کسی بھی طالبعلم کے لیے پرسنٹیج بہت اہمیت رکھتی ہے۔ امتحانی نتیجہ جاری کیے جانے پر پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ پرسنٹیج کیا آئی ہے۔ یہ سوال اس لیے کیا جاتا ہے کہ اب پورا ماحول صرف پرسنٹیج کی بات کرتا ہے۔ اگلی جماعت میں داخلہ بھی پرسنٹیج کی بنیاد ہی پر ملتا ہے۔ طلبہ و طالبات کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ پرسنٹیج زیادہ سے زیادہ آئے۔ اِس خواہش کا حامل ہونے میں اُن کا کوئی قصور نہیں۔ والدین بھی اس حوالے سے قصور وار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے زیادہ پرسنٹیج کے ساتھ کامیاب ہوں۔ کیا پرسنٹیج واقعی ایسا معاملہ ہے جس کے ساتھ زندگی بسر کی جائے؟ کیا پرسنٹیج ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کون کتنا اہل اور اہم ہے؟ کیا ہم زندگی بھر ایسے لوگوں ہی کو کامیاب دیکھتے ہیں جن کا تعلیمی کیریئر شاندار رہا ہو؟ کیا تعلیمی اداروں میں معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بالعموم ناکام رہتے ہیں؟ ان تمام سوالوں پر غور کرنا لازم ہے کیونکہ یہ تمام سوال طلبہ و طالبات کی پوری زندگی کے ممکنہ نقشے کا احاطہ کرتے ہیں۔
اساتذہ کا بنیادی کام طلبہ و طالبات کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ جو لوگ سکول نہیں جاتے وہ بھی کچھ نہ کچھ کما ہی لیتے ہیں اور زندگی بسر ہو ہی جاتی ہے۔ کسی بھی بچے کو سکول اصلاً اس لیے نہیں بھیجا جاتا کہ اُسے کمانا سکھایا جائے۔ انسان کمانا تو اپنے طور پر سیکھ ہی لیتا ہے۔ سکول سمیت ہر سطح کے تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد انسان کو معیاری زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ معیاری زندگی سے مراد یہ ہے کہ انسان بیشتر معاملات میں متوازن طرزِ فکر و عمل کے ساتھ زندہ رہے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے نافع ثابت ہو۔ یہ کام والدین اور اساتذہ‘ دونوں کو مل کر کرنا ہے۔ والدین ساری ذمہ داری اساتذہ کے کاندھوں پر نہیں ڈال سکتے۔ بچہ سکول میں محض چند گھنٹے گزارتا ہے۔ باقی وقت تو وہ والدین ہی کے پاس ہوتا ہے۔ گھر میں گزارا جانے والا وقت ہی بچے کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اساتذہ کا بنیادی کام بچوں کو سکھانا کم اور اَن سیکھا کرنا زیادہ ہے۔ ماحول بچوں کے ذہن کے پیالے میں بہت کچھ انڈیلتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بچوں کو بہت سے معاملات میں الجھا دیتا ہے۔ وہ پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے پاتے اور عملی زندگی کے لیے بھی خود کو بہتر طور پر تیار نہیں کر پاتے۔ اساتذہ بچوں کے ذہن سے غیر ضروری معاملات کو نکالنے میں کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی پڑھاتے اور سکھاتے ہیں وہ باقی زندگی کے لیے بچوں کے ذہن کا حصہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں ابتدائی سطح کی جماعتوں کے لیے انتہائی قابل اساتذہ متعین کیے جاتے ہیں اور اُن کا مشاہرہ بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آج تک بچوں کی ابتدائی تعلیم کو اہمیت دینے کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائی چار پانچ سال کی تعلیم تو بس ایسے ہی ہوتی ہے‘ اور بچہ جب نویں، دسویں میں پہنچے تب اُس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ بچہ کیا بنے گا‘ کیا کرے گا اِس کا تعین ابتدائی برسوں کے دوران ہی ہو جاتا ہے۔ اگر تعلیم کی بنیاد ہی کمزور ہو تو بڑی جماعتوں میں بچہ کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔
کسی بھی بچے پر یہ بڑا ظلم ہے کہ اُسے خاص تناسب سے کامیابی کا پابند کردیا جائے۔ پرسنٹیج کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کسی بھی طالبعلم کی کارکردگی اور اہلیت جانچنے کا اب ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے پرسنٹیج۔ کیا واقعی پرسنٹیج کسی بھی طالب علم کی حقیقی اہلیت کی طرف اشارہ کرنے والی چیز ہے؟ جو بچے بلند پرسنٹیج کے ساتھ کامیاب نہیں ہو پاتے کیا ہم اُنہیں ناکام قرار دے دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پرسنٹیج کیسا ہی قابلِ تعریف معاملہ سہی، کسی بھی طالبعلم کی اہلیت جانچنے کا حقیقی معیار اور پیمانہ نہیں۔ اگرچہ پرسنٹیج قابلیت کو ظاہر کرتی ہے مگر بہت سے کیسز میں یہ صرف رَٹے کا کمال ہوتی ہے۔ جو جتنا زیادہ رَٹ سکتا ہے وہ اُتنی زیادہ پرسنٹیج لاسکتا ہے۔ بہت سے طلبہ و طالبات کا یہ حال ہے کہ پرسنٹیج تو وہ 90 فیصد سے بھی زیادہ لے آتے ہیں مگر جب اُن سے زبانی پوچھا جائے تو وہ تشریح نہیں کر پاتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی بچہ اپنے موضوع کو بہتر طور پر سمجھے بغیر محض حافظے کی بنیاد پر کامیابی حاصل کر رہا ہو۔ ایسی حالت میں معیاری زندگی کی بنیاد نہیں پڑتی۔ رَٹنے سے اچھی پرسنٹیج تو آسکتی ہے مگر معیاری اور کامیاب زندگی یقینی بنانے کی زیادہ گنجائش پیدا نہیں ہوتی۔
فی زمانہ پرسنٹیج کا معاملہ اِتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اِسے سٹیٹس سمبل کے طور پر لیا جارہا ہے۔ والدین یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے بچے کی پرسنٹیج نائنٹی پلس ہے۔ امتحانی نتیجہ جاری کیے جانے کے بعد پرسنٹیج بتانے کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ والدین اس معاملے میں اِتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ جن بچوں کی پرسنٹیج کافی کم ہو وہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کوئی پرسنٹیج دریافت کرے تو وہ شرم کے مارے بتانے سے گریز کرتے ہیں یا پھر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو پرسنٹیج کی بھول بھلیّاں میں پھنسادیا ہے۔ کسی بھی طالبعلم کی قابلیت کو محض پرسنٹیج کے پیمانے سے نہیں جانچا جاسکتا۔ پرسنٹیج بہت حد تک حافظے کا پتا دیتی ہے۔ معروضی نوعیت کے سوالوں اور چار آپشنز میں سے ایک منتخب کرنے کے اِس دور میں تو معاملہ اور بھی الجھ گیا ہے۔ اب بچے جانتے ہیں کہ چند چیزوں کو اچھی طرح رَٹنے سے بھی بلند پرسنٹیج مل سکتی ہے۔ جب ایسا ممکن ہے تو کسی بھی مضمون یا موضوع پر محنت کون کرے‘ دماغ کون کھپائے؟
والدین کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ پرسنٹیج داخلے کی ایک بنیادی ضرورت کے طور پر تو واقعی اہم ہے مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ بچہ واقعی ذہین ہے۔ ذہانت اور قابلیت تو یہ ہے کہ بچہ مستقبل کے حوالے سے خود کو ڈھنگ سے تیار کرنے کے بارے میں سوچے اور اپنے ماحول کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے انہیں نبھانے پر متوجہ ہو۔ بچے کو مستقبل کے لیے بہتر طور پر تیار کرنے میں ماحول کا کردار بھی کم اہم نہیں۔ اگر ماحول میں پرسنٹیج کی اہمیت زیادہ جتائی جاتی ہو تو بچہ لامحالہ یہی سوچے گا کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ پرسنٹیج لائے تاکہ لوگوں کے منہ بند ہو سکیں۔ ایسی حالت میں پرسنٹیج کا مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے مگر قابلیت کا مسئلہ کیونکر حل کیا جائے؟ عملی زندگی محض امتحانی نتائج کی بنیاد پر سب کچھ نہیں دیتی۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سکول اور کالج میں قابلِ رشک نمبر لانے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں مگر جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تب ''ر‘‘ نکل جاتا ہے اور اُن کی کارکردگی ''قابلِ شک‘‘ رہ جاتی ہے!
کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اُس میں ذہانت بھی ہونی چاہیے، معاملات کو بیان کرنے کی طاقت بھی ہونی چاہیے، دباؤ کے تحت کام کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی لازم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوسروں کی رہنمائی بھی کرسکتا ہو۔ محض اچھے نمبروں کی بنیاد پر زندگی کامیابی سے نہیں گزاری جاسکتی۔ کامیاب زندگی انسان سے معاملہ فہمی بھی چاہتی ہے اور مستقل مزاجی بھی۔ محض گریڈز کسی بھی انسان کی معاملہ فہمی یا مستقل مزاجی کو ثابت نہیں کرتی۔ کامیاب وہی رہتے ہیں جو موقع کی مناسبت سے سوچنے اور سمجھنے کے عادی ہوں۔ صورتِ حال کے تقاضے امتحانی نتائج کی بنیاد پر نہیں نبھائے جاسکتے۔ ہم زندگی بھر اِسی گمان کا شکار رہتے ہیں کہ شاندار تعلیمی کیریئر بلند پرسنٹیج کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے۔ یہ بات والدین کو کسی بھی مرحلے پر بھولنی نہیں چاہیے کہ گریڈز اور نمبروں کو زیادہ اہمیت دے کر وہ اپنے بچوں میں احساسِ کمتری کا بیج بو دیتے ہیں۔ بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ پرسنٹیج سب کچھ نہیں۔ زندگی مہارت اور قوتِ عمل مانگتی ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو اپنے پورے وجود کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا جانتے ہیں۔