جو کچھ ہمیں کہنا تھا وہ ہم نے کہا تو ہے مگر بہت دیر سے یعنی بعد از خرابیٔ بسیار۔ ایک زمانے تک ہم انکار و اقرار کے درمیان جھولتے رہے۔ سپر پاور نے بیس سال قبل جب انتہائی غضب ناک حالت میں ہم سے ہاں یا ناں میں سے کسی ایک کو واضح طور پر چُننے کی بات کی تھی تب حالات سے مجبور ہوکر ہمیں ہاں کہنا پڑا تھا۔ اُس ایک ہاں نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تب ایک ٹیلی فون کال پر ہاں کہنے کا نتیجہ ہم نے دو عشروں تک یوں بھگتا ہے کہ لوگ ہمیں سبق آموز مثال کے طور پر جاننے لگے ۔ افغانستان میں دو عشرے گزارنے کے بعد امریکا اور اُس کے حاشیہ برداروں کو خیال آیا ہے کہ مزید خرابی پیدا کرنے اور بھگتنے سے بہتر یہ ہے کہ رختِ سفر باندھ لیا جائے اور خیرباد کہنے میں دیر نہ لگائی جائے۔ جس طور ہمارا مجبور ہوکر ہاں کہنا اب ایک سبق بن چکا ہے‘ اُسی طرح امریکا اور اس کے حاشیہ برداروں کے لیے بھی کہیں جا گھسنا اور پھر مار کھاکر وہاں سے بھاگ نکلنا ایک ''درخشاں‘‘ روایت کا درجہ رکھتا ہے۔ امریکا نے کئی ممالک اور خطوں کو تاراج کیا ہے اور پھر وہاں اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ کرنے کا ''فریضہ‘‘ بھول کر بھاگ نکلا۔ اس معاملے میں سب سے بُرا کیس ویتنام کا ہے۔ ویتنام میں امریکا نے اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے کی بہت کوشش کی مگر آخرِ کار خوار ہوکر بوریا بستر لپیٹا۔ سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ بلاک سے قربت رکھنے والے کسی ملک پر یوں چڑھائی کرنا انتہائی خطرناک تھا کیونکہ اِس کے ممکنہ ردِعمل میں تیسری عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی تھی۔
سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکا کو کسی ایسے دشمن کی ضرورت پڑی جو نہ صرف یہ کہ موجود ہو بلکہ مضبوط بھی ہو تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ وہ کمزور کو دبوچ رہا ہے۔ ''اہلِ دانش‘‘ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ امریکا کے لیے کوئی ایسا دشمن تلاش یا خلق کریں جس میں واقعی دم ہو اور دنیا تسلیم کرے کہ ہاں، وہ امریکا کی ٹکرکا ہے۔ تجزیہ کار، سیاسی مفکرین اور فلسفی کام پر لگ گئے اور مسلم دنیا کی شکل میں ایک بڑا دشمن خلق کیا گیا۔ اسلام کو مغربی تہذیب اور طرزِ زندگی کے لیے حقیقی خطرے کے روپ میں دیکھا اور دکھایا گیا۔ امریکا اور یورپ کے عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور راسخ کیا گیا کہ اگر اسلام (یعنی مسلم ممالک) کو روکا نہ گیا تو وہ دن دور نہیں جب پورے مغرب پر اسلامی سوچ چھا جائے گی اور تبدیلیٔ مذہب کا عمل تیز ہو جائے گا۔ طے کرلیا گیا کہ مغرب کے لیے، اشتراکیت کی شکست کے بعد، حقیقی خطرہ اگر ہے تو دینِ اسلام ہے۔ جب خطرے کا تعین ہوگیا تو پھر اُس سے نجات پانے کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ امریکا اور یورپ کو ہتھیاروں کی منڈیاں بھی تلاش کرنا تھیں۔ یہ منڈیاں اُسی وقت معرضِ وجود میں آسکتی تھیں جب طے کردہ دشمن کے خلاف کچھ کیا جاتا۔ اِسی صورت کئی خطے خطرات محسوس کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ہتھیار جمع کرنے کی طرف مائل ہوسکتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر چین بھی ممکن خطرہ تھا مگر اُسے چھیڑنے سے گریز کیا گیا کیونکہ ایسی صورت میں معیشت کے محاذ پر خطرناک مضمرات کا سامنا ہوسکتا تھا۔
سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوا وہ پُر کرنا لازم تھا کیونکہ سامنے کسی دشمن کے نہ ہونے کی صورت میں امریکا اور یورپ کے لیے طاقت کے اظہار کی گنجائش کہاں نکلنی تھی اور پھر ہتھیاروں کی منڈیاں کیونکر معرضِ وجود میں آتیں۔ لازم ہوگیا کہ اسلام کو حقیقی خطرے کا درجہ دے کر مسلم دنیا کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا جائے۔
تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپ کر دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ جدیدیت اور ترقی و خوش حالی کی راہ میں اگر کوئی قوت رکاوٹ بن کر کھڑی ہے تو وہ مذہب ہے۔ سوال مسلم ممالک یا مسلم معاشروں کا نہیں‘ دینِ اسلام کا تھا۔ علم و عمل اور کردار کی طاقت کے اعتبار سے آج کے مسلم بھلا کس گنتی میں ہیں۔ خطرہ اسلام کے حقیقی پیغام سے تھا۔ علم کے محاذ پر مسلمانوں کو نظر انداز کرکے ہدف دینِ اسلام کو بنایا گیا اور ایک دنیا کو اسلامی تعلیمات اور شرعی احکام سے متنفر و خوفزدہ کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز ہوا۔ ایک عشرے کے دوران ''اسلامو فوبیا‘‘ کی فضا پروان چڑھائی گئی۔ مغرب کا عام آدمی اسلام کے حوالے سے طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہوا۔ اُسے یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ اگر اُس نے اسلام کو دشمن کے طور پر نہ سمجھا تو وہ ساری ترقی اور جدیدیت مٹی میں مل جائے گی جو چار پانچ صدیوں کی عرق ریزی کے ذریعے ممکن بنائی جاسکی ہے۔ یوں اسلامو فوبیا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم دنیا کے چند ممالک کو منتخب کرکے اُن کے خلاف جارحیت کی راہ ہموار کی گئی۔ نائن الیون کو جواز بنایا گیا تاکہ دنیا کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے ذریعے ہی دنیا کو ''پسماندگی کے گڑھے میں دھکیلنے والوں‘‘ کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
پہلے افغانستان کو تباہ کیا گیا۔ پھر عراق، لیبیا، شام اور اُس کے بعد یمن کو تاراج کیا گیا۔ امریکا اور یورپ کے اس کام میں مسلم دنیا کے بعض عناصر نے حسبِ توفیق حصہ ڈالا۔ ''دشمن‘‘ کی صفوں میں سے کچھ لوگوں کو ساتھ ملائے بغیر بہت بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی بھلا کیونکر ممکن بنائی جاسکتی تھی؟ عراق، شام اور یمن اِس کی انتہائی واضح مثال ہیں۔ یہ تینوں ممالک اب باقی دنیا کے لیے عبرت کا نشان ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ سیکھ سکتے ہیں کہ اگر غیروں کی باتوں میں آکر اپنوں کے خلاف صف آرا ہونے کی غلطی کی جائے گی تو خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔پاکستان جیسے ممالک کے پاس آپشنز کم ہیں۔ ہماری اندرونی کمزوریاں اِتنی زیادہ ہیں کہ کسی کو مزید کمزوریاں پیدا کرنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر جو جنگ شروع کی گئی اُس میں ہم نے بھرپور حصہ ڈالا ۔ افغانستان تو محض بہانہ تھا۔ مغرب طاقتوں کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرکے چین، بھارت اور دیگر علاقائی ممالک کو آپس میں یوں الجھاکر رکھا جائے کہ وہ کشیدگی اور پس ماندگی کی دلدل سے نکل ہی نہ پائیں۔ یہ مقصد بہت حد تک حاصل کرلیا گیا۔ ایک بڑی بات البتہ اب کے یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں امریکا سے کہا ہے کہ (افغانستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے) فوجی اڈے نہیں دیے جائیں گے۔ یہ اعلان اگرچہ دیر سے کیا گیا مگر‘ جب جاگے تب سویرا۔ چین نجانے کب سے ہمارا منتظر ہے۔ اگر معاملات کو بالکل واضح سوچ کے ساتھ درست کرنے کی کوشش کی جائے تو کامیابی مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔
سپر پاور کو کسی معاملے میں ناں کہنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ ہر انکار کے چند مضمرات ہوتے ہیں۔ ہم کیا‘ پوری دنیا مضمرات کا سامنا کرتی رہی ہے۔ ایک صدی کے دوران ہم نے کئی خطوں کو مکمل طور پر تاراج ہوتے دیکھا ہے۔ صد شکر کہ ہمارے ہاں تباہی کبھی بھی اس سطح تک نہیں رہی۔ دو عالمگیر جنگوں میں یورپ اور جاپان کا جو حشر ہوا تھا وہ بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھا مگر خاطر خواہ سبق سیکھا نہیں گیا۔
پاکستان کل تک دو راہے پر کھڑا تھا‘ آج تراہے پر آچکا ہے۔ ایک طرف امریکا ہے، دوسری طرف چین و روس ہیں اور تیسری طرف بھارت بھی ہماری طرزِ فکر و عمل میں رونما ہونے والی فیصلہ کن تبدیلی کا منتظر ہے۔ ایسے میں امریکی قیادت کو صاف جواب دینے کا اعلان غیر معمولی مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ اب ہماری قیادت کو حتمی طور پر طے کرنا ہے کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے چین و روس بھی خوش ہوں اور بھارت جیسا بڑا دشمن بھی کچھ سیدھا سوچنے کی طرف مائل ہو۔ بہت پہلے جو کہنا تھا وہ کہہ تو دیا گیا مگر اب اسے نبھانے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔