"MIK" (space) message & send to 7575

دُورکے ڈھول

دنیا بھر میں شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دیہات سے ملحق شہری علاقوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دیہی علاقوں کی آبادی میں تیزی سے رونما ہونے والی کمی کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے بیشتر دیہی علاقوں میں معاش کے ذرائع محدود ہیں۔ میڈیا پر شہری علاقوں کی چکا چوند دیکھ کر دیہی علاقوں کے رہنے والے بھی اچھی اور پُرآسائش زندگی کا خواب دیکھنے لگتے ہیں اور پھر اُنہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ خواب اگر شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے تو صرف شہروں میں۔ یہی سبب ہے کہ دیہی علاقوں سے آکر شہروں میں آباد ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ تو رہی ہے مگر وہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث لوگ شدید مشکلات کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی ہی کی مثال لیجیے۔ ملک بھر سے لوگ یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ لوگ کام کے سلسلے میں آتے تھے اور اہلِ خانہ کو آبائی علاقوں ہی میں رکھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی خرابیاں بڑھتی تھیں۔ کراچی کی روز افزوں وسعت معاش کے ذرائع کو بھی بہتر بنارہی ہے جس کے نتیجے میں یہاں آکر آباد ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ چند برس سے اہلِ خانہ کو ساتھ رکھنے کا رجحان بھی پروان چڑھا ہے۔ اس کے نتیجے میں شہر کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچا جوں کا توں ہے اور اُس پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں زندگی کا عمومی معیار نہ گرے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
یہی حال لاہور کا ہے۔ لاہور سے کئی دیہی علاقے جُڑے ہوئے ہیں جہاں سے لوگ کام کے سلسلے میں یومیہ بنیاد پر لاہور آتے ہیں۔ یومیہ اپ ڈاؤن جن سے برداشت نہیں ہو پاتا وہ کسی نہ کسی طور لاہور ہی میں آباد ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لاہور کی آبادی بھی بے ہنگم طور پر بڑھ رہی ہے۔ بنیادی سہولتوں کا کماحقہ اہتمام کرنے میں اب تک ناکامی کا سامنا ہے۔ معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اخلاقی زوال بھی حیرت انگیز نہیں۔
کراچی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس پر ملک بھر کی معیشت کا مدار ہے۔ ملک بھر سے لوگ بہتر معاشی امکانات کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اُن کی آمد سے شہر کو افرادی قوت تو ملتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سندھ کے چھوٹے شہروں پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ آس پاس کے دیہی علاقوں سے لوگ آکر ان چھوٹے شہروں میں آباد ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان شہروں کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پھر بھی چھوٹے شہروں کی نسبت کراچی کی آبادی میں ہونے والا اضافہ بہت زیادہ ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناتے کراچی میں روزگار کے ذرائع بہت زیادہ اور متنوع ہیں اس لیے ملک بھر سے افرادی قوت کِھنچ کر یہاں آتی ہے۔
وفاقی حکومت کچھ سوچتی ہے نہ صوبائی حکومتوں کو اس بات کا کچھ احساس ہے کہ شہروں کی آبادی میں تیز رفتار اضافہ انتہائی خطرناک ہے۔ ایک طرف تو شہروں کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کی طے کی ہوئی ٹاؤن پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی شہروں کو کچھ کا کچھ بنادیتی ہے۔ کراچی کا بے ہنگم پھیلاؤ اس کی واضح مثال ہے۔ شہرِ قائد کی صرف آبادی نہیں بڑھی بلکہ رقبے میں بھی اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اب کوئی ایک ادارہ اس شہر کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ کے ایم سی کے بس میں بظاہر کچھ بھی نہیں۔ کے ڈی اے کی ذیلی تقسیم ہوچکی ہے۔ کئی ادارے مل کر کام کر رہے ہیں مگر پھر بھی شہر کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔
دیہی علاقوں میں زندگی آج بھی خاصی پُرسکون ہے۔ چھوٹے شہر بھی بہت اچھی حالت میں ہیں کیونکہ اُن کا رقبہ زیادہ ہے نہ آبادی۔ چھوٹے شہروں کی آبادی بڑھ تو رہی ہے مگر میگا سٹیز کی نسبت ان کا بہت کچھ اب تک قابو میں ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ حیدر آباد‘ ملتان‘ فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں کی آبادی ایسے بے ہنگم انداز سے بڑھ رہی ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی تمام باشندوں کے لیے بنیادی سہولتوں کا احسن طریقے سے اہتمام ممکن نہیں ہو پارہا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ جب بھی ٹاؤن پلاننگ کی جاتی ہے‘ چند ہی برس میں شہر کی آبادی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ٹاؤن پلاننگ غیر متعلق ہوکر رہ جاتی ہے۔
دنیا بھر میں دیہی علاقوں سے نقلِ مکانی کرکے بڑے شہروں میں آباد ہونے والوں کے لیے زندگی کا معاملہ دُور کے ڈھول سہانے جیسا ہو رہتا ہے۔ بڑے شہروں میں رہنا ذریعۂ معاش کی تلاش میں تو معاون ثابت ہوتا ہے مگر دیگر بہت سے معاملات میں صرف خرابیاں ہاتھ آتی ہیں۔ بڑے شہروں میں عام آدمی کو روزگار تو مل سکتا ہے‘ بنیادی سہولتوں کے معاملے میں اُسے الجھنوں ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام شدید دباؤ کے تحت سب کی ضرورتیں پوری نہیں کر پاتا۔ یہی سبب ہے کہ ہر بڑے شہر میں بعض علاقے انتہائی پست معیار کی زندگی کے حامل ہوتے ہیں۔ کراچی میں بھی کئی علاقے کم آمدنی والے افراد کا مسکن ہیں اور بنیادی سہولتوں اور آسائشوں سے محروم ہیں۔ عام آدمی دن رات ایک کرکے صرف زندہ رہنے کی قیمت ادا کر پاتا ہے۔ مکانات کے کرائے‘ کام پر جانے اور واپس آنے پر روزانہ خرچ ہونے والی رقم اور دیگر بنیادی اخراجات ہی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اِس سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کی ہمت کم ہی لوگوں میں پیدا ہو پاتی ہے۔
بہت سوں کو اس حال میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی گاؤں یا چھوٹے شہر میں اچھی خاصی پُرسکون زندگی کو تج کر بڑے شہر کا رخ کرتے ہیں اور پھر اُن کی زندگی متوازن نہیں رہ پاتی۔ بڑے شہر میں زندگی بسر کرنے کا خواب کبھی کبھی جنون کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور انسان سوچے سمجھے بغیر کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھتا ہے جو بعد میں طویل مدت تک پچھتاوے کا باعث بنا رہتا ہے۔ یہ ذمہ داری تو ہر سطح کی حکومت کی ہے کہ عوام کو اُن کے گھر کے نزدیک روزگار کی سہولت دے۔ بنیادی سہولتیں اگر آسانی سے میسر ہوں تو کوئی کیوں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کسی دور افتادہ شہر میں آباد ہونے پر مجبور ہوگا؟ لوگ معاشی امکانات تلاش کرنے کے لیے پہلے چھوٹے اور پھر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ بہتر معاشی امکانات گھروں کے نزدیک ممکن بنانے سے معاشرتی خرابیوں کو بھی معقول حد تک قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے شہروں کو بے طور پھیلنے اور بگڑنے سے روکنا ممکن ہوتا ہے۔
کراچی‘ لاہور اور دیگر بڑے شہروں پر آبادی میں اضافے کے حوالے سے جو دباؤ مرتب ہو رہا ہے اُسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ دیہی علاقوں کو بھی معیاری بنیادی سہولتیں دی جائیں تاکہ لوگ اپنے آبائی علاقوں میں رہتے ہوئے ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ چھوٹے شہروں کو معیاری منصوبہ بندی کے ذریعے بخوبی چلایا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں سے نقلِ مکانی کا سلسلہ اگر تیز ہو جائے تو بہت سے شہری علاقے شدید دباؤ میں رہتے ہیں۔ بڑے شہروں میں معاشی امکانات تو ہوتے ہیں مگر لوگ اِن میں رہتے ہوئے صرف زندہ رہنے کی قیمت چُکانے ہی میں اَدھ مُوئے ہو جاتے ہیں۔ کمزور مالی حیثیت والوں کے لیے بڑے شہر دُور کے ڈھول ہوتے ہیں۔ دُور سے سب کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔
مختلف سطحوں کی حکومت کو ٹاؤن پلاننگ پر غیر معمولی توجہ دینی چاہیے تاکہ لوگ بہتر معیارِ زندگی یقینی بنانے کی کوشش میں اپنا سُکون داؤ پر لگانے کے مرحلے سے نہ گزریں۔ چھوٹے شہروں میں معیاری منصوبہ بندی ناگزیر ہے تاکہ بڑے شہروں کی طرف نقلِ مکانی کا رجحان کمزور پڑے اور لوگ آبائی علاقوں میں معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں