امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کو سمجھنا اُن کے جوابات لکھنے کی پہلی شرط ہے۔ جب تک سوال سمجھ میں نہ آئے تب تک موزوں ترین جواب سُوجھتا نہیں اور جواب سُوجھے گا ہی نہیں تو کوئی لکھے گا کیا؟ ہم زندگی بھر یہی غلطی کرتے رہتے ہیں۔ سوال کو سمجھے بغیر جواب لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ سوال مشرق کے بارے میں ہو اور جواب مغرب کے بارے میں تو دیا جاچکا امتحان اور ہوچکے ہم کامیاب۔ اب ذرا یہ سوچئے کہ امتحانی پرچے میں پوچھے گئے سوال کو سمجھنے کے بعد کیا کرنا ہوتا ہے۔ سوال سمجھ میں آ جائے تو فوراً لکھنا شروع کرنے کے بجائے ایک یا دو منٹ تک تو سکون کے سانس لینا لازم ہے تاکہ ذہن پوری تازگی اور توانائی کے ساتھ فعال ہو اور آپ جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں وہ پورے حُسنِ ترتیب سے آپ کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا رہے۔ اب اگر کوئی سوال کو سمجھنے ہی کی منزل پہ اٹک کر رہ جائے تو؟ اٹک کر رہ جانے سے مراد یہ ہے کہ وہ سوال ہی کو سب کچھ سمجھ لے یعنی سوال کی تفہیم پر قانع ہوکر سُکون کے سانس لے اور لکھنے کی طرف نہ جائے۔ کسی نے سوال کو کتنی ہی اچھی طرح سمجھ لیا ہو‘ پیپر چیک کرنے والے کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ جس نے پرچہ دیا ہے‘ اُس کی ذہنی صلاحیت کتنی ہے اور وہ کس بات کو کس حد تک سمجھتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی اندازہ لگائے گا‘ جوابی کاپی پڑھ کر لگائے گا۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی صلاحیتیں امتحانی کاپی چیک کرنے والے پر ظاہر ہوں تو اُسے کسی بھی بات کو ڈھنگ سے بیان کرنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ یہ ہنر مشکل ضرور ہے! ناممکن نہیں۔ دن رات پڑھنے والے طلبہ و طالبات بھی اِس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ اُن کی تمام صلاحیتوں کا اندازہ صرف اُن کی اُس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے جس کا نقش وہ امتحانی کاپی پر ثبت کرتے ہیں۔
آج عام پاکستانی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور دن رات مسائل ہی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ مسائل کے بارے میں سوچنا اور اُنہیں سمجھنے کی بھرپور کوشش کرنا اُنہیں حل کرنے کی سمت پہلا قدم ہے۔ یہاں تک تو معاملہ فطری نوعیت کا ہے۔ مسائل کے بارے میں سوچنا ہمارے لیے ناگزیر ہے کیونکہ اُن کی تفہیم ہمیں حل کی طرف لے جاتی ہے اور ہم اپنی صلاحیتوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ ہم مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں‘ اصل کاریگری یہ ہے کہ ہم اُنہیں حل کرنے کا محض ذہن نہ بنائیں بلکہ حل کی طرف جائیں بھی یعنی عملی سطح پر کچھ ایسا کریں کہ ہماری زندگی میں آسانی کی گنجائش پیدا ہو۔ ہمارے معاشرے کو آج جن چند (منفی) خصوصیات کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے اُن میں سے ایک ہے بیانیے کا بخار۔ جی ہاں! بیانیہ اب بخار بن کر ہمارے حواس اور اعصاب پر سوار ہوچکا ہے۔ لوگ دنیا بھر کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اِس دائمی الجھن ہی کو زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہر وقت بھرے بیٹھے رہنے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ حال سب کا بُرا ہے مگر ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اُس کا حال سب سے بُرا ہے۔
روس کے عظیم ناول نگار لیو ٹالسٹائی نے اپنے عظیم ناول ''اینا کریننا‘‘ کا آغاز اِس بے مثال جملے سے کیا ہے ''تمام خوش و خرم گھرانے ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں جبکہ ہر ناخوش گھرانے کے پاس ناخوش ہونے کا اپنا انداز ہوتا ہے‘‘۔ ایسا کیوں ہے کہ ہر شخص اپنے غم کو سب سے منفرد نوعیت کا غم سمجھتا ہے اور اِس گمان کا شکار رہتا ہے کہ جتنے دُکھ اُسے ملے ہیں‘ اُتنے تو شاید ہی کسی کو ملے ہوں گے؟ بات اِتنی سی ہے کہ جب مسائل کو حل کرنے کی نیت نہ ہو تو اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا
جب کچھ کرنے کی نیت ہو نہ عزم تب لوگ ہر وقت بھرے بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی سلسلۂ کلام کا آغاز کرے اور ایک دنیا کا دروازہ کھلے۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
بیانیے کا بخار عمومی سطح پر پورے معاشرے پر محیط بیماری کا درجہ پاچکا ہے۔ بات شروع کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دُکھڑے رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ مسائل روز بروز بڑھتے اور پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ فکر و نظر کی وسعت یقینی بنائی جائے مگر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کوئی مشکل سی مشکل ہے ع
کہ سوچنا ہے مگر سوچتا کوئی بھی نہیں
صرف اپنے غم کو سب سے بڑا غم سمجھنے کی بیماری راتوں رات پروان نہیں چڑھی۔ ایک زمانے تک ہم نے اِسے خونِ جگر پلایا ہے تب کہیں جاکر اِس کے چہرے پر نکھار آیا ہے۔ زندگی دو اور دو چار جیسا معاملہ ہے۔ ہم اِسے اپنی شعوری کوشش کے ذریعے سوا چار یا پونے چار بنا دیتے ہیں۔ شاید زندہ رہنے کی ایسی ہی روش کے بارے میں فانیؔ بدایونی نے کہا تھا ؎
اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا
کم و بیش تین عشروں کے دوران ایک رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ یہ رجحان ہے مسائل کو اپناتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا۔ ہم مسائل کو حل کرنے سے زیادہ اُن کے بارے میں سوچنے اور بیان کرتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ چند برسوں سے لفظ ''بیانیہ‘‘ بھی ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں پوری شرح و بسط کے ساتھ جو مؤقف اپنایا جاتا ہے اُسے بیانیہ کہا جاتا ہے۔ عام آدمی بھی اِس گمان میں مبتلا رہتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا رہتا ہے وہ سب اُس کا بیانیہ ہے۔ وہ یہ بیانیہ اپنے تک نہیں رکھنا چاہتا بلکہ دوسروں کو بھی اُس سے ''مستفیض‘‘ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ بات بے بات کچھ نہ کچھ بولتے رہنا اب ہَوکے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اب تو رسمی سی دعا سلام بھی دل و دماغ کو جھنجھوڑنے والے معاملے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ لوگ بیانیے کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سمارٹ فون پر سوشل میڈیا کی پوسٹس کے ذریعے دنیا بھر سے جو کچھ بھی الٹا سیدھا آتا ہے وہ ہضم کرنے کے بجائے محض سُناکر آگے بڑھانے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ روزانہ سینکڑوں سوشل میڈیا پوسٹس دیکھ کر ذہن کی پیالی میں جو طوفان اٹھتا ہے اُس میں دوسروں کو غرق کرنے کی تیاری پوری توجہ کے ساتھ کی جاتی ہے اور پھر معاملہ یہ ہوتا ہے ع
کہ اُس نے حال بھی پُوچھا تو آنکھ بھر آئی
آپ نے محافلِ سماع میں دیکھا ہوگا کہ قوال صاحبان کسی بنیادی مصرع کو بار بار دُہراتے ہیں۔ یہ ٹیپ کا مصرع کہلاتا ہے۔ اب عام آدمی بھی ٹیپ کے مصرع کی ہی طرح اپنے مسائل کو دُہراتے رہنے پر تُلا رہتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اپنی پریشانیوں کے بارے میں سوچتے رہنے اور اُنہیں بیان کرنے کی بیماری میں مبتلا رہنے سے صرف منفی اندازِ فکر پروان چڑھتا ہے۔ حد یہ ہے کہ لوگ جنہیں اپنی رام کہانی سُنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اُن کے بارے میں جانتے بھی ہیں کہ وہ بھی الجھنوں ہی سے دوچار ہیں اور اُن کے پاس بھی صرف بیانیے کا آپشن بچا ہے!
جو کچھ ہمارے ماحول میں ہو رہا ہے وہ قدم قدم پر فکر و نظر کی دعوت دے رہا ہے۔ محض تماشا نہیں دیکھنا بلکہ سوچنا بھی ہے اور جو کچھ سوچنا ہے اُس کے سانچے میں اپنے عمل کو ڈھالنا ہے۔ غور و فکر ہی سے مسائل کے حال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہم دن رات مسائل کے بارے میں صرف سوچتے اور کڑھتے رہتے ہیں تاکہ ''بیانیہ‘‘ مضبوط ہوتا جائے۔ مسائل کے حال کی سبیل نکالنا بنیادی مقصد ہونا چاہیے اور وہی آنکھوں سے اوجھل ہے۔