قوم کا عجیب حال ہے۔ ایک کم بخت دو راہا ہے کہ جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ قوم بات بے بات دو راہے پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ کیوں؟ یہ ''کیوں‘‘ بھی جان نہیں چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ شش و پنج کی کیفیت ہمارے قومی وجود سے چمٹ کر رہ گئی ہے۔ حالات کی خرابی نے ہمارا یہ حال کیا ہے کہ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت تو ایک طرف رہی‘ اب دیکھنے کا فن بھی ہمارے پاس نہیں رہا۔ ہمارے ارد گرد یعنی علاقائی اور عالمی سطح پر بہت کچھ ہو رہا ہے مگر ہم وہ سب کچھ دیکھنے کے لیے تیار نہیں جو دیکھنا چاہیے۔ عالم یہ ہے کہ ؎
دیکھنا جو نہ تھا وہی دیکھا ... کیا یہی ہے کمالِ بینائی!
یہ سب کچھ دل و دماغ کو شدید ترین نوعیت کی الجھنوں سے دوچار کرنے والا بلکہ شکست و ریخت کے مراحل سے گزارنے والا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ دیکھنا اور سمجھنا ہے اور جو کچھ سمجھ میں آ جائے اُس کی بنیاد پر سوچنا ہے۔ سوچنے کا معیار ہی طے کرتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں، کیا کرسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر کیا کرسکیں گے۔ جب کوئی قوم اپنی حقیقی سمت سے محروم ہو جاتی ہے تب قدم قدم پر دو راہا وارد ہو جاتا ہے یا صورتِ حال ایسی ہو جاتی ہے کہ معاملات کو سمجھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بار بار اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ آج کی دنیا میں سب سے بڑھ کر ٹائمنگ ہے یعنی یہ کہ کب کیا کرنا چاہیے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی سطحوں پر اب بہت سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنا لازم ہے۔
ہماری سیاست اُس مقام پر آکر اٹک گئی ہے جہاں تمام معاملات آپس میں گڈمڈ ہو جایا کرتے ہیں۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں کو اب ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے‘ نہ سمجھا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے کی ہر کوشش کے نصیب میں ناکامی ہی لکھی ہوتی ہے۔ حالات کی روش اِس قسم کی ہوچکی ہے کہ ہمارا نصف سے زائد وقت تو معاملات کی تفہیم ہی میں کھپ جاتا ہے۔ بعض معاملات کا یہ حال ہے کہ سر توڑ کوشش کرنے پر بھی کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہم زرعی معیشت واقع ہوئے ہیں۔ کم بیش 80 فیصد معاشی معاملات زراعت سے جڑے ہیں‘ پھر بھی ہمیں خوراک درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ ملک میں گنے کی پیداوار قابلِ رشک ہوتی ہے مگر چینی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ گندم کی پیداوار میں ہم کب کسی سے پیچھے ہیں مگر پھر بھی آٹے کا بحران ہے کہ سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف چینی اور آٹے کو کیا روئیں‘ یہاں تو کھانے پینے کی وہ تمام اشیا عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں جو ملک ہی میں نہ صرف پیدا ہوتی ہیں بلکہ یہاں سے برآمد بھی ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں کہ جو کچھ ہم وافر مقدار میں پیدا کرلیتے ہیں وہ برآمد کرنے کے بعد درآمد کیوں کرتے ہیں۔ یہ کون سی معیشت ہے؟ اور یہ کس طرز کی سیاست ہے جس نے معیشت کو اِس نہج تک پہنچادیا ہے؟
کیا ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے معاملے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوں گے؟ کیا اب کوئی بھی معاملہ ایسا نہیں کہ ہمیں شعور کی سطح بلند کرنے کی تحریک دے سکے؟ کیا قومی وجود کو وقار و اعتبار سے ہم کنار کرنے کی کوئی بھی کوشش اب ممنوع تصور کرلی گئی ہے؟ علم و فن کی دنیا ہو یا انتظام و انصرام کا شعبہ، سیاسی سرگرمیاں ہوں یا معاشی عمل، گھریلو زندگی کے معاملات ہوں یا معاشرتی تفاعل کی نہج‘ ہر معاملے میں ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں سے انحطاط و زوال کی ہی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ الجھنوں اور پریشانیوں کے مایا جال سے نکلنے کا کوئی راستا دکھائی دے رہا ہے نہ سُوجھ رہا ہے۔
کیا بار بار دو راہے پر آجانا مقدر ہے؟ یا ہم نے اس کیفیت کو مقدر سمجھ کر قبول کرلیا ہے؟ آج ہمارے تمام معاملات ایسی کیفیت سے دوچار ہیں جسے سمجھوتا پسندی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب بھی کوئی قوم رو بہ زوال ہوتی ہے تب ایک مقام ایسا آتا ہے کہ اندر ہی سے کچھ لوگ اٹھتے ہیں اور رفعت دوبارہ یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ مرحلہ اب تک شروع نہیں ہوا۔ زوال کس حد تک ہونا چاہیے اور کب اپنے معاملات درست کرنے کے لیے ڈٹ کر میدان میں آ جانا چاہیے‘ یہ خود قوم کے طے کرنے کا کام ہوتا ہے۔ بعض اقوام صدیوں سے انحطاط کا شکار اور پستی میں گری ہوئی ہیں۔ افریقی اقوام کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کچھ ایسا ہی حال جنوبی ایشیا کا بھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی اگر کچھ چمک دمک دکھائی دے رہی ہے تو تیل کی دولت کی بدولت ہے۔ اگر پٹرولیم کی وساطت سے ہونے والی آمدنی نہ ہو تو اِس خطے میں بھی صرف انحطاط‘ زوال اور پستی دکھائی دے۔ ہمارے جیسے معاشروں کا ایک بنیادی مسئلہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ بار بار دو راہے پر آجانے کے بعد بھی کسی نہ کسی کا انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ آئے اور راہ دکھلائے۔ سوال یہ نہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں۔ کسی دور میں‘ کسی بھی معاشرے کو کسی نے باہر سے آکر نہیں سنبھالا۔ اپنے معاملات خود درست کرنا پڑتے ہیں۔ شش و پنج کی کیفیت سے خود ہی نکلنا پڑتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر معاشرہ یا تہذیب اُنہی ادوار سے گزرتی ہے جن سے انسان گزرتا ہے یعنی بچپن کے بعد جوانی آتی ہے، اِس کے بعد عمر ڈھلتی ہے اور آخر میں بڑھاپا۔ بڑھاپے کے بعد معاشرے یا تہذیب کو ایک بار پھر پیدا ہونا پڑتا ہے۔
کوئی بھی قوم جب کبھی دو راہے پر آتی ہے تب کہیں سے مشورہ مل سکتا ہے یا پھر اخلاقی حمایت و مدد کے طور پر کوئی یقین دہانی نصیب ہوسکتی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ گری ہوئی قوم کو کوئی اور قوم آکر اٹھائے‘ پیروں پر کھڑا کرے اور پروان چڑھائے۔ ایسا محض خواب و خیال کی دنیا میں ہوتا ہے۔ عمل کی دنیا میں خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اقوامِ عالم کے درمیان معاملات کاروباری نوعیت ہی کے ہوتے ہیں۔ سب کچھ صرف اور صرف 'کچھ دو اور کچھ لو‘ کے اصول کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اگر کسی سے کچھ مدد ملتی ہے تو بدلے میں کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔
آج ہم بار بار دو راہے پر آ جاتے ہیں‘ یہ ہمارے اجتماعی اعمال کا نتیجہ ہے اور اس کیفیت سے چھٹکارا دلانے کوئی نہیں آئے گا۔ یہ کام ہمیں خود ہی کرنا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں جس طور جینا چاہیے‘ وہ منزل بہت دور ہے۔ ماضی شاندار رہا ہے۔ یہ ماضی کبھی کبھی افسردہ بھی کرتا ہے کہ ہم ایک ملت کی حیثیت سے کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ ہاں! شعور کی سطح بلند ہو تو درخشاں ماضی ہمیں آج کی دنیا میں ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کی تحریک بھی دے سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی قوم گرنے کے بعد سنبھل نہیں پاتی۔ دنیا بھر میں ایسی اقوام پائی جاتی ہیں جنہوں نے انحطاط اور زوال کا طویل دور گزارنے کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر قابلِ رشک انداز سے جینے کی ابتدا کی۔
اکیسویں صدی کے بہت سے بنیادی تقاضے ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جدید معاشی نظام کی مبادیات کو سمجھنا بھی لازم ٹھہرا ہے۔ آپشن صرف یہ بچا ہے کہ سَمت درست کرکے علم و فن کی دنیا میں نام پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر درست سمت کا تعین کرکے سفر جاری رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہیے تاکہ جا بجا دو راہے پر آنے والی کیفیت اور سفر روک دینے کی الجھن سے بچا جاسکے۔