"MIK" (space) message & send to 7575

وہ نازک مقام آچکا ہے

تاریخ کے سفر میں ایسے کئی موڑ آئے‘ جب دنیا بدل گئی اور انسان نے ایک نئی راہ کا تعین کیا۔ بیشتر معاملات میں کسی نئی راہ کو مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ معلوم تاریخ کا بڑا حصہ جنگ و جدل اور اُکھاڑ پچھاڑ سے عبارت ہے۔ ہر دور کے انسان نے زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی خاطر کمزوروں کو بے دردی سے کچلا۔ ہر دور میں چند ایک ممالک دوسروں سے زیادہ طاقتور ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید طاقت کے حصول کی طرف یوں گئے کہ اپنے پیچھے صرف تلخ یادیں ہی چھوڑ پائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں فارس (ایران) اور روم دو بڑی اور برابر کی سپر پاور تھیں۔ اِن دونوں نے دنیا کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔ پھر اِن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ہر سپر پاور کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ جب بھی کوئی ریاست بہت طاقت حاصل کرلیتی ہے تو بگاڑ کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ اخلاقی اور روحانی بگاڑ ہر سپر پاور کا مقدر رہا ہے۔ جب سب کچھ آسان ہوچکا ہو تب زندگی کے لیے صرف مشکلات رہ جاتی ہیں۔ اخلاقی اور روحانی اقدار کو بالائے طاق رکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ طاقت گھٹنے لگتی ہے۔ کسی بھی سپر پاور کے لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں۔ کمزور ریاستوں کو دبوچ کر انہوں نے اپنے لیے راحت و عیش کا سامان کیا ہوتا ہے۔ جب معاملہ حد سے گزرتا ہے تب کمزوروں اور مظلوموں کے لیے اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور پھر طاقتوروں کا سب کچھ غارت ہو جاتا ہے۔ ایرانی اور رومی بھی اپنا عہدِ عشرت گزار رہے تھے کہ اللہ نے اُنہیں برباد کرنے کے لیے مسلمانوں کے لشکر بھیج دیے۔
ایرانیوں اور رومیوں کے بعد مسلمانوں کے عروج کا سفر شروع ہوا۔ مسلمان پیش قدمی کرتے کرتے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے دروازے تک پہنچ گئے۔ ہسپانیہ (سپین) پر مسلمانوں نے کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس دورِ حکومت کا ایک بڑا حصہ علم و حکمت کی حکومت سے عبارت رہا۔ مسلمانوں نے اُس عہد کے جدید ترین علوم و فنون میں ایسی مہارت یقینی بنائی کہ ایک دنیا ان کی دیوانی ہوگئی۔ تب یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اہلِ یورپ مسلمانوں کی ترقی کو رشک کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ مسیحیوں کی نئی نسل مسلمانوں کے اطوار اپنانے اور اُن سے جدید ترین علوم و فنون سیکھنے کے لیے بے تاب رہا کرتی تھی۔ یورپ کے بیشتر حصوں میں عربی بولنے کو شرف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یورپ کے لوگ اسلامی دنیا میں آکر آباد ہونے اور ڈھنگ کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ پھر جب مسلمانوں نے اپنے عروج کا زمانہ گزار لیا تب زوال شروع ہوا۔ بہت زیادہ طاقت نے عیاشی اور تن آسانی کو فروغ دیا۔ اِس کے نتیجے میں مسلمان جذبۂ جہد و عمل سے محروم ہوتے گئے اور زندگی اُنہیں زیادہ پیاری دکھائی دینے لگی۔ اِتنی پیاری کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے لڑنے سے بھی گریز کرنے لگے۔ موت کے خوف نے انہیں پستی کے گڑھوں میں دھکیل دیا۔ یوں یورپی اقوام کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا۔ اِسے ہم یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کہتے ہیں۔
یورپ نے اپنے آپ کو پھر زندہ کیا۔ یہ کامیابی علم و فن سے محبت کی بنیاد پر تھی۔ کلیسا کی بندشوں سے نجات پانے کے بعد یورپ کے اعلیٰ ترین اذہان نے عوام کو جدید ترین علوم و فنون کی طرف مائل کیا۔ فطری علوم و فنون پر زیادہ زور تھا۔ کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش نے اہلِ یورپ کو نئی دنیاؤں سے رُوشناس کرایا۔ یورپی اقوام نے کم و بیش پانچ صدیوں تک دنیا کو مٹھی میں رکھا ہے۔ امریکا کے پنپنے سے یورپ کے راج میں وہ پہلی سی بات تو نہ رہی؛ تاہم اِتنا ضرور ہے کہ اُن کے درمیان تال میل زیادہ رہا اور دونوں نے مل کر دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ جب یورپی اقوام دنیا پر متصرف تھیں تب کوئی تصور نہیں کر پاتا تھا کہ اب اُن کا زور کوئی توڑ پائے گا۔ امریکا آیا تو اُس کی بے مثال قوت نے بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیدا کیا اور لوگ یہ سوچنے لگے کہ امریکا کو پچھاڑنے والا کوئی ملک بھلا کہاں سے آسکتا ہے؟ یہ معاملہ ہر دور میں رہا ہے۔ سپر پاور کا عروج دیکھ کر یہی سوچا جاتا ہے کہ اب اُسے کوئی پچھاڑ نہیں سکے گا۔ یہ سوچ کچھ غلط بھی نہیں۔ یہ تو اللہ کی مرضی کا معاملہ ہے کہ کب کسے عروج بخشے اور کب کسے عبرتناک ذلت سے دوچار کرے۔ اللہ کے اُصولوں سے رُو گردانی کرنے والوں کے لیے معافی نہیں۔ مسلمانوں کا یہی معاملہ رہا ہے۔
بیسویں صدی میں امریکا نے بے مثال طاقت حاصل کی اور یورپ کے ساتھ مل کر اُس نے باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ لوگوں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا کہ اب کوئی اُن کے مقابل کھڑا ہو سکے گا۔ عمومی اندازہ یہ تھا کہ اب چار پانچ صدیوں تک کوئی بھی امریکا اور یورپ کے مقابل نہیں اٹھے گا۔ ایسے ہی اندازے غیرت و رحمتِ ایزدی کو جوش دلانے والے ہوا کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر تک‘ جب روس نڈھال ہوچکا تھا تو چین نے ابھرنا شروع کردیا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل نے امریکا کو واحد سپر پاور کے درجے پر فائز کردیا۔ تب یہی سمجھا جانے لگا کہ اب امریکا کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اور ایسا ہوا بھی! ہاں‘ اِتنا ضرور ہے کہ امریکا نے صرف کمزور اور لاچار ممالک پر ہاتھ صاف کیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا حساب کتاب پھیلاکر امریکا نے عراق، شام، لیبیا اور یمن کو تاراج کیا۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین افغانستان کو بالکل برباد کرکے اُس نے یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ اب کوئی بھی اُس کے مقابل نہیں آسکتا۔ امریکا کے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی بے حمیتی کا یہ عالم تھا کہ افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن جیسے انتہائی کمزور ممالک کو دبوچنے کے عمل کو چُپ چاپ دیکھتے رہے اور وقتاً فوقتاً سراہتے بھی رہے! یورپ کا بھی یہی وتیرہ رہا تھا۔ وہ بھی کمزور ریاستوں کو دبوچ کر اپنی طاقت کا ڈھول پیٹا کرتا تھا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر مسلم دنیا کو نشانے پر لیا۔ ایک دہائی پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ امریکا جہاں بھی چاہتا‘ طاقت کا اندھا مظاہرہ کر بیٹھتا تھا۔ بے قصور اور نہتے شہریوں کے قتلِ عام سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ افغانستان میں نہتی عورتوں، بچوں اور معمر افراد کے قتلِ عام پر امریکی حکومت نے رسمی نوعیت کی معذرت چاہنے سے بھی گریز کیا۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طاقت ظاہر کو چمکاکر باطن کو کس قدر تاریک اور کھوکھلا کردیتی ہے۔
جب انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اب کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکے گی تب قدرت اپنا کھیل شروع کرتی ہے اور اپنی تدبیر کے ذریعے کسی کو آگے بڑھاتی ہے۔ چار عشروں کے دوران چین پنپ چکا ہے اور روس بھی اپنی طاقت بہت حد تک بحال کرچکا ہے۔ دونوں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ امریکا اور یورپ پر اب تھکن کے آثار ہیں۔ دونوں کی نئی نسل شدید الجھنوں کا شکار ہے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین ذہن جمع کرکے ان دونوں خطوں نے اپنی طاقت کا بھرم برقرار رکھا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ایشیائی، افریقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ذہن پوری آب و تاب کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اِن کی محنت سے امریکا اور یورپ بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چل سکے گا۔ کسی طاقت کا ابھرنا اور موجودہ سپر پاور کو چیلنج کرنا دنیا کے لیے بہت نازک وقت ہوا کرتا ہے اور وہ نازک وقت آچکا ہے۔ امریکا اور یورپ کو اب اپنی بالا دستی کی کشتی ڈولتی محسوس ہو رہی ہے۔ چین اور روس نے اُن کا ناطقہ بند کرنے کی ٹھان لی ہے۔ امریکا اب تک محض اس لیے اپنی طاقت کے ساتھ موجود ہے کہ عالمی اداروں کے سینے میں اُس نے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور اپنے حق میں فیصلے کرا رہا ہے۔ مگر یہ کھیل بھی کب تک کھیلا جاسکے گا؟ امریکا اور یورپ کے لیے پیش قدمی مشکل ہے اور پسپائی کی گنجائش نہیں۔ دونوں نے مل کر باقی دنیا کو اِتنا لوٹا ہے کہ اِن کے کچلے ہوؤں کو موقع ملے گا تو اِنہیں برباد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ ہم‘ آپ خوش نصیب ہیں کہ یہ تماشا بلا ٹکٹ دیکھنے کو مل رہا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں