"MIK" (space) message & send to 7575

ہم کہاں سے آئے ہیں؟

قوم پر قیامت کی سی کیفیت طاری ہوئے ڈیڑھ سال ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس کے اوائل میں کورونا وائرس کی وبا نے سر اٹھایا تھا تو پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے بہت کچھ جھیلنا لازم ہوگیا تھا۔ جن کے پلّے کچھ تھا اُن کے لیے مصیبت کچھ خاص مصیبت نہ رہی۔ جن کی جیب خالی تھی وہ رُل گئے۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ جن کے خزانے خالی تھے اُن اقوام کا بُرا حشر ہونا ہی تھا۔ پاکستان کے پاس تھا کیا کہ اتنے بڑے بحران کا سامنا کرتا۔ ایسے میں جو کچھ ہونا تھا وہی ہوا یعنی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا اور کھٹیا کھڑی ہوگئی۔ حکومت اب تک پریشان ہے کہ اس بحران کے شدید منفی اثرات سے مکمل طور پر آزاد ہو تو کیسے ہو اور اصلاحِ احوال کی کوئی معقول سبیل نکلے تو کیونکر نکلے۔ عام آدمی بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جہاں دنیا بھر کی معیشتیں ڈانواں ڈول ہیں وہیں ہماری معیشت بھی کم و بیش ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو شدید عدم استحکام سے دوچار کیا ہے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر بہت سے ممالک میں معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک باقی دنیا سے بہت آگے اور بہت مضبوط ہیں مگر پھر بھی انہیں مستقبل کو زیادہ سے زیادہ تابناک اور محفوظ بنانے کی فکر لاحق ہے۔ ترقی پذیر ممالک بھی فکر مند ہیں اور چاہتی ہیں کہ مستقبل کے حوالے سے ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے جو حالات کے اثرات کو زیادہ قبول نہ کرے اور اہداف زیادہ متاثر نہ ہوں۔ اب رہ گئے تیسری دنیا کے ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ تو ان ممالک کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ انہیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔
کورونا کی وبا نے ایک دنیا کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے مگر تیسری دنیا کے ممالک میں اب بھی پرنالے وہیں گر رہے ہیں جہاں گرتے آئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب کئی جہتوں سے دیا جاسکتا ہے۔ ایک بڑی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں عوام کو مستقبل تو کیا‘ حال کے لیے بھی تیار نہیں کیا جاتا۔ یہ ایسی بھیانک غلطی ہے جس کا خمیازہ بار بار بھگتنا پڑتا ہے مگر ''ثابت قدمی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ بہت کچھ جھیل کر بھی ان معاشروں میں اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
باقی معاشروں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے مگر سب سے بڑھ کر تو ہمیں اپنے ماحول اور معاشرے کے بارے میں سوچنا ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اب تک ہم اپنے آپ کو یہ ماننے کیلئے قائل نہیں کرسکے کہ ہمارے بارے میں کوئی اخلاص اور حقیقت پسندی کے ساتھ سوچ سکتا ہے تو وہ ہم خود ہیں۔ دو چار ممالک ہمارے بہی خواہ ضرور ہوسکتے ہیں مگر ایک خاص حد تک۔ اُن کے اپنے مسائل، اپنی مجبوریاں ہیں۔ اگر وہ چاہیں بھی تو ہمارا ساتھ ایک خاص حد تک ہی دے سکتے ہیں۔ ہر ریاست کی چند مجبوریاں تو ہوتی ہی ہیں۔ بین الریاستی تعلقات مجبوری یا دباؤ کا بھی نتیجہ ہوتے ہیں۔ کئی ممالک ہمیں کچھ زیادہ پسند نہ کرنے کے باوجود ہم سے تعلقات استوار رکھنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کی بین الریاستی معاملات میں دوستی نام کی کوئی کچھ نہیں ہوتی۔ تمام معاملات اس بات سے جُڑے ہیں کہ کون کس کے لیے کتنے کام کا ہے۔ جو زیادہ کام کا ہے‘ وہی اچھا دوست اور اتحادی ہے۔ اگر کوئی ملک دور ہے مگر مفادات یکساں ہیں تو اُس سے دوستی ممکن ہے اور اشتراکِ عمل بھی۔ ایسا نہ ہو تو جو ہماری سرحد سے جُڑا ہوا ہو‘ وہ ملک بھی ہمارے لیے کام کا نہیں۔
کورونا کی وبا نے دنیا کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بہت سے معاملات کو درست کیا ہے اور ایک نئی زندگی کی طرف بڑھے ہیں۔ معیشت کو نئی طرزِ فکر و عمل سے روشناس کرانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ عمومی سطح پر حرکت پذیری کم ہو۔ جو کام گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں اُن کے لیے گھر سے نکلنے کو ترجیح نہیں دی جارہی۔ گھر میں رہتے ہوئے کام کرنے کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے یا یوں کہیے کہ پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ترقی پذیر دنیا بھی اس حوالے سے خود کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہر ملک اپنے مسائل اور وسائل کی روشنی ہی میں منصوبہ سازی کرتا ہے اور پھر حکمتِ عملی بھی اِسی مناسبت سے ترتیب دی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک بیشتر معاملات میں ترقی یافتہ دنیا کی طرح آسانی سے فیصلے نہیں کرسکتے۔ ایسا ممکن ہی نہیں! مسائل کی کثرت اور وسائل کی قلت اُنہیں مجبور کرتی ہے کہ ہر معاملے میں احتیاط کا دامن تھامے رہیں۔ پھر بھی ترقی پذیر دنیا نے خود کو بدلنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے۔
جامد اور اڑ جانے والی ذہنیت اب تک تیسری دنیا کے ممالک نے دکھائی ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں بھی کچھ نہیں سوچ رہیں اور عوام تو خیر کچھ سوچنے کے قابل ہیں ہی نہیں۔ اپنی ہی مثال لیجیے۔ ایک دنیا دیکھ رہی ہے کہ کورونا کی وبا نے معیشتوں کا حال بُرا کردیا ہے۔ ایسے میں سبھی کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہیں، اس دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اِدھر ہم ہیں کہ اس حوالے سے کچھ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ہمارا عمومی چلن ہے کہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسا ہو بھی کیسے؟ ہم ایسا کچھ کر ہی نہیں رہے کہ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوں۔ دنیا ہمیں دیکھ کر سوچتی تو ہوگی کہ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں، کس دنیا کے باسی ہیں! مصیبت پر مصیبت نازل ہو رہی ہے، مسائل کی پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم کچھ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کورونا کی وبا ہر ملک کے لیے ویک اپ کال ہے۔ اب جاگنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ دنیا ہے کہ تبدیل ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے تبدیل نہ ہونا کوئی آپشن نہیں بلکہ زوال کی روش ہے۔ اقوام کی زندگی میں بیشتر معاملات ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ دل چاہے یا نہ چاہے، بہت کچھ اپنانا پڑتا ہے، بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ دنیا کا دھندا اِسی طور چلتا آیا ہے۔ ہم انوکھے نہیں کہ ہمارے لیے دنیا کے اصول بدل دیے جائیں۔ حکومت کے پاس اب نئی سوچ اپنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔ مختلف معاملات میں نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ نئی سوچ ہی ہمیں موجودہ دور کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی طرف لے جاسکتی ہے۔ یہ کام ہمیں ہر حال میں کرنا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے جامع حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے۔ تمام شعبوں کی اوور ہالنگ لازم ہے۔ کرپشن اور نا اہلی کی راہ مسدود کرنے کی خاطر ہمیں آگے بڑھ کر عہدِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینی ہیں۔ ایسا ہوگا تو تھوڑی بہت بہتری کی گنجائش پیدا ہوگی۔ معاملات کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن رہنے کا آپشن اپنایا گیا تو دستِ سوال دراز کرنے ہی کا آپشن بچے گا۔
پاکستان کو کم و بیش ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہے جس سے نئی زندگی کی طرف جانے کی راہ ہموار ہو۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو بدل ڈالا ہے۔ کئی معیشتوں کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا نے خود کو بدلنے کی طرف سفر شروع کردیا ہے۔ پس ماندہ اقوام بظاہر ہمت ہار چکی ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اُسے قبول کیے جارہی ہیں۔ یہ روش کسی بھی طور اچھی اور پسندیدہ نہیں۔ قومی سطح پر ولولہ ماند نہیں پڑنا چاہیے، جوش و جذبے کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کا رواج کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کے پاس ایک یہی آپشن بچا ہے کہ اپنا جائزہ لے کر اصلاحِ احوال کے لیے سنجیدگی کے ساتھ راہِ عمل منتخب کریں اور اُس پر گامزن بھی ہوں۔ ایک قوم کی حیثیت سے باوقار طور پر جینے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر بھروسا کریں، قرضے اور امداد لینے سے گریز کریں، اپنی اصلاح پر مائل ہوں، اندرونی خرابیوں کو دور کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہمیں اپنی فکر لاحق ہے اور ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں