موقع ایک بار پھر ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ وقت کسی بھی اہم موڑ پر بار بار نہیں لاتا اور لا سکتا بھی نہیں۔ سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ جب حالات تبدیل ہوں‘ تب ہمارے لیے صرف الجھنیں ہی پیدا ہوں۔ حالات کی خرابی کبھی کبھی مواقع بھی پیدا کرتی ہے اور بعض مواقع اتنے شاندار ہوتے ہیں کہ ہم اُنہیں ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آج کی دنیا قدم قدم پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ جن کے ہاتھوں میں اس دنیا کی ڈور ہے یعنی جو عالمگیر نظامِ معیشت و سیاست پر متصرف ہیں وہ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت کسی بھی صورتِ حال کو جنم دے لیتے ہیں۔ بدلی ہوئی صورتِ حال کا خمیازہ کمزور ریاستوں کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ اُن کے پاس اور کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اُن کے لیے کوئی اور آپشن چھوڑا ہی نہیں جاتا۔ فی زمانہ امریکا اور یورپ غالب حیثیت کے حامل ہیں۔ دونوں نے مل کر عالمی نظامِ معیشت و سیاست کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ سارے بڑے فیصلے اِن کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں دنیا میں کہیں بھی معاملات کو بگاڑ کر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی راہ ہموار کرلیتے ہیں۔ کئی خطے مستقل حیثیت میں اِن کے نشانے پر ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا اس معاملے میں نمایاں ترین مثال ہیں۔ افریقا کے بہت سے ممالک میں بھی امریکا اور یورپ کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں معاملات خرابی سے دوچار ہیں۔ یہ پورا خطہ صدیوں سے جہالت، پسماندگی اور افتراق و انتشار کے گڑھے میں گرا ہوا ہے۔
افغانستان کی صورتِ حال نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے ایک نیا چیلنج اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس وقت ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ چین کی راہ روکنا ہے۔ چین اس حد تک مضبوط ہوچکا ہے کہ اب عالمی سیاسی و معاشی نظام میں اپنے لیے برابری کی بنیاد پر حصہ چاہتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاپان بھی کبھی پیچھے نہیں رہا مگر اُس نے اپنے لیے ایک محدود کردار قبول کر رکھا ہے۔ وہ امریکا اور یورپ کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔ وہ استعماری قوت رہا ہے اور اِسی لیے اس بات سے ڈرتا ہے کہ خطے کے ممالک کہیں مضبوط و متحد ہوکر اُس کے لیے وبال نہ بن جائیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے جاپان تاحال مغربی دنیا کا ہمدم و ہمنوا رہا ہے۔ وہ اس حیثیت میں کسی تبدیلی کا خواہش مند نہیں۔ امریکا اور یورپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ہر معاملے میں اُن کی دال نہیں گلے گی۔ سرِدست اُن کی روش وہی ہے جو طاقت سے محروم ہوتے ہوئے کسی بھی انسان کی ہوسکتی ہے یعنی حیثیت کمزور پڑ جانے پر بھی یہی تاثر دینا کہ معاملات قابو میں ہیں اور کم و بیش سبھی کچھ اپنے اختیار میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا بھی ہر معاملے میں اپنی بات نہیں منوا سکتا اور یورپ بھی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ہاں! دونوں کی خواہش ضرور ہے کہ اب تک جس اختیار اور آزادی کے ساتھ انہوں نے پوری دنیا کو مطیع و فرمانبردار بنائے رکھا وہ ہاتھ سے نہ جائے۔ اس کے لیے امریکا تاحال نئی جنگوں پر یقین کا حامل ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی مجموعی طاقت میں واقع ہونے والی کمی کو بھی طاقت ہی کے ذریعے پورا کرنا چاہتا ہے۔ اب اس عمل میں کسی خطے میں اتھل پتھل ہوتی ہے تو ہوتی رہے‘ کوئی ریاست برباد ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔
افغانستان سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا انخلا مکمل ہونے اور تمام معاملات پر طالبان کے متصرف ہو جانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس کو متعدد انٹرویو دیے ہیں۔ ہر انٹرویو میں یہ سوال ضرور اٹھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کی صورتحال پر وزیراعظم پاکستان کو کال نہیں کی۔ بات کچھ یوں ہے کہ اگر امریکا کو پاکستان کی ضرورت تھی بھی اور اُس کے مشوروں کی روشنی میں انخلا کا بہتر لائحۂ عمل ترتیب دیا جاسکتا تھا تب بھی امریکی قیادت نے دنیا کی نظر میں اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے لیے ایسا کرنے سے اجتناب برتا۔ امریکی صدر سیاسی مصلحت کے تحت فون کر بھی لیتے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہ تھا مگر مقصود یہ تھا کہ دنیا کے سامنے یہ تاثر دیا جائے کہ امریکی قیادت کی نظر میں اس خطے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ امریکا نے ہمیشہ ایسا ہی کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کو تازہ ترین انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ طالبان کی مدد نہ کرکے افغانستان کو تنہا کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ عالمی برادری طالبان سے گفت و شنید کرے اور امریکا اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ خوب! جو کچھ امریکا نے اب تک کیا ہے وہ سب نظر کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود ع
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
طالبان سے بات چیت ہونی چاہیے، عالمی برادری اُنہیں تنہا نہ چھوڑے۔ یہاں تک تو بات درست ہے مگر یہ کیا کہ طالبان سے عالمی برادری کے روابط میں امریکا قائدانہ کردار ادا کرے؟
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں!
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ امریکی عوام کو افغانستان کے معاملے میں حقائق سے بے بہرہ رکھا گیا۔ اگر امریکی عوام کو افغانستان کے معاملات کی اصلیت کا علم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کرلیتے؟ امریکی قیادت تو بدمست ہاتھی کی حیثیت سے جہاں تہاں تباہی و بربادی کا بازار گرم کیے رہتی ہے۔ طاقت کے نشے میں تاحال چُور ہونے کے باعث وہ کسی بھی بات سُننے کے لیے تیار نہیں۔ اُسے کسی کا کوئی مشورہ قبول نہیں۔ امریکی صدر کی فون کال کا انتظار کرنے کے بجائے ہمیں ''ٹوٹل ری کال‘‘ کی طرف جانا چاہیے۔ امریکا کے ہاتھوں ہم پر اب تک جو کچھ بھی گزری ہے اُسے اچھی طرح یاد کرکے اُس سے محض سبق نہیں بلکہ اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد کرنا اور یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا نے ہمیں ہمیشہ دوست اور اتحادی کہا مگر عملاً ہم سے دوستی کا سا تعلق استوار نہیں کیا گیا۔ جب بھی ضرورت پڑی ہے‘ پاکستان کو یاد کیا گیا ہے اور کام نکل جانے کے پر ایسے آنکھیں پھر لی گئیں کہ جیسے شناسائی ہی نہیں تھی۔افغانستان کے معاملے میں یہ عمل پوری شدت سے اور خاصی ڈھٹائی کے ساتھ دُہرایا گیا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف جس پاکستان کو دیوار کی طرح کھڑا کیا گیا تھا‘ اُسی کو سوویت افواج کی شکست اور افغانستان سے اُن کے انخلا کے بعد یوں بھلادیا گیا کہ ''جیسے جانتے ہی نہیں، پہچانتے نہیں‘‘ والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ہمیں حافظہ مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ اقوام کے درمیان معاملات کی نوعیت ایسی نہیں ہوتی کہ راتوں رات بھلادی جائے۔ امریکا نے اب تک کسی بھی مرحلے پر ہم سے وہ سلوک روا نہیں رکھا جسے کسی بھی اعتبار سے دوستی یا اتحادی سے تعبیر کیا جائے۔ تمام معاملات ضرورت سے شروع ہوکر ضرورت پر ختم ہوتے رہے۔
امریکا کے معاملے میں اب خوش فہمیوں سے نکل کر حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کا وقت آگیا ہے۔ بدلتا ہوا وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ اپنے آپ کو بھی بدلیں اور دوست بھی تبدیل کریں۔ اب ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کا شعور پیدا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر اپنے وجود کا جائزہ لینا اب لازم ٹھہرا۔