"MIK" (space) message & send to 7575

موقع دیا ہی کیوں جائے؟

ہماری سوچ اور خواہشات خواہ کچھ ہوں‘ قدرت ہر معاملے میں اپنے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ تو ہم پہ منحصر ہے کہ قدرت کی پیدا کردہ کسی بھی صورتِ حال سے ہم اپنے لیے کیا کشید کرتے ہیں۔ جو عقلِ سلیم کے حامل ہیں وہ کسی بھی خرابی کو اپنے لیے خوبی میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ ہنر قدرت کی طرف سے ودیعت ہو‘ تب بھی اسے نکھارنا پڑتا ہے،۔اس کے بعد مہارت کا گراف بھی بلند کرنا پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قانونِ قدرت ہے کہ ہر بُرائی کے بطن میں کوئی نہ کوئی اچھائی ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان اس بات میں ہے کہ مشکل صورتِ حال میں بھی اپنے لیے کوئی خوش گوار اور حوصلہ افزا امکانات تلاش کرے۔ ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر بحران پیدا ہوتے رہے اور پائے جاتے ہیں۔ معاملات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی سے نمٹنے میں بہت سوں کا تیا پانچا ہو جاتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر پیچیدگی کے بطن سے اپنے لیے کوئی نہ کوئی کام کی بات برآمد کرلیتے ہیں۔ یہ از خود نہیں ہوتا‘ اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور محنت بھی وہ جو ذہانت اور معاملہ فہمی سے مزین ہو۔
اب یہی دیکھیے کہ کورونا کی وبا کے ہاتھوں معاشرے پر شدید بحرانی کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اس بحران نے کروڑوں پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔ زندگی کا رُخ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ معمولات درہم برہم ہوگئے ہیں۔ کل تک جو کچھ عام تھا وہ اب ناپید ہوتا جارہا ہے اور ایک نئی طرزِ زندگی ہمارے وجود سے منسلک ہوتی جارہی ہے۔ کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے بہت سوں کے لیے بہت سی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ ہمارا معاشرہ کوئی انوکھا نہیں کہ منفی اثرات سے محفوظ رہ پاتا۔ دنیا بھر میں معاشرے لاک ڈاؤن کی زد میں آئے اور الجھنوں کا شکار ہوئے۔ لوگوں کو اپنے معمولات بدلنا پڑے ہیں۔ بہت سوں نے طرزِ معاشرت ہی نہیں بدلی بلکہ معاش کے ذرائع بدلنے پر بھی توجہ دی ہے۔ ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ حالات جس انداز سے بدل رہے تھے اُس کے پیشِ نظر لازم تھا کہ کچھ ہٹ کر سوچا جائے، کچھ الگ سے کیا جائے۔ جنہیں ڈھنگ سے جینے میں مزا آتا ہے انہوں نے کورونا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے بدظن اور بددل ہونے کے بجائے سوچنے کا انداز بدل کر ایک نئی طرزِ زندگی اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک نمایاں چلن یہ بھی ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت سے کچھ خاص سیکھنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جنہیں بحران سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور جنہیں بحران کا جواب دینے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہوتی وہ خرابی کو محض پیدا ہی نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں مگر گم سُم تماشائی کا کردار ترک نہیں کرتے۔ جو لوگ کسی بحرانی کیفیت سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں وہ بھی اپنے وجود اور کاوشوں کو محض مالی مفادات تک محدود رکھتے ہیں۔ کچھ سیکھ کر زندگی میں مثبت تبدیلیاں یقینی بنانے سے انہیں کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔
معاشروں میں تبدیلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں؛ فطری یا از خود اور منصوبہ سازی پر مبنی یعنی شعوری۔ پاکستانی معاشرے میں مختلف حوالوں سے غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ اصلاحِ احوال کی صورت نکلے اور زندگی آسان ہو۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ عشروں سے خرابیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور اِن خرابیوں کے ہاتھوں اذیت بھی جھیل رہے ہیں مگر پھر بھی اصلاحِ احوال پر مائل نہیں ہو رہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو دیگر معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرے کے لیے بھی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ معاشی سرگرمیاں معطل ہوئیں تو لوگوں کی مشکلات دوچند ہوگئیں۔ یہ سب کچھ افسوس ناک تھا مگر اِس سے کہیں زیادہ افسوس ناک تھا لوگوں کا رویہ جو انہوں نے لاک ڈاؤن جیسی پریشانی کا سامنا کرنے کے باوجود تبدیل نہیں کیا۔ پرانی عادتیں مشکل سے جان چھوڑتی ہیں۔ معمولات کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ جو کچھ فکری ساخت میں برسوں بلکہ عشروں سے بسا ہوا ہو وہ ایسی آسانی سے جاتا بھی نہیں اور تبدیل بھی نہیں کیا جاسکا مگر خیر! اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہمت ہار کر حالات کو جوں کا توں قبول کرلیا جائے۔ اس وقت ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے اُن کا بھی تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے پر توجہ دی جائے، وہ نئی طرزِ زندگی اختیار کرنے کی بھرپور شعوری کوشش کی جائے جو کم و بیش لازمی ضرورت بن چکی ہے۔
کراچی سمیت پورے ملک میں لاک ڈاؤن اور ایس او پیز نے لازم سا کردیا ہے کہ لوگ اپنے شب و روز نئے انداز سے بسر کریں۔ ایک نئی طرزِ زندگی اب ہمارے لیے بنیادی لازمے کا درجہ رکھتی ہے۔ حکومتی مشینری نے کوشش کی ہے کہ لوگ ہر طرح کی خریداری دن کے وقت کریں۔ شام کے ساتھ یا رات کے آٹھ بجے تک دکانیں اور شاپنگ سنٹرز بند کرنے کے حکم پر سختی سے عمل کرایا جارہا ہے۔ لوگوں کا شکوہ ہے کہ پولیس اور انتظامی مشینری کے دیگر پُرزوں کو کھل کر ''نذرانہ‘‘ وصول کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ پولیس نے بعض علاقوں میں دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دے کر مبینہ طور پر مال بٹورا ہے۔ پورا علاقہ بند ہو اور چند ایک دکانیں کھلی ہوں تو اس کا کیا مطلب لیا جائے گا؟
سوال یہ ہے کہ پولیس یا انتظامی مشینری کے کسی اور پُرزے کو مال بٹورنے کا موقع دیا ہی کیوں جائے؟ رات گئے تک دکانیں غیر ضروری طور پر کھلی رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ خریداری کے لیے پورا دن ہے تو سہی۔ اگر کوئی دکان دار لاک ڈاؤن کی ٹائمنگ کے بعد بھی دکان کھلی رکھے گا تو ظاہر ہے کہ انتظامیہ کی مٹھی گرم کرے گا۔ یہ رقم وہ کہاں سے‘ کس سے وصول کرے گا؟ سیدھی سی بات ہے، ساری وصولی گاہک سے کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص رات کے دس گیارہ بجے محض ماچس خریدنے گھر سے نکلے تو اُسے یہ بھگتان کرنا ہی پڑے گا۔ عام حالات میں بھی رات کے دو تین بجے تک کھلی رکھی جانے والی دکانوں کے مالک گاہکوں سے پندرہ بیس فیصد زائد وصولی کرتے ہیں۔
کراچی کے طول و عرض میں لوگ اب بھی رات کے وقت غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنے کی عادت ترک نہیں کر پائے ہیں۔ پولیس سڑکوں پر موجود ہے مگر پھر بھی لوگ بلا ضرورت گھروں سے باہر ہی نہیں آتے بلکہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر بتیاتے بھی ہیں۔ ایسے مناظر بھی دیکھے گئے ہیں کہ رات کے تین بجے پورا علاقہ بند اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، ایک آدھ ہوٹل کھلا ہوا ہے، وہاں نوجوان بیٹھے ہیں اور ایسے ماحول میں کوئی کار آکر رکتی ہے، کار میں فیملی ہے اور یہ فیملی کار ہی میں بیٹھے بیٹھے آملیٹ، پراٹھے اور چائے کے مزے لُوٹ رہی ہے! کون پوچھے کہ ایسی کون سی آفت ٹوٹ پڑی ہے کہ رات کے سناٹے میں فیملی کے ساتھ یوں ہوٹل گیری کی جائے اور وہ بھی ایسے ماحول میں کہ جب ڈکیتی یا اغوا برائے تاوان کے خدشات موجود ہوں؟ کسی کو دوا کی ضرورت ہو اور رات کو گھر سے نکلے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر کلینک یا ہسپتال کا رخ کرنا بھی ناقابلِ فہم نہیں مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ماچس، چائے کی پتی، شکر اور ایسی ہی دوسری معمولی سی اشیا کی خریداری کے لیے رات کے گیارہ‘ بارہ بجے گھر سے نکلتے ہیں۔ زندگی میں اتنا نظم و ضبط تو پیدا کیا ہی جانا چاہیے کہ گھر میں جن اشیا کی روزانہ ضرورت پڑتی ہے وہ اِتنی مقدار یا تعداد میں خرید کر رکھی جائیں کہ بے وقت گھر سے نکلنا نہ پڑے۔ کوئی کراچی جیسے بڑے شہر میں رہتا ہو یا کسی چھوٹے شہر میں، زندگی بسر کرنے کے چند ایک بنیادی اصولوں پر عمل تو بہرحال لازم ہے۔ دیہی زندگی کے چند ایک اصول اپنانے میں کچھ ہرج نہیں۔ دیہات میں لوگ جلد سوتے اور جلد اٹھتے ہیں۔ بیشتر کام دن کی روشنی میں کیے جاتے ہیں تاکہ رات کو گھر میں آرام کیا جائے، نیند پوری کی جائے۔ اگر معمولات تھوڑے سے بدل لیے جائیں تو رات گئے معمولی اشیا کی خریداری پر مجبور نہ ہونا پڑے، تاجروں کو دکانیں رات گئے تک کھلی نہ رکھنی پڑیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں