"MIK" (space) message & send to 7575

نہ بڑھک‘ نہ وعدے

دو برس کے دوران کورونا کی وبا نے جو ستم ڈھائے ہیں اُن کے نتیجے میں ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ہر حکومت پریشان ہے اور بجا طور پر پریشان بھی۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو کچھ کرنا پڑا وہ معیشت اور معاشرت‘ دونوں کے لیے انتہائی مُضر ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ہاتھوں شدید اذیت سے گزرے ہیں۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے کی کوششوں نے حکومتوں کو دیگر اہم امور پر متوجہ رہنے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ یہ ممکن ہی نہ تھا۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کے شدید منفی اثرات سے کوئی بھی ملک یا خطہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ پسماندہ ممالک کی تو خیر بات ہی کیا‘ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی الجھنوں سے دوچار رہے اور مکمل بحالی کی منزل اب تک نہیں آئی۔ امریکا اور یورپ کے حوالے سے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہاں صحتِ عامہ پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے اور بیشتر معاملات میں باقی دنیا اُن کی ہمسر نہیں ہوسکتی مگر کورونا کی وبا نے امریکا اور یورپ کو بھی درست حالت میں نہ رہنے دیا۔ دونوں خطوں میں عام آدمی کی صحت کے حوالے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوئیں‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔ دونوں ہی خطوں میں جب کورونا کی وبا بے لگام ہوئی تو عام آدمی کی جان پر بن آئی اور بالخصوص ڈھلتی عمر کے لوگوں کے لیے یہ قدرت کا قہر ثابت ہوئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ باقی دنیا کی طرح ہمارا خطہ اور ہمارا ملک بھی کورونا کی وبا سے شدید متاثر ہوا۔ پاکستان میں کورونا کے ہاتھوں زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں اور اب بھی معاملات بہت حد تک قابو میں ہیں مگر معاملہ یہ ہے کہ کورونا کی روک تھام کے نام پر کیے گئے اقدامات سے معیشت اور معاشرت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جزوی لاک ڈاؤن نے معاشرے کو شدید الجھنوں سے دوچار کیا۔ لوگ گھروں تک محدود و محصور رہنے کے عادی نہیں۔ نئی نسل گھومنے پھرنے کی قائل ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں ہوٹل رات دیر گئے تک آباد رہتے ہیں۔ کراچی میں جب جزوی لاک ڈاؤن لگا تو لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ صحتِ عامہ کا معاملہ اُتنا پیچیدہ نہ تھا جتنا معاشرتِ عامہ کا تھا۔ بیٹھکیں ختم ہوگئیں، محفلیں ویران ہوگئیں۔ یہ سب کچھ عام آدمی کے لیے سوہانِ روح تھا۔
حکومت بھی پریشان رہی ہے کہ کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات کے شدید منفی اثرات کا دائرہ کیونکر محدود رکھا جائے۔ بعض معاملات میں حکومت مجبور تھی۔ بیرونی تجارت کا حجم زیادہ سکڑا تو سپلائی چَین متاثر ہوئی۔ ملک میں بہت سی چیزوں کی قلت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دام بڑھ گئے۔ اس معاملے کا حکومت کی اہلیت یا نا اہلی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سب کچھ تو حالات کا پیدا کردہ تھا۔ برآمدی تجارت متاثر ہوئی تو صنعتکاروں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ ایک طرف خام مال کی درآمد گھٹنے سے لاگت بڑھ گئی اور دوسری طرف برآمدی تجارت گھٹنے سے ملک میں فاضل پیداوار جمع ہوئی۔ بہت سے صنعتی یونٹس کو بند کرنا پڑا۔ اس عمل نے ملک میں بیروزگاری کو بڑھاوا دیا۔ بعض صنعتی یونٹ فعال رکھنے کے لیے چھانٹی لازم ہوگئی۔ اس سے بھی بیروزگاری کا تناسب بڑھا۔ انتظامی معاملات میں ہمارے ہاں اب بھی بہت سی خرابیاں اور پیچیدگیاں برقرار ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں علاقائی و عالمی حالات پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ ہم کوئی جزیرہ نہیں‘ سمندر میں سب کے ساتھ جی رہے ہیں۔ جو کچھ دوسروں کو بھگتنا پڑا ہے وہی کچھ ہمیں بھی بھگتنا پڑا ہے۔ جن مسائل کا دنیا بھر کی حکومتوں کو سامنا رہا ہے وہی مسائل ہمارے ہاں بھی ہر سطح کی حکومت کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ دو برس کے دوران ہر ملک کو بیرونی تجارت کے معاملے میں شدید الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے سخت معیارات قائم کر رکھے ہیں۔ اشیا کی ترسیل بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اِس کے نتیجے میں خام مال کی کمی سے صنعتی عمل متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف فنشڈ گڈز کی کمی سے عام آدمی کو بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کھلے بازار کی معیشت کا اصول یہ ہے کہ جب کسی چیز کی قلت ہوتی ہے اُس کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران یہی ہوا۔ جب رسد متاثر ہوئی تو دام بڑھتے گئے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے بہت سوں کو کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کیا تو اُجرتیں بھی کچھ کی کچھ ہوگئیں۔ پوری دیانت سے جائزہ لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ مجموعی طور پر پورا معاشرہ ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ معاشی الجھنوں نے معاشرتی پیچیدگیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتوں نے اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی خاطر بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ یہ اقدامات اصلاً اس بات کے لیے ہیں کہ کورونا کی پیدا کردہ صورتِ حال معمول کی زندگی پر تادیر اثر انداز نہ رہے اور لوگ اپنے بیشتر معاملات میں صحیح ذہنی حالت کے ساتھ کام کرتے رہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی معاشی خرابیوں کو حکومتوں نے پوری جاں فشانی سے دور کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے جو کچھ بھی کیا گیا وہ نیم دِلانہ رہا۔ معاشی اور معاشرتی خرابیوں سے نجات پانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا تھا وہ اول تو پوری طرح کیا نہیں گیا اور جو کچھ کیا گیا اُس میں بھی نیم دِلی صاف دکھائی دی۔ یہ بات افسوس ناک تو ہے، حیرت انگیز نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حکومتی اور انتظامی معاملات ایک زمانے سے شدید پیچیدگیوں اور خرابیوں کی زد میں ہیں۔ افسوس اگر ہے تو صرف اس بات کا کہ ایک طرف تو کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں حکومت میں قابلِ ذکر حد تک اہلیت اور سکت دکھائی نہیں دی اور دوسری طرف اپوزیشن نے بھی حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر وسیع تر قومی مفاد میں معاونت کے بجائے معاندت کو ترجیح دی۔ جس وقت پوری قوم کو متحد اور پُرسکون رکھنے کے لیے حکومت کو اپوزیشن سے تعاون درکار تھا عین اُسی وقت اپوزیشن نے انتہائی قابلِ اعتراض انداز سے صورتِ حال کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ معاملہ قومی مفاد اور عوام کی آسانیوں کا تھا۔ اپوزیشن نے کورونا کی وبا کے دوران درکار سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے سطحی نوعیت کی ذہنیت ظاہر کی اور قومی بحران کی کوکھ سے اپنے مطلب کے نتائج پیدا کرنے پر توجہ دی۔
اب معاملہ یہ ہے کہ کورونا کے نئے ویری اینٹ اومیکرون کے حوالے سے متضاد بیانات آرہے ہیں۔ ایک طرف تو اومیکرون کی لہر کو خطرناک قرار دیا جارہا ہے اور دوسری طرف اِسے بالکل سرسری لیا جارہا ہے۔ کبھی سکول اور کاروباری اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ کرنے سے بھی کام چل جائے گا۔ یہ تضاد بہت عجیب ہے۔ حکومت کو طے کرنا چاہیے کہ کورونا کی نئی لہر سے قوم کو واقعی محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ قوم کی بروقت اور درست رہنمائی لازم ہے۔ قوم وعدوں سے بھی تنگ آچکی ہے اور بڑھکیں بھی اُس نے بہت سُن لیں۔ اب کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ سوال صرف حکومت کی کارکردگی کا نہیں‘ اپوزیشن کو بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ قوم کا بھلا چاہتی ہے۔ ہر معاملے میں صرف احتجاج سے ملک کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو کام کرنے دیا جائے۔ بات بات پر احتجاج کسی کام کا نہیں۔ خالص انتظامی خرابیوں یعنی سسٹم کی چیرہ دستیوں کو حکومت کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ بہت سے معاملات میں افسر شاہی منتخب حکمرانوں کو ڈھنگ سے کام کرنے نہیں دیتی۔ فرنٹ پر چونکہ منتخب حکومت ہوتی ہے اس لیے لوگ اُسی کو گالیاں دے کر اپنے کلیجے ٹھنڈے کر لیتے ہیں۔ انتظامی مشینری یا بیورو کریسی صاف بچ نکلتی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہونا چاہیے۔ محض وعدوں اور دعووں سے کیا ہوگا؟ صرف بڑھکیں کون سی بہتری لے آئیں گی؟ معاشرتی سدھار کی بنیادی شرائط ہیں؛ سنجیدگی اور اخلاص۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں