کسی بھی معاملے کے حد سے گزر جانے پر جو کیفیت رونما ہوا کرتی ہے کچھ ویسی ہی کیفیت سے ہم آج کل دوچار ہیں۔ میرزا نوشہ نے کہا تھا ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
آج اہلِ پاکستان کا مجموعی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ جن معاملات کو درست کرنے کی سعی کرتے کرتے ہم تھک جاتے ہیں اُس سے محظوظ ہونے کی روش پر گامزن ہوجاتے ہیں! یہ بھی نرالی روش ہے۔ دنیا چاہے تو ہم سے یہ چلن مفت سیکھ سکتی ہے۔ ہر مسئلہ اپنی منطقی حد سے گزر کر جب حل کی منزل سے بہت دور ہو جاتا ہے تب ہم اُس سے کھیلنے لگتے ہیں۔ پھر کھیل ہی کھیل میں یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سے دیرینہ اور ہمہ جہت نوعیت کے مسائل ہم سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ملک سو طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ اور بیشتر مسائل ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ اُن کے سلجھنے کی کوئی سبیل نکلتی دکھائی نہیں دیتی۔ قوم قدم قدم پر لڑکھڑا رہی ہے۔ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں کچھ کرنے کی راہ نہیں سُوجھ رہی۔ جب بھی کسی معاشرے کے معاملات منطقی حدود سے گزرنے کے بعد انتہائی الجھ جاتے ہیں تب صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے ... لطف اندوز ہونا!
اگر سرسری طور پر سوچیے تو اور کچھ سُوجھتا بھی تو نہیں۔ حالات ہم پر یوں اثر انداز ہوتے ہیں کہ اُن کے آگے سرِتسلیم خم کرتے ہی بنتی ہے ؎
کھینچ کر تیغ یار آیا ہے / اس گھڑی سر جھکادیئے ہی بنے
بہت سے معاملات میں ہم نے اجتماعی یا قومی سطح پر طے کرلیا ہے کہ سوچیں گے نہ کچھ کریں گے‘ بس حالات کو جیسے ہیں‘ جہاں ہیں کی بنیاد پر قبول کرتے چلے جائیں گے۔ یہ کچھ ویسی ہی کیفیت ہوتی ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا ہے ؎
کچھ اس ادا سے یار نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
ملک کو بہت کچھ درکار ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کیا نہیں درکار۔ مادّی ابتری نے روحانی زبوں حالی کی بھی راہ ہموار کردی ہے۔ ملک کی ایک انتہائی بنیادی اور فوری ضرورت ہے غیر معمولی تحرّک۔ یہ تحرّک کہیں سے آئے گا نہیں‘ ہمیں خود پیدا کرنا ہوگا۔ زندگی کے تقاضے ختم تو کیا ہوں گے‘ کم بھی نہیں ہوتے۔ غیر معمولی تحرّک کے ذریعے ہم زندگی کے تقاضوں کو کماحقہ نبھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے یا قوم نے اگر ترقی کی ہے تو اپنے بل پر۔ علوم و فنون میں بے مثال پیش رفت یقینی بناکر ہی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کرتا‘ متعلقہ افراد اور قوم ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو سَر اٹھاکرچلنے کے قابل بنانے کے لیے جو کچھ کرنا ہے ہمیں کرنا ہے۔ کوئی اور آکر ہمارے لیے یہ کام نہیں کرسکتا۔ اور کسی کو کیا پڑی ہے کہ جو کام ہر حال میں ہمیں کرنا ہے وہ کرے؟ ہاں‘ کوئی ہمیں تحریک و تحرّک کی منزل تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے‘ تھوڑی بہت مادّی یا مالی مدد بھی کرسکتا ہے مگر حتمی تجزیے میں تو اپنے حصے کا کام ہم خود ہی کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ ہم بھول چکے ہیں اور جو کچھ کسی بھی حال میں یاد نہیں رکھنا تھا وہ نہ صرف یہ کہ ہم نے یاد رکھا ہے بلکہ اُسی کے گرد اپنی زندگی کو گرمِ گردش رکھے ہوئے ہیں۔ زندگی سنجیدگی چاہتی ہے اور ہمارا اجتماعی کھلنڈراپن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ وقت کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ مقدر کے چراغوں کی لَو تھرتھرانے لگی ہے۔ ایسے میں غیر معمولی‘ بلکہ مثالی نوعیت کی سنجیدگی درکار ہے تاکہ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کی تفہیم بھی ممکن ہو اور ہم اصلاحِ احوال کے حوالے سے بھی کچھ سوچ سکیں‘ کرسکیں۔
وقت اور حالات کے تقاضوں کو بہت حد تک فراموش اور نظر انداز کرکے قوم اپنے شب و روز اُن سرگرمیوں میں کھپارہی ہے جو ہمیں حقیقت پسندی اور مقصدیت سے بہت دور لے جارہی ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
معاملہ اب بہت آگے جاچکا ہے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ احساسِ زیاں نہیں رہا بلکہ زیاں کو دل بستگی کے سامان میں تبدیل کرلیا گیا ہے!
تیزی سے گزرتا اور بدلتا ہوا وقت ہم سے متقاضی ہے کہ ہم اپنے پورے قومی وجود کا جائزہ لیں‘ اپنے شب و روز کی تفہیم پر متوجہ ہوں‘ زمانے کے تقاضوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آئے اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپنائیں تاکہ زوال و پستی کی طرف سفر ختم ہو اور ہم اپنے فکر و عمل کا قبلہ درست کرکے حقیقت پسندی کے ساتھ اُس روش پر گامزن ہوں جو منزلِ مقصود تک لے جاتی ہو یا لے جانے میں بھرپور معاونت کرتی ہو۔ حالات کی ابتری صرف بڑھ رہی ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری الجھنوں میں اضافہ بھی کر رہا ہے اور پہلے سے موجود الجھنوں کی شدت بھی بڑھا رہا ہے۔ یہ کیفیت اب ناگزیر سی ہے کیونکہ فطری علوم و فنون کی پیش رفت کے اعتبار سے ہم جس مقام پر ہیں وہاں الجھنوں کو بڑھنا ہے‘ بحرانوں کو مزید طاقتور ہونا ہے۔ مشکلات کو کچھ نہیں سمجھنا ہوتا۔ سمجھنا تو ہمیں ہوتا ہے۔ اصلاح پر مائل تو ہمیں ہونا ہے۔ معاملات کی درستی کی فکر ہمیں لاحق ہونی ہے۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ سب کچھ دیکھتے رہنے کی عادت کے ساتھ شاید ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ محترم ظفرؔ اقبال نے خوب کہا ہے ع
بہت ہے شاخِ تماشا‘ شجر نہیں نہ سہی
شجر داؤ پر لگ چکا ہے‘ ہاتھ سے جاتا دکھائی دیتا ہے مگر ہم ہیں کہ جو ایک آدھ شاخ بچ رہی ہے اُس کے تماشے میں مصروف ہیں۔ یہ تماشا کس کام کا ہے یہ سوچنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو جائے تو سبھی کو فکرمند ہونا چاہیے کیونکہ کشتی کے مقدر سے سب کا مقدر وابستہ ہے۔ کشتی کا وجود داؤ پر لگا تو سمجھ لیجیے سب کا وجود داؤ پر لگا۔ ایسی حالت میں اگر کشتی میں بیٹھا ہوا کوئی شخص کشتی کی دگرگوں حالت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے؟ یا ہونا چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ اس کی سِرے سے کوئی گنجائش نہیں۔ کسی کشتی کی خراب حالت سے اگر اُس میں سوار کوئی شخص محظوظ ہو رہا ہو اور اِس بات کو چھپا بھی نہ رہا ہو تو اُسے کشتی میں سوار دیگر افراد کی طرف سے شدید ردِعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہم بچ رہنے والی شاخ کو تماشا بنانے پر خوش ہیں۔ ملک و قوم کے معاملات میں ہمیں آنکھ بن جانا چاہیے۔ہم ایک قوم یا معاشرے کی حیثیت سے کس حالت سے دوچار ہیں یا جس مرحلے سے گزر رہے ہیں اُس کا بدیہی تقاضا ہے کہ غیر معمولی‘ بلکہ مثالی نوعیت کی سنجیدگی اپنائی جائے‘ سوچ جائے‘ منصوبہ سازی کی جائے‘ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے‘ علم و عمل کو محض پروان نہ چڑھایا جائے بلکہ اُن میں توازن بھی پیدا کیا جائے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بالکل اور بروقت ہے۔ دنیا کی ہر قوم یہی تو کرتی ہے۔ کوئی بھی کسی اور کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح نہیں دیتا۔ یہ کام انفرادی سطح پر ہوتا ہے نہ اجتماعی سطح پر۔ اور یہی قرینِ دانش ہے۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی بربادی کو واقع ہوتے دیکھ کر بھی عبرت پکڑ رہے ہیں نہ اصلاح کے حوالے سے کچھ سوچنے پر مائل ہیں۔ محض تماشا دیکھتے رہنے کی کیفیت ختم ہونی چاہیے۔ وقت چاہتا ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں۔ اپنی پستی یا زوال سے محظوظ ہونا ذہن کی کجی ہے۔ یہ کجی ہمارے پورے اجتماعی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
معاشرے کو درستی کی راہ پر لے جانے کے لیے اُن کی خدمات درکار ہیں جنہیں اللہ نے دیدۂ بینا عطا کی ہے اور جو حالات کی روش کی تفہیم کے ذریعے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لوگوں کی بھرپور راہ نمائی کرسکتے ہیں۔ اس نیک کام میں تساہل چلے گا نہ تاخیر ۔