"MIK" (space) message & send to 7575

دیکھا دیکھی نہیں چلے گی

ہر سال ملک کی نئی نسل کو اِس مرحلے کا سامنا ہوتا ہے۔ ایس ایس سی یعنی میٹرک میں کامیابی کے بعد کسی خاص شعبے کے تعین کا مرحلہ آتا ہے۔ ہر طالب علم کو طے کرنا ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے۔ یہیں سے پوری زندگی کی راہ متعین ہوتی ہے۔ علم و فن کی دنیا میں اب تنوع اتنا زیادہ ہے، آپشن اتنے زیادہ ہیں کہ ہر اعتبار سے بہترین شعبے کا انتخاب اچھا خاصا دردِ سر ہوکر رہ گیا ہے۔ بہت سے بچوں کی تو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ وہ کس طرف جائیں۔ اِس اُدھیڑ بُن میں کسی غیر موزوں شعبے کا انتخاب کرنے کے بعد کچھ وقت ضائع کرکے دوسرا شعبہ منتخب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنی پسند اور مزاج کا نہیں نکلتا تو کوئی تیسرا شعبہ منتخب کیا جاتا ہے۔ بہت سوں کی زندگی اِسی نوعیت کی اُدھیڑ بُن کے ہاتھوں ضائع ہو جاتی ہے۔ کیریئر کا انتخاب کرنے کی عمر نکل جائے تو خسارہ پورا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بیشتر پاکستانی نوجوان آج اِسی اُلجھن کے ہاتھوں اپنی زندگی کا تیا پانچا کر رہے ہیں۔ بہت سے معاملات میں وہ مجبور ہوتے ہیں کیونکہ حالات اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
کیریئر کے انتخاب کا مرحلہ غیر معمولی توجہ کا طالب ہے۔ یہ نکتہ ہر نوجوان کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اُسی شعبے میں بھرپور کامیابی والے کیریئر کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے جو اپنی پسند اور مرضی کا ہو۔ دنیا بھر میں یہ چلن عام ہے کہ لوگ اپنے مشاغل کو معاشی سرگرمیوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اضافی دباؤ برداشت نہیں کرنا پڑتا جو معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے جسمانی تھکن کے ساتھ ساتھ ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کیریئر سے متعلق امور کے ماہرین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ کسی بھی نوجوان کو عملی زندگی کی ابتدا کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ اُسی شعبے میں کچھ کرسکتے‘ کامیابی یقینی بناسکتے ہیں جو اُن کی پسند کا ہو اور جس میں کچھ کرنے سے اُن پر غیر ضروری ذہنی دباؤ مرتب نہ ہوتا ہو۔ مشاغل کو معاشی عمل میں تبدیل کرنا انسان کو بہت سی الجھنوں سے بچاتا ہے۔ کام وہی اچھا جس میں دل لگے۔ مشاغل کو کمائی کا ذریعہ یا کیریئر بنانے میں غیر معمولی لطف پوشیدہ ہے۔ یہ بات وہی لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں کو معاشی عمل میں تبدیل کیا ہو یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
کیریئر کا معاملہ سنجیدگی کا بھی طالب ہے۔ معاشی عمل سنجیدگی سے کیا جائے تو زیادہ اور قابلِ رشک نتائج دیتا ہے۔ ہر انسان کو تعلیم کا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی شروع کرنا ہی پڑتی ہے یعنی گزر بسر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ جنہیں والدین سے ترکے میں بہت کچھ ملا ہو وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ رہتے بلکہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ فراغت انسان کو کاہل بنادیتی ہے اور پھر وہ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ زندگی بسر کرنے کے لیے جب کچھ نہ کچھ کرنا ہی ٹھہرا تو کیوں نہ وہ کام کیا جائے تو پسند اور مزاج کے مطابق ہو اور جس کے کرنے سے دل و دماغ پر غیر ضروری یا اضافی بوجھ بھی مرتب نہ ہو؟ اپنی پسند کے شعبے میں جانے اور جان کھپانے سے انسان غیر معمولی راحت محسوس کرتا ہے۔ کام پسند کا ہو تو زیادہ یافت نہ ہونے پر بھی دل خوش رہتا ہے۔ جو کچھ مشاغل کے طور اپنایا گیا ہو وہ اگر کماکر بھی دے تو کیا کہنے! یہ تو وہی مثل ہوئی کہ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام!
فی زمانہ نئی نسل دیکھا دیکھی بھی بہت کچھ کرتی ہے۔ کسی کو اگر کسی شعبے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیکھا جائے تو تمام متعلقہ امور پر غور کیے بغیر اُس شعبے کو اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ کسی نے اگر وہ شعبہ اپنایا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور دیکھا اور سوچا ہوگا۔ بنیادی سوال مزاج کا ہے۔ اگر مزاج کے ہٹ کر کچھ کیا جائے تو انسان مرتے دم اپنے آپ سے شِکوہ کُناں رہتا ہے۔ کیریئر کا معاملہ دیکھی دیکھی والا نہیں۔ اگر کسی کے حلقۂ احباب میں چند افراد نے کوئی خاص شعبہ اپنایا ہے تو اُن کی دیکھا دیکھی اُس شعبے کو نہیں اپنایا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں متعلقہ شعبے میں بہتر انداز سے کام کرنے کے لیے وہ سب کچھ میسر ہو جس کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان کا خاندانی کام ہو۔ اگر کوئی خاندان کسی شعبے میں تین چار نسلوں سے ہو تو ہر نئی نسل کو کیریئر یا کمائی کا ذریعہ منتخب کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ خاندان میں بہت سوں کو وہ کام کرتے دیکھ کر کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ملتی رہتی ہے اور یوں انسان کم از کم مطلوب معیار کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل ہو ہی جاتا ہے۔
نئی نسل کو کیریئر کے حوالے سے غیر معمولی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ والدین اور اساتذہ‘ دونوں ہی کا یہ فرض ہے کہ زندگی کے اِس اہم موڑ پر مؤثر رہنمائی یقینی بنائیں۔ ایس ایس سی کے بعد عملی زندگی کے لیے کوئی مؤثر راہ منتخب کرنا عموماً نئی نسل کے بس میں نہیں ہوتا۔ نوجوانوں کے دلوں میں سو آرزوئیں مچلتی رہتی ہیں، امنگوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں بلکہ یوں کہیے تو زیادہ موزوں ہوگا کہ وہ سب کچھ کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ یقینا نہیں۔ چڑھتی جوانی کہتی ہے کہ دنیا کو اپنی مٹھی میں لے لو۔ دنیا بھر کی نعمتوں اور سہولتوں کو بانہوں میں سمیٹ لینے کی امنگ دل میں انگڑائی لیتی رہتی ہے۔ چڑھتی عمر میں یہ سب بالکل فطری ہے۔ کچھ بھی ناممکن دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ انسان چاہتا ہے کہ آگے بڑھے اور ایک دنیا کو اپنے بس میں کرلے مگر جب وہ عملی زندگی کی ابتدا کرتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات ایسے آسان نہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر شعبے میں ''گلا کاٹ‘‘ مسابقت پائی جاتی ہے۔ بالکل نچلی سطح پر جینا تو کسی بھی شعبے میں ناممکن نہیں۔ کچھ کر دکھانے اور کچھ زیادہ پانے کے لیے البتہ محنتِ شاقّہ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساحل پر کھڑے ہوکر سمندر کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ جب سمندر میں ڈبکی لگانے کا مرحلہ آتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ سوچا تھا وہ محض خواہشات کا عکس تھا۔ حقیقت اور عمل کی دنیا میں سب کچھ بہت الگ نوعیت کا ہے۔
اگر کوئی نوجوان کسی شعبے کو محض اس لیے اپناتا ہے کہ اُس کے چند دوستوں نے وہ شعبہ اپنایا ہے تو وہ اپنے ہی حق میں بُرا کرتا ہے۔ جو کام مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو اور جس کے کرنے میں زیادہ لطف محسوس نہ ہوتا ہو وہ کسی بھی حال میں بھرپور کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ترقی یافتہ دنیا میں اس بات کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے کہ کیریئر کے انتخاب میں مزاج کی موزونیت سب زیادہ قابلِ ترجیح ہونی چاہیے۔ بچوں سے طویل گفتگو کے ذریعے اور مختلف النوع سوالوں کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ دراصل کس شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور دل و دماغ پر زیادہ بوجھ محسوس کیے بغیر کس طور اپنے لیے زندگی بھر کی کامیابی یقینی بناسکتے ہیں۔
ہم مقابلے کی دنیا کا حصہ ہیں۔ مقابلہ تو خیر ہر دور میں رہا ہے؛ تاہم اب معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں نام بنانے کے لیے واقعی اَن تھک محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر غلط شعبہ منتخب کرکے عملی زندگی شروع کردی جائے تو کئی سال بعد راہ تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یوں تب تک کی محنت بالعموم ضائع سمجھی جاتی ہے۔ تعلیم کی طرح کیریئر کے معاملے میں بھی غلط انتخاب اچھی خاصی نفسی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ پختہ عمر میں اگر چار پانچ سال کسی شعبے میں ضائع ہوجائیں تو دل کو زیادہ دکھ پہنچتا ہے۔ فضول کی مشق و مشقت اور نقصان کے احساس سے بچنے کے لیے نئی نسل کو بتانا لازم ہے کہ دیکھا دیکھی نہیں چلے گی‘ کیریئر کے طور پر اُسی راہ پر گامزن ہونے میں دانش مندی ہے جو دل کو بھاتی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں