افغانستان سے امریکی افواج کا انخلامکمل ہونے کو ہے۔ انخلا مکمل ہو جانے پر کیا ہوگا؟ یہ سوال اس وقت غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا نے اپنا بوریا بستر لپیٹ تو لیا ہے مگر خطے سے لاتعلق رہنے کے لیے تیار نہیں۔ افغان سرزمین سے دور ہٹنا بھی محض حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ جو کچھ کرنا ہے وہ تو کیا ہی جاتا رہے گا۔ اب تجزیہ کاروں کی زبان پر یہ سوال ہے کہ افغانستان سے انخلا امریکا کو مطلوب نتائج فراہم کرسکے گا یا نہیں یعنی وہ انخلا کے بعد اپنی نئی ترجیحات پر متوجہ رہنے کے قابل ہوسکے گا یا نہیں۔ امریکا نے ترجیحات واقعی تبدیل کرلی ہیں؟ کیا وہ ''وار تھیٹر‘‘ بدلنے والا ہے؟ کیا وہ چین کے خلاف کھل کر سامنے آنے کے لیے افغانستان اور دیگر جھمیلوں سے جان چھڑانے والا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب ملے جلے ہیں۔ اس وقت امریکا مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے جان چھڑانے کے فراق میں دکھائی دے رہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ بحرالکاہل کے خطے میں کچھ کرنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ چین کی طاقت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ بہت کچھ امریکا کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ یہ عمل زور بھی پکڑ رہا ہے۔ چین نے معاشی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے محاذ پر امریکا کو شدید پریشانی سے دوچار کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں امریکا کو یورپ سے اخلاقی و عملی حمایت و مدد درکار ہے مگر یورپ کے لیے یہ وقت انتہائی نوعیت کا مخمصہ لے کر آیا ہے۔ یورپ نے امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بہت کچھ کیا ہے مگر اب ایسا کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہی۔
امریکی قیادت چاہتی ہے کہ افغانستان میں اپنی مرضی کا کھیل بھی کھیلا جاتا رہے اور نام بھی زیادہ بدنام نہ ہو۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے خطے میں ساتھی تلاش کرلیے گئے ہیں۔ قطر کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے بھی امریکا کو عسکری کارروائیوں میں مدد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ افغانستان میں طالبان اور دیگر فریقوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی کارروائیاں یقینی اور ممکن بنانے کی خاطر امریکا نے وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی بات کی تھی مگر بات بنی نہیں۔ بات بنتی بھی کیسے؟ روس نے وسطی ایشیا کی تمام ریاستوں کو پہلے ہی انتباہ کردیا تھا کہ اگر انہوں نے افغانستان کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے امریکا کا ساتھ دیا تو اچھا نہ ہوگا۔ سوال افغانستان سے محبت کا نہیں‘ روسی قیادت چاہتی ہے کہ امریکا اس خطے کے کسی بھی ملک میں اپنے فوجی اڈے نہ رکھے کیونکہ ایسا کرنے سے پورا خطہ عدم توازن اور عدم استحکام کا شکار رہے گا۔
یہ سوال کسی بھی ذہن میں ابھر سکتا ہے کہ آخر تباہ حال اور پسماندہ علاقوں سے اَٹے ہوئے افغانستان میں ایسا کیا ہے کہ امریکا وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ سوال افغانستان کا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں معدنیات بہت بڑے پیمانے پر ہیں۔ درست مگر اِس سے کہیں بڑھ کر یہ حقیقت ہے کہ امریکا کو جنوبی ایشیا پر نظر رکھنے لیے خطے میں رہنے کا جواز درکار ہے۔ یہ جواز افغانستان کی صورتِ حال فراہم کر رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے نام پر امریکی قیادت نے جنوبی ایشیا میں پنجے گاڑنے کی گنجائش پیدا کی۔ دو عشروں سے پورا خطہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کے باعث خرابی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ جنوبی ایشیا پر نظر رکھنے کا صرف ایک مقصد ہے کہ چین کو یہ پیغام دیا جاتا رہے کہ وہ اس خطے میں زیادہ پیر پسارنے کی کوشش نہ کرے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ افغانسان سے نکلنے پر بھی امریکی فوجی بجٹ پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ القاعدہ اور داعش کو نشانہ بنانے کے نام پر امریکا اسی خطے میں اپنے فوجی تعینات رکھے گا۔ اس مد میں اچھی خاصی رقوم خرچ ہوں گی۔ فضائی حملوں کے لیے متعلقہ انتظامات غیر معمولی بجٹ کے طالب ہیں۔ اگر امریکی قیادت یہ جواز بیان کرے کہ اُسے اخراجات کم کرنے ہیں تو یاد رہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ جب بجٹ پر کچھ خاص اثر مرتب ہونے والا ہی نہیں تو پھر یقین کرلیا جائے کہ امریکا اس خطے میں عدم استحکام برقرار رکھنے کے درپے ہے اور اس کے لیے کوئی بھی حکمتِ عملی اپناسکتا ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ نائن الیون کے موقع پر افغانستان کو ہدف بنانے کے معاملے میں امریکا کو یورپ سے متعدد اتحادی مل گئے تھے۔ ان اتحادیوں نے افغانستان میں امریکا کے ساتھ بہت کچھ بھگتا۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک میں رائے عامہ قیادت کے خلاف ہوئی۔ امریکا نے جنگ کا بازار گرم رکھنے کے لیے اتحادیوں کو بھی خوب استعمال کیا۔ پہلے افغانستان اور پھر عراق میں امریکا نے جنگ سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا۔ ان خرابیوں نے امریکا کے اتحادیوں کو اندرونی تضادات اور اختلافات سے دوچار کیا۔ اب اُن میں سے کوئی بھی امریکا کے ساتھ آنے کو تیار نہیں۔ افغانستان میں جو کچھ بھی کرنا ہے اب امریکا کو تنِ تنہا ہی کرنا ہے۔
کسی زمانے میں بالی وُڈ کی فلم ''پتیتا‘‘ کے لیے لتا منگیشکر کا گایا ہوا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے ؎
مٹی سے کھیلتے ہو بار بار کس لیے
ٹوٹے ہوئے کھلونوں سے پیار کس لیے
امریکا سے بھی یہی سوال کیا جارہا ہے کہ آخر وہ گھوم پھر کر افغانستان کی طرف کیوں آجاتا ہے۔ افغانستان میں تو کچھ بھی نہیں دھرا۔ ایسے میں لازمی طور پر یہی سوچا جائے گا کہ بات کچھ اور ہے۔ اور حقیقتاً بات کچھ اور ہی ہے۔ چین کو کنٹرول کرنے کے نام پر پاکستان، بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت پورے خطے کا امن و چین داؤ پر لگایا جاتا رہا ہے۔ روس بھی تنگ آکر اب میدان میں آگیا ہے۔ اگر اب بھی خاموش رہنے کا آپشن اختیار کیا گیا تو معاملہ بہت بگڑ سکتا ہے۔ امریکا کی حالت اِس وقت اُس ہتھ چھٹ کی سی ہے جس کی طاقت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہو اور وہ سمجھ ہی نہ پارہا ہو کہ کس مشکل سے نمٹنے کے لیے کیا کرے۔ طاقت گھٹنے پر ہر کوئی یہی سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے کہ طاقت کے نشے میں چُور ہوکر اُس نے جنہیں تنگ کیا تھا کہیں وہ طاقت پاکر، متحد ہوکر سبق سکھانے پر نہ تُل جائیں۔ چین اور روس مل کر کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں تو امریکا نے بھارت اور دیگر حاشیہ برداروں کی ڈور ہلانے کا عمل شروع کردیا ہے۔
چین کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے امریکا مستقبل قریب میں کیا کرسکے گا اور کیا نہیں‘ یہ بحث تو بعد کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سرِدست بھارتی قیادت بھی بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے معاملے میں ضرورت سے کہیں زیادہ فعال دکھائی دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بے عقلی خطے میں کسی نئے اور بہت بڑے بحران کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ امریکا کو اس بات سے کیا غرض کہ اس کی کسی حکمتِ عملی سے جنوبی ایشیا یا کسی اور خطے میں کس کا کیا انجام ہو، کسے کیا بھگتنا پڑے۔ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ معاملات خرابی کا شکار رہیں۔ نئی دہلی کے بزرجمہر اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ امریکا کی خوشنودی کی خاطر کچھ کرنے کے نتیجے میں کہیں پورے خطے کا امن ہی داؤ پر نہ لگ جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کو فوجی اڈے دینے سے دو ٹوک الفاظ میں انکار کیا ہے تو اب دوسرے طریقوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ ایک طرف تو بھارت کو میدان میں لایا گیا ہے اور دوسری طرف خلیجی ممالک کی مدد سے فضائی کارروائیوں کی بات کی جارہی ہے۔ اور ہاں! پاکستان میں حکومت بدلنے سے متعلق کچھ کرنے کی باتیں بھی گردش میں ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کمزور رہی ہے اور اس حقیقت کا امریکی قیادت خوب فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہماری قیادت غیر معمولی تحمل اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے بحرانی کیفیت کو خطرناک ہونے سے روکے۔ جنوبی ایشیا میں امریکا ٹوٹے ہوئے کھلونوں سے پیار جتانے کی جو کوشش کر رہا ہے اُس کے حوالے سے خطے کے تمام اہم ممالک کو مل کر تدارک کے بارے میں کچھ سوچنا اور کرنا ہی چاہیے۔ اس نیک کام میں مزید تاخیر کی معمولی سی بھی گنجائش نہیں۔