توجہ دی تب معاشروں کا معیار بلند ہوسکا۔ آج کے پاکستانی معاشرے کو کیریئر کونسلنگ اور مینٹورنگ کے معاملے میں غیر معمولی جوش و خروش درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں