عالمی سیاست و معیشت میں ایسا بہت کچھ ہے جو حقیقت میں کچھ اور ہے مگر دکھایا کچھ اور جا رہا ہے۔ قدم قدم پر دھوکا ہے۔ اِسی کا نام سفارتکاری ہے۔ سفارتکاری میں چند امور کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اولین ترجیحی نکتہ تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت لیا جائے یعنی معاملات کو اِس طور ٹالا جاتا رہے کہ بالآخر اپنے مفادات کا مکمل تحفظ یقینی ہو جائے۔ فریقِ ثانی کو الجھاکر رکھنا ہی سفارتکاری کی بنیادی شرط اور طریقِ کار ہے۔ کسی بھی ریاست میں سفارتکاروں کی تربیت اصلاً اِسی بات کیلئے کی جاتی ہے کہ فریقِ ثانی کو مختلف لایعنی اور لاحاصل قسم کے معاملات میں الجھاکر رکھا جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت لیا جائے۔ کھیلوں کی دنیا میں اِسے ٹائم آؤٹ کہتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں مخالف ٹیم بڑھ چڑھ کر حملے کر رہی ہو تو کسی کھلاڑی کے زخمی ہونے کا بہانہ کرکے تھوڑا سا وقت لیا جاتا ہے تاکہ فریقِ ثانی کا ٹیمپو (تسلسل) ٹوٹ جائے اور اُسے تابڑ توڑ حملوں کیلئے نئے سِرے سے تیاری کرنا پڑے۔ فٹبال اور ہاکی میں یہ تکنیک خاص طور پر بروئے کار لائی جاتی ہے۔ سفارتکاری بھی ٹائم آؤٹ لینے کا فن ہے یعنی فریقِ ثانی کا ٹیمپو توڑ دو، اُسے اہم ترین معاملات میں جارحانہ انداز سے کچھ کرنے کے قابل نہ چھوڑو۔
ایران کا جوہری پروگرام بھی کم وبیش ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس ایک پروگرام کی بنیاد پر مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے ایران کا نام لے کر مشرقِ وسطیٰ میں بالعموم اور خلیج فارس کے خطے میں بالخصوص معاملات کو التوا میں ڈال رکھا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کا ہوّا دکھا کر خلیج کی متمول ریاستوں کو ڈرایا جاتا ہے اور پھر اس حوالے سے ایسے اقدامات کی راہ ہموار کی جاتی ہے جن کے نتیجے میں خطے کو صرف اور صرف نقصان پہنچتا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر خطے میں شدید عدم استحکام کا نیا دور شروع کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مخاصمت اور تصادم کی راہ پر اتنا آگے جاچکا ہے کہ اب واپسی کی راہ دکھائی یا سجھائی نہیں دے رہی۔ گھٹتی ہوئی طاقت نے امریکی پالیسی میکرز کو شدید الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت امریکا اور یورپ دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ عالمی سیاسی، معاشی اور مالیاتی نظام میں امریکا اور یورپ کی جڑیں بہت گہری ہیں جس کا یہ دونوں خطے بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے آئے ہیں۔ چین نے مگر اب ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ روس بھی اب نچلا بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں مغرب کے پاس بالعموم اور امریکا کے پاس بالخصوص یہی آپشن رہ گیا ہے کہ معاملات کو الجھاکر رکھے اور ٹائم آؤٹ لیتا رہے۔ پوری دنیا کو اس سے جو نقصان پہنچے گا اس میں سب سے بڑا حصہ بھی امریکا ہی کا ہوگا۔
''عرب سپرنگ‘‘ یعنی عرب دنیا میں عوامی بیداری کی مہم کے نام پر امریکا اور یورپ نے عجیب کھیل کھیلا۔ عراق کے بعد شام اور لیبیا‘ دونوں کو آگ و خون میں نہلا دیا گیا۔ لیبیا انتہائی پُرسکون ملک تھا جس کے باشندوں کو دنیا بھر کی سہولتیں میسر تھیں۔ لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کی کردار کشی کے ذریعے ملک میں ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی گئی۔ اور پھر صرف معمر قذافی کا اقتدار نہیں گیا بلکہ ملک بھی عوام کے ہاتھ سے نکل گیا۔ معمر قذافی کے دور میں لیبیا کے باشندوں کو مثالی سہولتیں میسر تھیں اب اُن کا ایک فیصد بھی انہیں میسر نہیں اور اُن کی بحالی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ مغرب نے یمن کو بھی تباہی سے دوچار کیا اور لبنان کو بھی اس قابل نہیں چھوڑا کہ خطے میں کوئی پائیدار مثبت کردار ادا کرسکے۔ یہ سب کچھ بظاہر چین کا راستہ روکنے اور روسی عزائم کو کاؤنٹر کرنے کے نام پر کیا گیا۔
اب پھر عدم استحکام پیدا کرنا مقصود ہے۔ ابھی افغانستان میں طالبان کی فتوحات کے نتیجے میں اٹھنے والی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ امریکی قیادت نے مشرقِ وسطیٰ میں نئے کھیل کی تیاری شروع کردی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بہت نزدیک پہنچ گیا ہے اس لیے اس کے جوہری پروگرام کے خلاف کسی بھی وقت کوئی بڑی اور فیصلہ کن کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران اب جوہری ہتھیاروں کے حصول کی منزل سے زیادہ دور نہیں اور اگر اس نے جوہری ہتھیار تیار کیے تو اس کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ دی ٹائمز آف اسرائیل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی تیاریاں کرلی ہیں اور اس حوالے سے کم و بیش دو ارب ڈالر بھی مختص کیے گئے ہیں۔ یہ بات اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف ایوو کوہاوی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتائی۔ اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے گزشتہ ہفتے غیر ملکی سفارتکاروں کو بتایا تھا کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان سے فوج کو لیس کرنے کی حکمت عملی اپنائی تو اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے میں تساہل سے کام لیا جائے گا نہ تاخیر سے۔ اسرائیلی قیادت کہتی ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کسی بھی حال میں قابلِ قبول نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ایران اب جوہری ہتھیار بنانے کی منزل سے صرف دو ماہ کی دوری پر ہے جبکہ اسرائیلی فوج کے تجزیے اور تخمینے کہتے ہیں کہ اُسے اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے؛ تاہم اسرائیلی فوج ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے معاملے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اسرائیل کہتا ہے کہ اس وقت پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ایران جوہری معاملات پر دوبارہ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوگا یا نہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کو ''پلان بی‘‘ تیار رکھنا چاہیے۔
اسرائیلی فوج کا ایران سے متعلق انتباہ ایسے وقت آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ نے واشنگٹن کا پہلا دورہ شروع کیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن سے مذاکرات کے ایجنڈے میں ایران کا جوہری پروگرام نمایاں ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنالیے تو خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گا۔ کوئی نیا بین الاقوامی جوہری معاہدہ ہی اس بات کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے۔ امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) کو ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی فوج کے حملے کی تیاریوں کا علم ہے؛ تاہم کہا جارہا ہے کہ اس پورے عمل سے اس کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ گزشتہ ماہ اسرائیلی کابینہ نے 18 ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی جس میں دو ارب ڈالر سے کچھ زائد رقم ایران کو ُُُ''کنٹرول‘‘ میں رکھنے کے نام پر مختص کی گئی ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم اولمرٹ نے انکشاف کیا کہ 2011-12ء میں بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں؛ تاہم اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا۔ اسرائیل نے خطے میں ایرانی اثرات کا دائرہ محدود رکھنے پر خاص توجہ دی ہے۔ مارچ میں وال سٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دو سال کے دوران شام کے ساحلوں کی طرف بڑھنے والے ایرانی جہازوں پر ایک درجن سے زائد حملے کیے گئے۔ ایران نے بھی اسرائیل کی ملکیت والے یا اس کی طرف جانے والے مال بردار جہازوں کو نہیں بخشا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مغربی ردِ عمل کو reality سے کہیں زیادہ virtual reality قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس نورا کشتی نے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھا ہے۔ ایران کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کے نام پر پورے خطے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ خطے کے ممالک کو اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے غیر معمولی سیاسی عزم اور تیاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ مغرب جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو بیک عدم استحکام سے دو چار رکھ کر اربوں افراد کا مسقبل داؤ پر نہ لگا سکے۔