"MIK" (space) message & send to 7575

کون کہاں کھڑا ہے؟

کورونا کی وباء نے وہ گُل کھلا ہی دیے جن کا خدشہ تھا۔ گزشتہ برس دنیا پر چھا جانے والی وبا نے متعدد ممالک کو انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ کورونا کی وبا کے حوالے سے شکوک و شبہات کا ابتدا ہی سے اظہار کیا جارہا تھا۔ بہت سوں کا یہ خیال تھا کہ بڑی طاقتیں اپنے بعض مقاصد حاصل کرنے کے لیے عالمی وبا کا جال پھیلا رہی ہیں۔ جس دن سے کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں سر اٹھایا ہے‘ اُسی دن سے قیاس آرائی کا بازار بھی گرم ہونا شروع ہو گیا۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اٹکل کے گھوڑے دوڑاکر کورونا کے بارے میں بہت کچھ بتانے کی کوشش کی۔ کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام۔ اس وبا کے حوالے سے منفی رپورٹنگ اور تجزیہ کاری ابتدا ہی سے اس قدر ہوئی کہ بعد میں معاملات کو مختلف زاویوں سے دیکھا جانے لگا۔ قصہ مختصر، کورونا کی وبا نے جو ستم ڈھائے ہیں اُن میں معاشی اور مالیاتی ستم زیادہ نمایاں ہیں۔ متعدد ممالک نے اس وبا کے ہاتھوں بہت کچھ سہا۔ ترقی یافتہ دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ابتدا میں یہ کہا گیا کہ ترقی یافتہ دنیا نے کورونا کے ذریعے کمزور اور پسماندہ ممالک کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ پھر جب ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس وبا نے سر اٹھایا اور لوگوں کو تگنی کا ناچ نچایا تب لوگوں کو یقین آیا کہ معاملات وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس وبا نے بہت سے ممالک پر غیر معمولی معاشی، مالیاتی، سیاسی اور ثقافتی اثرات مرتب کیے ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو الجھنوں سے دوچار ہونا پڑا‘ ترقی یافتہ دنیا کی معیشتیں بھی الجھ کر رہ گئیں۔ امریکا اور یورپ نے کورونا کا عذاب اس انداز سے جھیلا کہ دنیا دیکھ کر ڈر گئی۔ یورپ میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرم ناک تھا۔ وہاں اٹلی اور دیگر ممالک میں معمر افراد کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ کچھ کچھ ایسا ہی بھارت میں بھی ہوا۔ وہاں بھی لوگ ایسے بدحواس ہوئے کہ اپنی تمام اخلاقی اور ثقافتی اقدار بھول بھال گئے۔ بھارت میں معمر افراد کو گھر کا اہم فرد سمجھا جاتا ہے مگر جب کورونا نے زور پکڑا تب لوگ ایسے بدحواس ہوئے کہ معمر افراد کا خیال رکھنا بھی بھول گئے۔ بہت سوں نے اہلِ خانہ سے ترکِ تعلق کو ترجیح دی۔ اڑوس پڑوس میں اگر کوئی کورونا کا مریض ہوتا تو اُس سے مکمل ترکِ تعلق کرنے میںکوئی قباحت محسوس نہ کی جاتی۔ تبلیغی جماعت کے ارکان پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کرکے مسلمانوں کو مطعون کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔
کورونا کی وبا کے ہاتھوں دنیا بھر کے ممالک کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں مجموعی طاقت کا کمزور پڑ جانا کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ بڑی طاقتوں کے لیے بھی ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ اُن کے لیے اپنی مجموعی طاقت برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ امریکا، چین اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی طاقت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ آسٹریلیا کے لووی انسٹیٹیوٹ نے ایشین پاور انڈیکس مرتب کرکے بتایا ہے کہ متعدد ممالک کی طاقت میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ لووی انسٹیٹیوٹ نے 26 ممالک کا جائزہ لے کر آٹھ مختلف زاویوں سے اُن کی طاقت کا اندازہ لگایا اور پھر جو درجہ بندی کی اُس کے تحت طاقت کے اعتبار سے ایشیائی معاملات میں امریکا اب بھی پہلے نمبر پر ہے۔ وہ معاشی، مالیاتی، ثقافتی، عسکری، تکنیکی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی مضبوط ہے اور کسی بھی ملک میں اُس کی مجموعی طاقت اور اثر و رسوخ کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوسکی۔
ایشیا میں اثر و رسوخ کے اعتبار سے چین دوسرے نمبر پر ہے۔ اُس کی معیشت خاصی مضبوط ہے اور اب وہ عسکری اعتبار سے بھی مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی و سفارتی معاملات میں بھی چین کی پوزیشن اچھی خاصی مضبوط ہے۔ ثقافتی اثرات کے حوالے سے چین اب تک امریکا اور یورپ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چین میں کسی بھی صورتحال کا پامردی سے سامنا کرنے کی بھرپور صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے۔ جاپان تیسرے نمبر پر ہے۔ وہ معاشی قوت سے آگے کچھ دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ چین کی طرح جاپانی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ تکنیکی اور معاشی میدان میں برتری برقرار رکھی جائے۔ یہی سبب ہے کہ سیاست و سفارت اور عسکری قوت کے حوالے سے جاپان ہمیں کہیں بھی کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔ یورپ کی طرح اُس نے بھی دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس بات کو ترجیح دی کہ اُس کی حفاظت کی ذمہ داری امریکا قبول کرے اور اِس کے عوض جو چاہے وصول کرے۔ یورپ اور چین کی حقیقی طاقت کتنی ہے‘ اِس کا اندازہ لگانا دشوار ہے کیونکہ بہت سے معاملات مختلف پردوں میں ہوتے ہیں جنہیں آسانی سے دیکھا اور سمجھا نہیں جاسکتا۔ ایشین پاور انڈیکس میں بھارت کا نمبر چوتھا ہے۔ بلند بانگ دعووں کے باوجود بھارت ایشیا کی سطح پر اپنے آپ کو چین کے برابر لانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکا، چین اور جاپان کے مقابل اُسے اب بھی نیچا دیکھنا پڑ رہا ہے۔
ایشین پاور انڈیکس مرتب کرنے کے لیے معیشتی استحکام، عسکری قوت، کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کی صلاحیت، مستقبل کی متوقع تبدیلیوں سے بطریقِ احسن نمٹنے کی صلاحیت و سکت، بیرونی دنیا سے معاشی تعلقات، اپنے تمام معاملات کی نگرانی کے مؤثر نظام، سیاسی و سفارتی معاملات اور ثقافتی اثرات کا باریکی بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان آٹھ عوامل کی بنیاد پر کسی بھی ملک کی حقیقی مجموعی قوت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایشیا میں کون کہاں کھڑا ہے۔ یہ بات شرم ناک بھی ہے اور باعثِ تشویش بھی کہ امریکا اب تک ایشیا میں سب سے بڑھ کر طاقت کا حامل ہے۔ اُس نے یورپ کے ساتھ مل کر پوری دنیا کو مٹھی میں بند رکھنے کا جو منصوبہ تیار کیا تھا وہ نصف صدی گزرنے پر بھی برقرار ہے۔ یورپ پیچھے ہٹ چکا ہے مگر امریکا ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکی قیادت سمجھتی ہے کہ دنیا پر راج کرنے کا زمانہ گیا نہیں۔ یورپ نے بہت سے معاملات میں باقی دنیا سے اپنے معاملات کو معمول کی سطح پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی طاقتیں اب کسی ملک یا خطے پر چڑھ دوڑنے اور اُسے دبوچ کر اپنی جیب بھرنے کی پالیسی کو بہت حد تک ترک کرچکی ہیں مگر امریکا ایسا کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ایشین پاور انڈیکس دکھا رہا ہے کہ امریکا اب بھی اس خطے کے سینے میں گڑے ہوئے اپنے پنجے نکالنے کے لیے تیار نہیں۔ اِس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ امریکی پالیسی میکرز اپنے مہروں اور پیادوں کے ذریعے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکا نے حاشیہ بردار پال رکھے ہیں۔ انفرادی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایشیا کے بہت سے حکمران اپنے قومی مفادات بھی امریکا کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔تاریخ اِس کی گواہ ہے۔
ایشیا میں زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پہلے یہ دوڑ چین اور جاپان کے درمیان تھی۔ اب بھارت بھی اس دوڑ میں شریک ہے۔ وہ بڑی منڈی اور مربوط معیشت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایسے میں خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی چیلنجز ابھر رہے ہیں۔ اُن کے پالیسی میکرز کو بہت کچھ سوچنا ہے تاکہ یہ طے ہوسکے کہ طاقت کی دوڑ میں شریک ہونے اور آگے نکلنے والوں میں سے کس کے ساتھ رہا جائے اور کس طور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کی دوڑ میں بھارت خطے کے بیشتر ممالک یعنی پڑوسیوں کو دبوچ کر رکھنے کے درپے ہے۔ وہ علاقائی چودھری بننے کے فراق میں ہے۔ چین جب تک خاموش بیٹھا تھا تب یہ موقع بھارت کے پاس تھا۔ اب مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ چین عالمی سطح پر نمبر ون بننے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کی دال مشکل ہی سے گل پائے گی۔ ایسی حالت میں پاکستان جیسے ممالک کو بھی ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے تاکہ بقا کے ساتھ ساتھ خوش حالی بھی یقینی بنائی جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں