ہم جس خطے میں سکونت پذیر ہیں وہ مختلف حوالوں سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا محل وقوع بیک وقت نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ نعمت اللہ کی طرف سے ہے اور زحمت اِسے ہم نے اپنی ''محنت‘‘ سے بنایا ہے۔ ہمارا ملک جہاں واقع ہے وہ مقام کئی خطوں کا سنگم ہے۔ یہی سبب ہے کہ اِس پر سب کی نظر رہتی ہے۔ کسی کے لیے یہ مملکتِ خداداد ایسے پکے ہوئے پھل کی طرح ہے جو قدرت اور حالات کی مہربانی سے جھولی میں آ گرے اور کسی کے لیے یہ کچے پھل کی طرح ہے جو ڈھنگ سے چبایا جاتا ہے نہ ہضم ہی ہو پاتا ہے ۔ ہم خود بھی اس حقیقت کو کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتے کہ ہمیں بھی یہ ملک پکے ہوئے پھل کی طرح قدرت کی مہربانی سے ملا ہے۔ اس پھل کو اللہ کی نعمت گردانتے ہوئے شکر ادا کرنے کے بجائے ہم نے اس نعمت سے بے نیازی کا جو ارتکاب کیا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔
محل وقوع کی انفرادیت نے پاکستان کو بیک وقت آسانیوں سے ہم کنار اور مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ کسی کے لیے ہم گلے کی پھانس ہیں اور کسی کے لیے نعمت ِ غیر مرقبہ کی ایک شکل۔ یہ محل وقوع ہی ہے جس نے پاکستان کو بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔ امریکا ہو یا یورپ، روس ہو یا چین‘ سبھی کے لیے پاکستان ایک اہم راہ گزر یا گزر گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز کرکے ہم شدید نوعیت کے کفرانِ نعمت کے مرتب ہوئے ہیں۔ ایک طرف محل وقوع کی انفرادیت ہے اور دوسری طرف طبعی خصوصیات کا خزانہ۔ ملک میں بارہ طرح کی موسمی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ دریا، میدان، پہاڑی سلسلے، سخت سرد علاقے، سخت گرم علاقے، زرخیز زمین، معدنیات‘ کیا ہے جو اللہ نے ہمیں عطا نہیں کیا! کون سی نعمت ہے جس کے بارے میں ہم محض سوچنے کی منزل میں ہیں؟ اللہ نے سبھی کچھ تو عطا کیا ہے۔ باقی کام ہمارا ہے۔ اللہ کا خاص کرم یہ بھی ہے کہ پاکستانی مجموعی طور پر انتہائی باصلاحیت ہیں اور موزوں تربیت و رہنمائی میسر ہونے پر دنیا کو بتا بھی دیتے ہیں کہ صلاحیت و سکت، لیاقت و مہارت اور عزم و ولولے میں اُن جیسے خال خال ہی ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ ہم اب تک پس ماندہ ہیں، منقسم ہیں، منتشر ہیں، بے سمت ہیں، خود کو پوری طرح بروئے کار لانے سے قاصر ہیں۔ قدرت نے البتہ اپنی فیاضی کے مظاہرے میں کمی نہیں کی۔ ملک کی طبعی خصوصیات اپنی جگہ، معاملہ یہ ہے کہ اللہ نے ہم میں صلاحیت بھی کم نہیں رکھی۔ سکت بھی ہے۔ جوش و جذبہ بھی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کوئی بھی چیز اپنے درست مقام پر بروئے کار نہیں لائی جارہی۔ ہر خصوصیت وہاں استعمال کی جارہی ہے جہاں اُس کا کچھ کام نہیں۔ صرف انسانی وسائل کی ترقی کے شعبے ہی پر دھیان دیا جائے تو بیڑا پار ہو جائے۔ اور ہم سے بس یہی نہیں ہو پارہا۔
بڑی طاقتیں اپنے کھیل کے لیے پاکستان کو میدان بنائے رکھتی ہیں۔ خطے کے حالات اس قابل چھوڑے ہی نہیں جاتے کہ ہم حقیقی استحکام، ترقی اور خوش حالی کی طرف بڑھ سکیں۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک کو ایک طرف تو اندرونی سلامتی کے مسئلے سے دوچار رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف اُنہیں آپس میں بھی لڑایا جاتا ہے۔ اگر کھل کر لڑائی نہ ہو تب بھی کشیدگی تو برقرار رہتی ہے، سرد جنگ کا سا ماحول بنا ہی رہتا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات پیدا نہیں ہوا اس لیے ختم بھی نہیں ہوسکتا مگر ہاں! معاملات کو بہتر بنانے کی طرف بڑھا تو جاسکتا ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان رابطے بھی مطلوبہ معیار کے نہیں۔ بدگمانی اور بے اعتمادی نے تمام معاملات کو خرابی سے دوچار کر رکھا ہے۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں غیر یقینیت رہے، خطے کے ممالک ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہیں، مخاصمت کی فضا برقرار رہے۔ یہ سرد جنگ کبھی کبھی ایسی بڑھے کہ گرم جنگ تک پہنچنے کے آثار دکھائی دیں۔ نصف صدی سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان ہو یا بھارت، سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش‘ سب کا حال ایک جیسا ہے۔ بڑی طاقتیں کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی بہانے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنے اشاروں پر چلا رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ چلنے والے بھی خوش ہیں اور اپنے اس فن میں مہارت کی داد چاہتے ہیں! ڈھائی تین عشروں کے دوران جنوبی ایشیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب عام آدمی بھی بہت سے معاملات کو سمجھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے اپنے ارادوں کو ڈھانپے رکھنے کی کوشش ترک کردی ہے۔ سب کچھ کھل کر ہو رہا ہے، ڈٹ کر کیا جارہا ہے۔
ایک تو ہوتا ہے کھیل کا میدان جس میں ٹیمیں مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں۔ میدان کے باہر ہر طرف ہوتے ہیں تماشائی۔ فٹبال کا میچ ہو رہا ہو تو تماشائیوں کا جوش و خروش قابلِ دید ہوتا ہے۔ میدان میں فتح کے لیے سر توڑ کوشش کرنے والے کھلاڑیوں کو بھی کھیلنے میں خوب مزا آرہا ہوتا ہے۔ ہم کہاں ہیں؟ ہم کھلاڑی بن سکے نہ تماشائی رہ پائے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل میں ہم نے فٹبال بنے رہنے کو مقدر سمجھ کر قبول کرلیا ہے! ایک ہوتا ہے طوفان کا نظارہ۔ طوفان کو آتا دیکھ کر ہم چوکنّے ہو جاتے ہیں، بچاؤ کی فکر کرتے ہیں اور جو کچھ بھی بن پڑتا ہے، کر گزرتے ہیں۔ یہاں معاملہ طوفان کی آنکھ میں رہنے کا ہے۔ عشروں سے ہماری روش یہ ہے کہ کسی بھی بحران کو دیکھ کر بچنے کی کوشش کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر اُس بحران کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔ آ بیل، مجھے مار والی کیفیت ایک زمانے سے ہم پر یوں طاری ہے کہ گلو خلاصی ممکن نہیں ہو پارہی۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ طوفان کی آنکھ میں سمائے رہنے ہی میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ دوسروں کی جنگ لڑنے میں بھی راحت سی محسوس ہونے لگی ہے۔ حقیقت چاہے کچھ ہو، زمینی حقائق چاہے کوئی بھی کہانی سُنارہے ہوں، بڑھکیں مارنے کا سلسلہ ہے کہ دم توڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ انسان اگر کسی خرابی سے مستقل بنیاد پر دوچار رہے تو اُس کا عادی سا ہو جاتا ہے اور پھر اُس سے الگ ہونے کا تصور نہیں کر پاتا۔ جس چیز کی عادت پڑ جائے وہ اگر بُری ہو اور نقصان پہنچا رہی ہو تب بھی اُس سے ترکِ تعلق کا سوچتے ہوئے الجھن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہمیں بحرانوں کے ساتھ جینے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ طوفان کے ساتھ رہتے رہتے ہم طوفان کی آنکھ میں رہنے کے بھی عادی ہوچکے ہیں۔
قومی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے، اپنے مفادات کے تحت کرنا ہے۔ کسی اور کو بھلا کیا پڑی ہے کہ ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں سوچے؟ ایک زمانے سے ہم اپنے مفادات کو یکسر فراموش کرتے ہوئے جینے کی روش پر گامزن ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن پر عمل کے نتیجے میں ہمارے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو۔ ایک دنیا ہے کہ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہے اور اِدھر ہم ہیں کہ اپنا بھلا سوچنے سے یوں گریزاں رہتے ہیں گویا ایسا کرنے ہی سے زندگی کا حق ادا ہوسکتا ہو۔
بڑی طاقتوں کی رسہ کشی میں حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بعض اوقات حالات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والی کیفیت کے تحت جینا پڑتا ہے۔ جب کبھی ایسی مجبوری لاحق ہو تب کوشش ہونی چاہیے کہ اُس کا دورانیہ غیر ضروری طور پر طول نہ پکڑے۔ ہمیں کسی بھی دوسرے معاملے سے بڑھ کر پاکستان کو اولیت دینے کا رجحان پروان چڑھانا ہے تاکہ اقوام کی برادری میں ہماری توقیر کا سامان ہو۔ دنیا اُنہی کی قدر کرتی ہے جو آپ اپنی قدر کرتے ہیں۔ بحرانوں کو گلے لگائے رکھنے کے بجائے ہمیں اُن سے نجات پانے پر متوجہ ہونا ہے۔ اندرونی، علاقائی اور عالمی حالات کا اولین تقاضا تو یہی ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔