"MIK" (space) message & send to 7575

ہم بھی کیا لِکھواکر آئے ہیں

آج کے انسان کا مقدر عجیب ہے۔ جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا‘ ایسا بہت کچھ میسر ہے مگر پھر بھی زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسائل کا حل ہو جانا ہمارے لیے مسائل کیوں پیدا کر رہا ہے۔ کل تک انسان جن سہولتوں کے صرف خواب دیکھ سکتا تھا وہ آج زندگی کا حصہ ہیں۔ عمومی سطح پر بھی انسان کو بہت کچھ میسر ہے۔ اس کے باوجود مسائل ہیں کہ کم نہیں ہوتے، الجھنیں ہیں کہ جان نہیں چھوڑتیں۔ اگرچہ ہر دور کے انسان کو متعدد معاملات میں پیچیدگیوں کا سامنا رہا ہے۔ جنگ و جدل اور معاشروں کی اندرونی کشمکش کے ہاتھوں ہر دور میں بہت سوں کو شدید نا انصافی جھیلنا پڑی‘ قتل و غارت گری کا عذاب بھی بھگتنا پڑا۔ جب معاشروں میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے تو کوئی مزے کرتا ہے اور کسی کی کشتی ڈوب جاتی ہے۔ یہ قدرت کا طے کردہ ایک نظام ہے کہ جب بھی کہیں نا انصافی بڑھ جاتی ہے تب اللہ کے حکم سے ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کا مقصد اصلاح کرنا ہوتا ہے تاکہ انسان کچھ دیکھے اور سیکھے۔ کون کیا سیکھتا ہے یہ انفرادی معاملہ ہے۔ ہر انسان اپنے تمام معاملات میں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ اختیار ہی تو اُس کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔
ہم‘ آپ بہت سے معاملات میں انتہائی خوش نصیب ہیں اور چند ایک معاملات میں ہمارے لیے ایسی الجھنیں لکھی ہوئی ہیں کہ سوچیے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ یہ دنیا ہر دور میں ایسی تبدیلیوں سے گزرتی رہی ہے جن کے نتیجے میں صرف الجھنیں بڑھی ہیں۔ ہزاروں برس کے عمل نے آج کی دنیا کو انتہائی پیچیدہ بنا ڈالا ہے اور پیچیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
بیسویں صدی کے انسان نے ایسا بہت کچھ دیکھا جس کے بارے میں اُس نے صرف پڑھا تھا یا محض اندازے ہی لگائے تھے۔ دو عالمی جنگوں نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ کمزور اقوام کے پاس معاشی اور معاشرتی غلامی قبول کرنے کے سوا آپشن نہ بچا۔ ہزاروں سال کے باہمی تفاعل نے معاشروں کو انتہائی نوعیت کی پیچیدگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ہزاروں سال کے واقعات، افکار و نظریات اور اعمال مل کر اب ایک ایسی کیفیت کو جنم دے چکے ہیں جس سے مکمل طور پر کنارہ کش رہنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ آج ہر انسان پوری دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کسی نہ کسی شکل میں متاثر ضرور ہوتا ہے۔ کوئی بھی انسان، گروہ یا معاشرہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُسے باقی دنیا سے کچھ غرض نہیں۔ آج تمام معاشرے آپس میں جُڑے ہیں۔ کہیں کچھ ہوتا ہے تو اُس کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں سفر کرتے ہوئے دور افتادہ خطوں تک بھی پہنچتے ہیں اور بہت سے معاملات کو کچھ کا کچھ کردیتے ہیں۔ باہم مربوط رہنے کی حالت نے معاشروں کو بہت سے معاملات میں الجھادیا ہے۔ بہت سے معاملات میں مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں جو انصاف کو یقینی بنانے سے روکتی ہیں۔ بین الریاستی تعلقات بھی ساری دنیا سے جڑے رہنے کی کیفیت کے ہاتھوں بہت کچھ کھٹا میٹھا برداشت کرتے ہیں۔ سفارت کاری اب انتہائی پیچیدہ عمل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بین الریاستی تعلقات کی پیچیدگی نے سفارت کاری کے حوالے سے دباؤ کا گراف اِتنا بلند کردیا ہے کہ اب بعض آسان سے معاملات میں بھی پوری آزادی، دیانت اور غیر جانب داری سے درست فیصلہ کرنا آسان نہیں رہا۔ آج کا انسان عجیب الجھنوں کے چوراہے پر پھنس کر رہ گیا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے جیسے زندگی بالکل آسان ہے، سب کچھ بس میں اور ہاتھ میں ہے۔ پھر اچانک یہ احساس پوری قوت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ اپنے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ ع
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں
بہت کچھ آسان دکھائی دیتا ہے مگر پھر بھی مشکلات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ اختیار کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ اس عہد نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ نہ ہونے کا احساس بھی دیا ہے۔ یہ عجیب ہی مخمصہ ہے ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے
آج کا انسان بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہے اور سیکھ بھی رہا ہے۔ دنیا علوم و فنون سے بھری پڑی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم و فنون کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تحقیق کا بازار گرم ہے جس کے نتیجے میں شعبوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کو شعبے یا کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے شدید الجھن کا سامنا ہے۔ کرنے کو بہت کچھ ہے۔ انسان انتخاب کے مرحلے میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نام کمانا اب بچوں کا کھیل نہیں رہا۔ ہر شعبے میں باصلاحیت افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ بات ہو رہی ہے علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کی۔ حق یہ ہے کہ اب زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا بجائے خود ایک فن، ایک شعبہ ہے۔ لوگ اس فن کو سیکھنے سے عموماً گریزاں رہتے ہیں۔ نفسی امور کے ماہرین ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے فن سے متعلق بہت کچھ سوچ اور لکھ رہے ہیں۔ اب یہ معاملہ ہماری خصوصی اور بھرپور توجہ کا طالب ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس شعبے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ لوگ عہدِ حاضر کی پیدا کردہ ذہنی الجھنوں سے جان چھڑانے کے لیے ماہرین سے رابطہ کرتے ہیں۔ خصوصی تربیت یافتہ ماہرین لوگوں کو اُن کی خامیوں اور کوتاہیوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ذاتی معاملات و حالات کی روشنی میں بہتر زندگی بسر کرنا یقینی بنانے کے لیے کیا ضروری ہے اور کس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ زندگی بطریقِ احسن بسر کرنا کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کیا جائے۔ اس کا نتیجہ بھی ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت اب تک گوارا نہیں کی گئی کہ ذہنی الجھنیں عہدِ حاضر کا عمومی معاملہ ہیں اور اِن سے نجات پانے کے لیے ماہرانہ رائے لینا لازم ہے۔
آج کے انسان کو یہ بات کسی بھی لمحے نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بیسیوں ادوار کے نچوڑ کا درجہ رکھتا ہے۔ ہزاروں سال کے عمل میں جو ترقی ممکن بنائی گئی وہ آج ہمارے سامنے ہے، ہمارا نصیب ہے۔ ہزاروں سال کی ذہنی و عملی کاوشوں کا ثمر ہمیں نصیب ہوا ہے تو اس کا حق ادا کرنے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ آج کے عہد کا حق ادا کرنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ ہم اس عہد کو اس کی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قبول کریں، جذبۂ تشکر کو پروان چڑھائیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اب کچھ بھی بعید از توقع نہیں رہا۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے کسی بھی سطح کی ترقی ممکن ہے۔ بالکل اِسی طرح معاشرتی معاملات اور نفسی امور میں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور ہو رہا ہے۔ بہت سے معاملات میں بگاڑ واقع ہونے کی رفتار زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہوش و حواس برقرار رکھے جائیں اور حالات کی تفہیم پر خوب زور دیا جائے۔
جو معاملہ سمجھ میں نہ آئے اُسے نظر انداز کرنے کے بجائے سمجھنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے۔ گزرتے وقت کے ساتھ پیچیدگیوں کا بڑھتے جانا بھی بعید از قیاس ہے نہ حیرت انگیز۔ اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی طرزِ فکر و عمل میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لائی جاسکے۔ کوئی بھی زمانہ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا‘ ہاں! پیچیدگی کا گراف کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں وہ عہد ملا ہے جس نے حواس کی چولیں ہلادی ہیں۔ ہمیں حواس قابو میں رکھنے کے حوالے سے شدید نوعیت کی الجھنوں کا سامنا ہے۔ ان الجھنوں سے نمٹنے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ انہیں مسترد یا نظر انداز کرنے کے بجائے قبول کیا جائے تاکہ معاملات کو سلجھانے کی تدبیر سُوجھے۔ یہ سوچ کر کڑھنے کی ضرورت نہیں کہ ہم کیا لکھواکر لائے ہیں۔ تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے اُس پر شاکر رہنے سے بہتری پیدا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں