"MIK" (space) message & send to 7575

انڈے اور ٹوکری

ڈھنگ سے جینے کے لیے سب کو اوسط سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کا یہ اصول ہر اُس انسان پر نافذ اور منطبق ہوتا ہے جو دوسروں سے ہٹ کر، معنی خیز انداز سے زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہو۔ محض خواہش کرلینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی لگن کس درجے میں ہے۔ زندگی اپنے آپ میں نرم دل ہے نہ جابر و قاہر۔ ہم جو طرزِ فکر و عمل اپناتے ہیں زندگی اُسی کے مطابق ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ قدرت نے جو کچھ ہمارے لیے طے کیا ہے اُس میں ایک طرف تو غیر جانب دارانہ سختی ہے اور دوسری طرف بہتری اور بھلائی کا سامان بھی ہے۔ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے اُس کی فہرست خاصی طویل ہوسکتی ہے۔ ہر انسان اپنے حالات کی نزاکت اور نوعیت کے مطابق جیتا ہے۔ معاملات تبدیل ہونے سے پالیسی اور حکمتِ عملی بھی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ پوری زندگی کے لیے کوئی ایک روڈ میپ تیار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ مستقل بنیاد پر تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ بامقصد اور بارآور زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا پڑتا ہے، چند ایک نئی لیاقتیں پیدا کرنا پڑتی ہیں، معاملہ فہمی کا ہنر پروان چڑھانا پڑتا ہے، صورتِ حال کے مطابق موزوں ترین حکمتِ عملی ترتیب دینے کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ کوئی ایک حکمتِ عملی زندگی کے تمام معاملات پر منطبق نہیں کی جاسکتی۔
بات گھوم پھر کر حالات کی نوعیت اور نزاکت تک آتی ہے۔ ہر صورتِ حال کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ کامیاب وہی ہو پاتے ہیں جو صورتِ حال کی نزاکت کا فہم رکھتے ہیں اور اُس کے مطابق اپنی حکمتِ عملی بہتر بناتے رہتے ہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ انسان اپنے تمام معاملات اور مفادات کو اِس طور نہ برتے کہ حالات کی تبدیلی سے تمام ہی معاملات اور مفادات داؤ پر لگ جائیں۔ انگریزی کے ایک محاورے کی روشنی میں کہیے تو بات یوں ہے کہ تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ ایسی صورت میں ٹوکری گئی تو سارے انڈے گئے۔ معاملہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے مفادات اس طور تقسیم کرنے چاہئیں کہ حالات موافق نہ رہیں تب بھی زیادہ خرابی پیدا نہ ہو اور سب کچھ ہاتھ سے جاتا نہ رہے۔ انڈے اور ٹوکری والا اصول زندگی کے ہر معاملے پر منطبق ہوتا ہے۔ بات رشتوں کی ہو یا دوستی کی، رسمی تعلقات کی ہو یا کاروباری روابط کی، ہر معاملے میں لازم ہے کہ انسان تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ رکھے۔ دوستی کے معاملے میں جذباتی ہوکر کسی پر بہت زیادہ بھروسا کرنا بالآخر خرابی لاتا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی تو ہوتا ہے۔ بعض رشتوں کے حوالے سے انسان کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو اٹھتا ہے اور پھر اس جذباتیت کا نتیجہ بھی بھگتتا ہے۔ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ رکھنے کی تاکید سب سے زیادہ کاروباری معاملات میں کام آتی ہے۔ ذہین تاجر اور سرمایہ کار کبھی تمام مفادات کو یکجا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ذہین سرمایہ کار وہ ہے جو اپنے سرمائے کو مختلف شعبوں میں یوں تقسیم کرے کہ کسی ایک شعبے میں پیدا ہونے والی خرابی اُس کے تمام کاروباری معاملات پر اثر انداز نہ ہو۔ کاروباری خاندانوں کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں مصروف و متحرک رہتے ہیں تاکہ کاروباری دنیا میں آنے والے اتار چڑھاؤ کا پامردی سے سامنا کرسکیں۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کس چیز کا استحکام کب تک ہے۔ صورتِ حال پل میں بدل جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے یا ہمارے تصرف میں نہیں رہتا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ تمام معاملات کو ایک پلیٹ فارم پر لانے سے گریز کیا جائے۔ کاروباری معاملات میں کب کیسا پلٹا آجائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض شعبوں میں جدت کا بازار اس طور گرم ہے کہ راتوں رات بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اپنے تمام مفادات کو کسی ایک شعبے کی نذر کردے تو سمجھ لیجیے مستقل پریشانی کا سامان ہوا۔
انفرادی سطح کے تعلقات کی بات کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ایک شخص یا گروہ کی طرف جھکنے میں نقصان کا احتمال ہے۔ غیر معاشی یا معاشرتی نوعیت کے تعلقات میں بھی توازن بنیادی شرط ہے۔ اگر کوئی سوچے سمجھے بغیر کسی طرف جھک جائے تو معاملات کی خرابی بالآخر واقع اور عیاں ہوکر رہتی ہے۔ عمومی مشاہدے کی بات یہ ہے کہ معاشرتی الجھنیں انسان کو معاشی محاذ پر زیادہ پریشان کرتی ہیں۔ عمومی معاشرتی تعلقات اگر پیچیدہ ہوں تو انسان معاشی معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتا۔ عام تصور یہ ہے کہ معاشی الجھنیں انسان کے تمام معاملات بگاڑ دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی جب معاشرتی تعلقات میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو انسان نہ صرف یہ کہ دوسروں سے بہتر تعلقات استوار رکھنے بلکہ ڈھنگ سے کمانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مختلف حلقوں سے بہتر اور متوازن تعلقات کا حامل ہوں تاکہ ضرورت محسوس ہونے پر اُسے بروقت فیڈ بیک مل سکے۔
گھریلو زندگی بھی انسان سے یہی چاہتی ہے کہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ رکھے جائیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد میں کسی ایک کے پلڑے میں اپنی محبت نہ ڈال دیں کہ باقی سب بچے حسد محسوس کریں اور ذہن و مزاج کی سطح پر الجھ کر رہ جائیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جو والدین کسی ایک بچے کو بہت زیادہ چاہتے ہیں وہ باقی اولاد کی نظر میں زیادہ محترم نہیں رہتے۔ اُن سے اولاد ہمیشہ شاکی رہتی ہے۔ اِسی طور اگر بہن بھائی آپس میں توازن قائم نہ رکھیں اور ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہے یا جانبداری برتی جاتی رہے تو رشتے بالآخر کشیدگی کی نذر ہو رہتے ہیں۔ متوازن زندگی اُسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے بیشتر اہم معاملات میں غیر معمولی توازن یقینی بنانے کی شعوری کوشش کرے۔ شعوری سطح پر زندہ رہنا انتہائی دشوار مرحلہ ہے اور اس مرحلے سے مستقل طور پر گزرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا حُسن اِس حقیقت میں مضمر ہے کہ انسان اپنے وجود کو بامعنی اور بامقصد ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ معاملات میں توازن یقینی بنایا جائے۔ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب سوچ اور رجحانات میں بھی توازن پایا جائے۔ مکمل شعور کے ساتھ زندہ رہنے کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں غیر ضروری عدم توازن کو ترجیحاً نہ اپنائے۔
معاشرت کا جائزہ لیجیے یا معیشت کا، دوستی کا تجزیہ کیجیے یا رشتوں کا، رسمی تعلقات پر نظر دوڑائیے یا روزمردہ میل جول پر ... آپ دیکھیں گے کہ کامیاب وہی رہتے ہیں جو اپنے پورے وجود کو کسی ایک طرف نہیں جھکاتے۔ اپنا سارا وزن کسی ایک معاملے میں ڈالنے والے شدید عدم توازن کی نذر ہو جاتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں معنویت، مقصدیت اور دل کشی باقی نہیں رہتی۔ آج کی دنیا میں زندگی ایک باضابطہ فن کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ اگر کوئی ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے تو اُسے یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ زندگی کا فن سیکھنے پر متوجہ ہونے والوں کو یہ نکتہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فی زمانہ ''بیک اَپ‘‘ کی بہت اہمیت ہے یعنی کسی بھی خرابی کی صورت میں اُسے جھیلنے کی گنجائش ضرور ہونی چاہیے۔ یہ گنجائش بالعموم اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کسی بھی معاملے میں غیر ضروری طور پر انتہائی جھکاؤ کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
مستحکم اور متوازن زندگی یقینی بنانے کے لیے قدم قدم پر شعور و دانش کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ سودا زندگی بھر کا ہے۔ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا مگر ہاں! ایسا انتظام ضرور کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی بڑی بحرانی کیفیت میں کفِ افسوس ملنے سے بچنا ممکن ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے مفادات کو بہت احتیاط اور سنجیدگی کے ساتھ اس طور تقسیم کیا جائے کہ کسی ایک طرف غیر جھکاؤ کی گنجائش نہ رہے یعنی معاملہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھے جانے تک نہ پہنچے۔ یہ احتیاط اس لیے بھی لازم ہے کہ کوئی بھی بحرانی کیفیت کبھی اعلان کرکے وارد نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں