کم و بیش تمام ہی معاشروں کو نشیب و فراز کے مراحل کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی معاشرہ ایسا نہیں جو بدلتے ہوئے حالات کی زد سے مکمل طور پر محفوظ ہو یا محفوط رہا ہو۔ آج پوری دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے اور بیشتر تبدیلیاں منفی ہیں۔ حالات روز بروز بُرے ہی ہوتے جارہے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ دنیا بھر میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی اکھاڑ پچھاڑ چل رہی ہے۔ کسی ایک ملک کی کیا بساط، یہاں تو پورے پورے خطے داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر ذہنی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بے ذہنی عام ہے یعنی لوگ ذہن کو بروئے کار لانے کی زحمت گوارا کیے بغیر جیے جانے کے عادی سے ہوچکے ہیں۔ کسی کو کسی بھی معاملے میں سوچنے اور غور و خوض کے ذریعے کسی معقول فیصلے تک پہنچنے کی تحریک دینے کی کوشش کیجیے تو جواب ملتا ہے کہ ایسا کرنے سے کیا ہو جائے گا، ہمارے سوچنے سے معاشرہ بدل تو نہیں جائے گا۔ سوچنے سے معاشرہ بدلے نہ بدلے‘ خود سوچنے والا تو بدل ہی سکتا ہے۔ کسی اور کی طرف کیا دیکھنا، اپنے معاشرے ہی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ غیر مربوط اور غیر منظم زندگی بسر کرنے ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں سوچنے اور ڈھنگ سے کچھ کرنے کا چلن عام نہیں ہو پارہا۔ غیر معمولی نفسی پیچیدگیوں اور مالی مشکلات سے اَٹے ہوئے لوگ بھی سوچے سمجھے بغیر جینے میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ تصور یقینا لاشعور کی کارفرمائی سے عام ہے کہ مسائل کے بارے میں کچھ سوچا جائے نہ کیا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔
حالات کا دباؤ اس لیے نہیں ہوتا کہ اُسے محض جھیلا جائے۔ معاملات درست کرنے کے لیے اچھی خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے بلکہ یہ عمل جاری رکھنا پڑتا ہے۔ حالات کی خرابی کے آگے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینا کسی بھی اعتبار سے کوئی معقول روش نہیں۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے قابل رہنے کے لیے حواس قابو میں رکھنا لازم ہوتا ہے۔ جب کسی قوم کے حواس گم ہو جاتے ہیں تب کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ اِس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں نے قسم کھالی ہے کہ اب کسی بھی معاملے میں ذہن کو بروئے کار نہیں لانا، عقل سے کام نہیں لینا۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو یوں ترک کیا جارہا ہے جیسے یہ کوئی قبیح عادت ہو۔ اب لوگ ڈھنگ سے جینے کے تمام اصولوں کو فراموش یا نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے مطابق ڈھیلے ڈھالے انداز کی‘ یعنی خاصی بے ڈھنگی‘ زندگی بسر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ آج کا ہمارا معاشرہ قانون پر عمل کے معاملے میں انتہائی شرم ناک کیفیت کا حامل ہے۔ قوانین اور قوائد سے یکسر بے بہرہ رہتے ہوئے جینے کی عادت اپنانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب اگر کوئی قانون کا پابند ہو تو اُس کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ سڑک پر گاڑی چلاتے وقت متعلقہ قوانین و قواعد کا خیال رکھیے تو اپنے لیے بہت سی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں! جو لوگ بے ڈھنگے انداز سے یعنی ٹریفک کے قوانین اور اصولوں کو خاطر میں لائے بغیر گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہیں‘ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی مصیبت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ زیادہ الجھن محسوس کرتے ہیں جو اصولوں پر کاربند ہوں۔
اگر اِس وقت کسی بھی غیر ملکی کو پاکستانی معاشرے کی مجموعی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینا ہو تو ٹریفک دیکھ لے۔ ہمارے ہاں لوگ سڑک پر جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول ہے نہ ناقابلِ معافی۔ جو خود کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں لاپروا ہوں وہ کسی اور کو محفوظ رکھنے کے بارے میں کیوں سوچیں گے؟ ٹریفک کا یہ انتہائی بنیادی اُصول ہے کہ سفر اِس انداز سے نہ کیا جائے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی خطرے میں پڑے۔ گاڑی یعنی کار، ویگن وغیرہ میں سفر کرنے والے چھوٹے حادثات میں بالعموم محفوظ رہتے ہیں۔ گاڑی کی باڈی اُنہیں چھوٹی موٹی خراشوں، زخموں اور ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ سے بچاتی ہے۔ موٹر سائیکل کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ موٹر سائیکل سوار حادثے میں خطرناک حد تک زخمی ہوتے ہیں۔
کراچی سمیت پورے ملک میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ پوری فیملی کو موٹر سائیکل پر بٹھاکر سفر کرتے ہیں۔ میاں بیوی کے علاوہ ایک بچہ ماں کی گود میں، ایک بچہ ماں اور باپ کے درمیان، ایک بچہ ٹنکی کے نچلے حصے پر اور ایک بچہ ٹنکی کے ڈھکن پر بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ نظارہ عام ہے یعنی کچھ دیر سڑک پر ٹھہر کر دیکھیے تو کئی گھرانے اِسے طور گزرتے دکھائی دیں گے۔ جو لوگ یہ حرکت کرتے ہیں وہ ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ حادثے کی صورت میں موت کس قدر نزدیک ہوگی۔ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ حادثات کی صورت میں ایسے خاندانوں کو زیادہ جانی نقصان جھیلنا پڑتا ہے۔ کراچی کے طول و عرض میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں جو فیملی کو موٹر سائیکل پر بٹھاکر بڑی گاڑیوں کی لین میں سفر کرتے ہیں اور رفتار بھی غیر معمولی رکھتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کرے بھی تو کیا کرے؟ نوجوانوں کو تو کسی نہ کسی طور روک کر سمجھایا جاسکتا ہے یا چالان کیا جاسکتا ہے‘ فیملی والوں کو غلطی پر روکنے کا چلن اب تک شروع نہیں ہوا۔
بڑے شہروں میں جب سے سگنل فری کوریڈور عام ہوئے ہیں تب سے موٹر سائیکل کا سفر انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ ایسے میں اگر فیملی کے ساتھ کوئی سفر کر رہا ہو تو اصولوں کے مطابق سفر کرنے کے لیے جگر نہیں‘ جگرا درکار ہوتا ہے۔ فیملی کو بٹھاکر تیز رفتار ٹریفک والی سڑکوں پر سفر موت کو دعوت دینے ہی کی ایک شکل ہے۔ لوگ اس معاملے میں ایسی لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے دل دَہل جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹریفک کے قوانین اور اصول موجود نہیں۔ قوتِ نافذہ بھی ہے مگر اس کے باوجود معاشرے کی روش درست نہیں ہو پارہی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عوام کی واضح اکثریت اصلاحِ احوال کے لیے تیار نہیں۔ سوال صرف ٹریفک کے معاملات کا نہیں۔ عوام کم و بیش ہر معاملے میں شدید لاپروائی اور بے ذہنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دانائی سے کام لینے کا چلن ایسا رخصت ہوا ہے کہ بحال ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ عوام حکومت سے بہت کچھ چاہتے ہیں۔ وہ سب کچھ انہیں نہیں مل پاتا۔ حکومت کی خامیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ مگر عوام بھی تو اپنا جائزہ لیں، شدید لاپروائی پر مبنی طرزِ فکر و عمل ترک کریں اور بھرپور دانائی سے کام لیتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی روش اپنائیں۔
کھانے پینے کے معاملات کا بھی یہی حال ہے۔ لوگ جسم کو توانائی بخشنے کے نقطۂ نظر کو تج کر صرف چٹخارے پر مر مٹنے کے عادی ہیں۔ عام آدمی کو اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ جو کچھ وہ کھارہا ہے وہ جسم کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سارا زور چٹخارے پر ہے۔ لوگ پیٹ کی ضرورت پر زبان کی ضرورت کو ترجیح دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ لذیذ چیزیں کھانے کے عادی ہوکر لوگ یہ بات یکسر بھول چکے ہیں کہ کھانے کا انتہائی بنیادی مقصد جسم کو توانائی اور فرحت پہنچانا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کھانا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ بالکل اِسی طور سوشل لائف کے نام پر کہیں بیٹھ کر لاحاصل باتیں کرنے سے دل و دماغ کو ذرا سی بھی تقویت نہیں ملتی۔ مسائل کا حل تلاش یا تجویز کرنے کے بجائے فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بعد لوگ دامن جھاڑ کر گھر کو چل دیتے ہیں۔ لوگ حکومت سے بہت کچھ طلب کرتے ہیں۔ درست مگر اپنے حصے کا کام بھی تو کریں۔ زندگی سی نعمت کی قدر کرتے ہوئے ایسے تمام کاموں سے بچیں جن کے نتیجے میں زندگی کا معیار ہی نہیں، بقا بھی داؤ پر لگ سکتی ہو۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے ذہن کو بروئے کار لانا ایسے وقت ترک کیا ہے جب اُس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔