کورونا کی وبا پر تو جیسے قابو پالیا گیا ہے۔ ماہرین نے دن رات ایک کرکے ویکسین تیار کی جو اب بیشتر ممالک میں اپنے اثرات دکھا رہی ہے۔ ہاں، ایک معاملہ اب تک الجھا ہوا ہے۔ ماہرین اب تک کوئی ایسی ویکسین تیار نہیں کرسکے جو مہنگائی کو وبا کی طرح پھیلنے سے روک سکے! اس حوالے سے شاید اب تک کام بھی شروع نہیں کیا گیا۔ سیدھی سی بات ہے، مہنگائی ایسی وبا ہے جس میں اُن سب کا فائدہ ہی فائدہ ہے جو تحقیق کا بازار گرم کرکے کوئی دوا تیار کرسکتے ہیں۔ وہ بھلا ایسا کیوں کریں گے؟ بڑھتی ہوئی مہنگائی انتہائی مال داروں کو مزید مال دار بناتی ہے۔ وہ تو چاہیں گے کہ مہنگائی کی گڈی اونچی اُڑتی رہے۔
آج بیشتر ممالک کا حال یہ ہے کہ حکومتی و انتظامی مشینری نے کاروباری طبقے کے ساتھ مل کر ایک ایسا جال تیار کیا ہے جس میں باقی پورے ملک کی آبادی مچھلی کی طرح پھنسی تڑپتی رہتی ہے۔ ہر ملک میں اشرافیہ باقی آبادی کو انتہائی نچلی سطح پر زندگی کرنے کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی اس روش کے حوالے سے بُرے انجام سے ڈرایا جاتا رہتا ہے مگر نقارے میں طُوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اشرافیہ تو اپنی جگہ، عام آبادی میں بھی بہت سوں کو مہنگائی سے بظاہر کوئی شکایت نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے۔ ہر معاشرے میں اگر کوئی مہنگائی کی چَکّی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے تو وہ صرف تنخواہ دار طبقہ ہے۔ دکاندار، ٹھیلے والے، پتھارے دار اور سیلف ایمپلائمنٹ والے بھی کسی نہ کسی طور اپنا اپنا اُلّو سیدھا کر ہی لیتے ہیں۔ تنخواہ طبقے کی گردن مہنگائی کے شکنجے میں یوں پھنسی ہے کہ ڈھنگ سے سانس لینا بھی دشوار ہے۔ دنیا بھر میں معاشی اُمور کے تجزیہ کار اور مبصرین حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ عام آدمی کی مشکلات کم کرنے پر متوجہ ہوں۔ بعض حکومتوں نے عام آدمی کے لیے کسی حد تک آسانیاں پیدا کی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پس ماندہ ممالک میں عام آدمی کو پست تر معیار کے ساتھ جینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی حکومتیں ایسا کچھ نہیں کر پارہیں جن سے عام آدمی کے معاملات بہتر بنانے کی کوئی راہ نکلتی ہو۔ زندگی روز بروز دشوار تر ہوئی جاتی ہے۔ یہ تماشا جاری ہے اور کسی سے کچھ نہیں ہو پارہا۔ زندگی کی جنگ ہارے ہوئے معاشرے اُمید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اُن کے بس میں کچھ بھی نہیں رہا۔ اُن کی تقدیر کے فیصلے بہت دور، ترقی یافتہ دنیا کے مراکزِ اقتدار میں ہوتے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل سے یوں باہر آیا ہے کہ اُس میں دوبارہ داخل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ چند ایک حکومتوں نے مہنگائی کو زیرِ دام کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات برآمد ہوا۔ خیر‘ بہت سی حکومتیں اب بھی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ کسی ملک کی حقیقی افرادی قوت عوام ہی تو ہیں۔ اگر وہی کام کرنے کے قابل نہ رہیں گے تو ملک کیسے چلے گا؟ کھلے بازار کی معیشت میں بہت کچھ ایسا ہے جو صرف طاقتور کاروباری اداروں کے حق میں جاتا ہے مگر عام آدمی ہار کر بھی تھوڑا بہت اہم اس لیے ٹھہرتا ہے کہ معیشت کی گاڑی کو بالآخر وہی کھینچتا ہے۔ اگر وہی ہمت ہار کر بیٹھ رہے تو سمجھ لیجیے چل چکی دنیا۔
دنیا بھر میں حکومتوں نے صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے پر تو خوب توجہ دی ہے، مہنگائی کو بہت حد تک نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اور اب اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ عام آدمی کے مسائل حل نہ ہونے سے اُس میں کام کرنے کی لگن بھی کمزور پڑچکی ہے۔ یہ معاملہ زیادہ بگڑے تو معاشرے کے لیے معیاری افرادی قوت کا حصول انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ کاروباری اداروں کا حالات سے فائدہ اٹھانا فطری امر ہے مگر اِس معاملے کی کوئی نہ کوئی منطقی حد ضرور ہونی چاہیے۔ اگر عام آدمی کو دبوچ کر رکھنے کا عمل زیادہ دیر تک جاری رہے تو پورا معاشرہ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں مہنگائی 7 بنیادی عوامل کے ہاتھوں بڑھی ہے۔ اِن عوامل کے حوالے سے معاملات درست کرنے سے بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔
پہلا نمبر ہے توانائی اور ایندھن کے بڑھتے داموں کا۔ کم و بیش ہر معاشرے کو بجلی بھی مہنگی مل رہی ہے اور گاڑیوں کے لیے ایندھن بھی۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام آدمی کو ایندھن مہنگا مل رہا ہے۔ سردی کی غیر معمولی لہر نے یورپ میں گیس کا استعمال بڑھادیا ہے۔ محفوظ ذخائر بھی ٹھکانے لگ گئے ہیں۔ پس ماندہ معاشرے توانائی و ایندھن سے معاملے میں شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مہنگائی کی سطح بلند کرنے میں اشیا کی قلت بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ اشیا کی قلت اس لیے بڑھی ہے کہ دنیا بھر میں‘ کورونا کی وبا کے ہاتھوں‘ ترسیل کا نظام بگڑا ہے۔ رسد کے مقابلے میں طلب زیادہ ہونے سے تمام ہی اشیا کے دام بلند ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی یہ صورتِ حال بہت بری کیفیت سے دوچار کر رہی ہے۔ بعض اشیا کے دام قابو میں رکھنا ممکن ہی نہیں ہو پارہا۔ دنیا بھر میں مہنگائی اِس لیے بھی بڑھی ہے کہ ترسیل کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ ایندھن مہنگا ہونے سے نقل و حمل کے ذرائع کا استعمال بھی مہنگا پڑ رہا ہے۔
کورونا ایس او پیز کے تحت پروازیں کم ہونے سے تجارتی اموال کی ترسیل بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے نتیجے میں کم و بیش ہر معاشرے میں بہت سی اشیا کی قلت پیدا ہوئی۔ قلت پیدا ہوتے ہی اِن اشیا کے دام بڑھ گئے۔ پھر تو سلسلہ ہی چل پڑا۔ بڑھتی ہوئی اُجرتوں نے بھی مہنگائی کو خوب بڑھاوا دیا ہے۔ کورونا ایس او پیز کے تحت متعدد معاشروں میں چھانٹیاں بھی کی گئیں اور بہت سوں کو تنخواہ کے بغیر گھر بٹھادیا گیا۔ افرادی قوت کی منڈی متاثر ہوئی تو آجروں کو صنعتی و تجارتی معاملات معمول پر لانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بیسیوں ممالک میں لاکھوں افراد کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات کے تحت اپنے آبائی علاقوں کو واپس چلے گئے۔ جب صنعتی و تجارتی اداروں کو دوبارہ چلانے کی بات چلی تو افرادی قوت کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ ایسے میں اُجرتوں کا بلند ہونا فطری امر تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران تنخواہوں میں کٹوتی یا اُس مکمل محرومی نے افرادی قوت کو اپنے دام بڑھانے کی تحریک دی۔ اس حوالے سے توازن اب تک پیدا نہیں ہوسکا۔ مہنگائی کی سطح بلند کرنے میں ماحول کو پہنچنے والے نقصان اور موسمی حالات کی پیدا کردہ تباہ کاریوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سمندری طوفانوں سے اشیا کی ترسیل متاثر ہوئی ہے جبکہ بہت سے ممالک میں معمول سے کہیں زیادہ اور کہیں کہیں بے وقت بارشوں نے صنعتی و تجارتی عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ غیر معمولی نوعیت کی موسمی کیفیت سے افرادی قوت کی نقل و حرکت بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کورونا ایس او پیز اور دیگر عوامل کے ہاتھوں تجارت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں نے بھی اشیا کی ترسیل کو متاثر کرکے مزید مہنگائی کی راہ ہموار کی ہے۔ عالمی طاقتوں کی تجارتی سرد جنگ نے بھی ترسیل کو متاثر کیا ہے۔ یوں بعض اوقات اشیا کی مصنوعی سی قلت بھی پیدا ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی بڑھنے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ بہت سے معاشروں میں کورونا کی وبا کے دوران حکومت کی طرف سے دی جانے والی مالی اعانت روک دی گئی ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کی قوتِ خرید گھٹ گئی ہے۔
حکومتوں پر لازم ہے کہ مہنگائی میں اضافہ کرنے والے اِن ساتوں بنیادی عوامل کے پیدا کردہ شدید منفی اثرات سے کماحقہٗ نمٹنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزریں جو وہ کرسکتی ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ معاشی امور کے تجزیہ کاروں کی اجمالی رائے یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اور کچھ کرنے سے پہلے بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں روانی لانا لازم ہے۔ جن کے لیے زندگی میں کچھ خاص کشش اور امید نہیں رہی اُن کے لیے کم از کم مطلوب معیارِ زندگی تو ممکن بنایا جانا ہی چاہیے۔ عام آدمی کا حق ہے کہ حکومتیں اِتنا ضرور کریں کہ وہ سُکون کا سانس لیتے ہوئے جی سکے۔ اِتنا ہوگا تو وہ بلند تر معیارِ زندگی کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوسکے گا۔