"MIK" (space) message & send to 7575

تربیت کا پہلا نمبر

ہر دور میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کے لیے جتنی ضروری تعلیم ہے اُتنی ہی ضروری تربیت بھی ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ تربیت میں رہ جانے والی خامیوں کو دور کیے بغیر انسان کبھی پنپ نہیں سکتا۔ ہم زندگی بھر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جن کی تعلیم اور تربیت دونوں میں ادھورا پن صاف دکھائی دیتا ہے اور بات صرف یہیں تک نہیں رہتی بلکہ اُن کی زندگی پر اس ادھورے پن کے واضح منفی اثرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ غلط راہ منتخب کرکے اُسی پر چلتے رہتے ہیں۔ غلط راہ پر گامزن رہنے سے زندگی کو جن پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام پیچیدگیاں اُن کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ اُنہیں اُن کی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں ٹوکتے نہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ ہر انسان اپنی تمام خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں جانتا ہے مگر جب کوئی ان خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ تھوڑا محتاط ہو جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ تھوڑے بہت محتاط ضرور ہو جاتے ہیں مگر تعلیم و تربیت کی کمی سے شخصیت میں رہ جانے والی کسی بھی کمی کو دور کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر علم کا بھی تقاضا کرتی ہے اور عمل کا بھی۔ ایک دور تھا کہ علم کا حصول انتہائی دشوار عمل تھا۔ لوگ کتابوں کے حصول کے لیے بھی دور دراز کا سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ تب کچھ جاننا جان لیتا تھا۔ ایسے میں بھلا علم کی قدر کیوں نہ ہوتی؟ گزرے ہوئے زمانوں میں وسائل کی قلت تھی اس لیے علم کے حصول کی راہ میں سرگرداں رہنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ فی زمانہ علم کا حصول کسی بھی اعتبار سے دشوار نہیں رہا۔ ہو بھی کیسے؟ ٹیکنالوجی کا شعبہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ کچھ بھی جان لینا اب کسی بھی درجے میں دِقّت طلب نہیں رہا۔ انٹر نیٹ پر دنیا بھر کی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ اور کتابیں بھی کتنی؟ ہزار دو ہزار یا دس بیس ہزار نہیں بلکہ لاکھوں۔ دنیا کا ہر اخبار کسی بھی مقام پر پڑھا جاسکتا ہے۔ روزانہ لاکھوں مضامین انٹر نیٹ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی کی ہر چیز آسانی سے پڑھ اور دیکھ سکتا ہے۔ پڑھنے لکھنے والوں کی مشکل تو ایسی آسان ہوئی ہے کہ کبھی کبھی یہ سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔
کیا پڑھنا لکھنا آسان ہونے سے سب کچھ آسان ہوگیا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ آج کوئی بھی نوجوان اپنے پسندیدہ شعبے کی درسی اور غیر درسی کتب آسانی سے حاصل کرکے پڑھ سکتا ہے‘ اپنے آپ کو متعلقہ شعبے کی پیش رفت سے آگاہ رکھ سکتا ہے۔ اساتذہ کے لیے اب بہت آسانی ہے۔ وہ کچھ بھی بہت آسانی سے پڑھا سکتے ہیں۔ ہاں‘ اپنے آپ کو جدید ترین معلومات اور شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ اور ہم آہنگ رکھنا اُن کے لیے دردِ سر کا درجہ ضرور رکھتا ہے۔ بہر کیف‘ پڑھنا اب کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔
اب آئیے تربیت کی طرف۔ یہ شعبہ اب بھی توجہ طلب ہے اور اس میں محنت بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تربیت تو کسی خاص علمی شعبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے۔ اسے عملی تعلیم سمجھیے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے اعلیٰ ترین نوعیت کی تربیت کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ علمی شعبے سے تعلق رکھنے والی تربیت پاکر انسان کیریئر کو پروان چڑھاتا ہے۔ کوئی ایک شعبہ یا کسی شعبے کا ایک حصہ منتخب کرکے اُسی میں کچھ کرنے کی کوشش کیریئر کہلاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر عام ہے کہ اس حوالے سے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ زندگی کیسے بسر کی جائے۔ بہت سوں کو آپ اس حال میں پائیں گے کہ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے پر بھی کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ اُن کا کیریئر ہی پنپ پاتا ہے نہ ذاتی کردار پروان چڑھتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس حقیقت کو تسلیم کیے ہی بنے گی کہ جب تربیت میں کمی رہ جاتی ہے تب انسان ادھورا رہ جاتا ہے۔ تربیت بہت وسیع اور ہمہ گیر نوعیت کا تصور ہے۔ یہ پوری زندگی کا احاطہ کرنے کا معاملہ ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو بہت سے معاملات میں انتہائی پیچیدہ ہے۔ اور یہ پیچیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کسی بھی دور کے مقابلے میں آج تربیت کی ضرورت زیادہ ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ کم و بیش ہر شعبے کی ساخت بدل چکی ہے۔ کل تک جو کچھ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہ اب میسر ہے۔ آسانیاں اتنی ہوگئی ہیں کہ جینا مشکل ہوگیا ہے۔ جب آسانیاں بڑھ جاتی ہیں تو بہکنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ آج کے انسان کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ آسانیوں کے سمندر میں غوطے لگاکر اُن تمام مشکلات سے دور ہو رہا ہے جو زندگی کا معیار بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
آج کی نئی نسل بہت سے شعبوں میں جدید ترین رجحانات کے مطابق علم حاصل کرلیتی ہے اور متعلقہ تربیت کے حصول میں بھی پیچھے نہیں رہتی مگر یہ بات وہ طے نہیں کر پاتی کہ زندگی کس طور بسر کی جائے۔ شخصیت میں بہت سی پیچیدگیاں رہ جاتی ہیں جنہیں دور کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کسی شعبے میں کیریئر بنانا کھیل نہیں مگر پھر بھی لوگ محنت کرکے کچھ نہ کچھ تو بن ہی جاتے ہیں۔ اصل معاملہ اس سے ایک قدم آگے کا ہے یعنی یہ بھی تو طے کرنا ہوتا ہے کہ جو کچھ حاصل کیا ہے اُسے ڈھنگ سے بروئے کار کیسے لائیں۔ آج کی دنیا یہ نکتہ فراموش کر بیٹھی ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی سمت کے درست رہنے اور اس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہو اُس سے کماحقہ مستفید ہونے کے لیے تربیت ناگزیر ہے۔ تربیت میں رہ جانے والی خامی زندگی کے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی پہلوؤں کو شدید خرابیوں سے دوچار کرتی ہے۔
ایل ران ہبرڈ کا نام ساینٹولوجی اور ڈایا نیٹکس کے حوالے کام کرنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ ران ہبرڈ نے شخصی ارتقا کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اُن کا متعارف کرایا ہوا سماعت و اصلاح کا طریقہ آج بھی شخصی ارتقا کے حوالے سے ایک اہم آلۂ کار سمجھا جاتا ہے۔ ران ہبرڈ نے کہا تھا کہ ہر انسان کو اپنے لیے مستقل راہِ عمل منتخب کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا کس طرح کے لوگوں کے ہونے سے چلتی ہے۔ کیا چور‘ ڈاکو‘ زانی‘ شرابی‘ ہڈ حرام‘ راشی‘ کاہل اور عہد پر کاربند نہ رہنے والے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ دنیا اُن کے دم سے چلتی ہے یا چل سکتی ہے؟ کیا کوئی ڈاکو‘ بہتری کا موقع ملنے کے باوجود‘ اپنی اولاد کو ڈاکو بنانا پسند کرے گا؟ بہت سوں کو ہم اس حالت میں پاتے ہیں کہ خود تو دنیا بھر کی بُرائیوں میں لُتھڑے ہوئے ہوتے ہیں مگر اولاد میں زمانے بھر کی خوبیاں اور اچھائیاں دیکھنا چاہتے ہیں‘ یعنی وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جیسے وہ ہیں اگر سب ویسے ہوں تو دنیا کا کاروبار ایک دن بھی نہ چل پائے۔ ران ہبرڈ کی رائے میں کیریئر اور زندگی کے معاشی پہلو کے حوالے سے بھی یہی سوچ بروئے کار لانی چاہیے یعنی دیکھنا چاہیے کہ ہم کیسے ہوں کہ دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد ثابت ہوں اور کسی کے لیے تکلیف کا ذریعہ نہ بنیں۔ اس دنیا کو ایسے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے جو تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرتے ہوئے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ یہ وصف صرف اور صرف تربیت سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے سکھائی جانے والی اخلاقی اقدار زندگی بھر کام آتی ہیں۔ یہ سب کچھ شعوری سطح پر ہونا چاہیے۔ زندگی کا غیر معاشی یا خالص معاشرتی اور کرداری پہلو بچوں یا نئی نسل کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے شعوری سطح پر کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ بہتر زندگی کی طرف جائیں۔
نئی نسل کی تربیت تعلیمی اداروں کا کام نہیں۔ وہ علوم و فنون کی اشاعت تک محدود رہتے ہیں۔ بچے دوسروں کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہوئے زندگی کس طور بسر کریں گے اس کا مدار والدین اور خاندان کے بزرگوں کے رویّے پر ہے۔ وہ تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہوں تو نئی نسل کے لیے بات بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں