"MIK" (space) message & send to 7575

فلسفہ نہیں‘ اعداد و شمار!

بات کو گھما پھراکر بیان کرنے کا فن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اب تو بعض معاملات میں توضیح و تشریح سے اُبکائی آنے لگتی ہے۔ حکومتی شخصیات نے بظاہر طے کرلیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں اگر وضاحت طلب کی جائے تو بات کو اِس قدر گھمایا پھرایا جائے کہ وضاحت طلب کرنے والا ہی شرمندہ ہوکر رہ جائے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے ہیں اور اپنی بلا دوسروں کے سر ڈالنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ فلسفہ بگھارنے کا چلن عام ہے۔ جو تھوڑا بہت پڑھ لیتا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر کہیں بھی‘ کسی بھی معاملے میں فلسفہ بگھارنے لگتا ہے۔ کسی کو الجھن میں دیکھ کر لوگ ماہرانہ رائے دینے میں ایسی تیزی دکھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ماہرانہ رائے دینے اور فلسفہ بگھارنے میں تھوڑا سا ہی فرق رہ گیا ہے۔ ہرمعاملے میں ماہرانہ رائے دینے کا خبط اب اُس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں سے بات بہ بات دردِ سر کی حد شروع ہوتی ہے!
ہم ایسی قوم ہیں جسے لایعنی معاملات اور غیر متعلق اُمور سے پیدائشی نوعیت کا شغف ہے۔ جن معاملات کو دنیا بھول چکی‘ ترک کرچکی ہے اُنہیں ہم سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ لایعنی معاملات دنیا بھر میں متروک قرار پاتے ہیں کہ اُن سے زندگی کا توازن بگڑتا ہے‘ کام کرنے کی صلاحیت و سکت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اگر جینا ہے تو غیر متعلق معاملات کے ساتھ ہی جینا ہے‘ چاہے اِس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جو مسائل بروقت حل نہ کیے جائیں اُن کے بطن سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مسائل کو ٹالتے رہنا انتہائی خطرناک عمل ہے۔ یہ روش رفتہ رفتہ پورے معاشرے کو ڈکار جاتی ہے مگر شاید ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ مسائل کو حل نہ کیا جائے تو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ خود بخود حل ہونے لگتے ہیں! کوئی کتنا ہی سمجھائے‘ ہم یہ ماننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔
حکومتیں ایک زمانے سے پیچیدہ نوعیت کے عوامی مسائل حل کرنے کی طرف مائل ہونے کے بجائے طفل تسلیوں سے کام چلاتی آئی ہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے سے بہت سے شعبے اندرونی الجھنوں سے دوچار ہیں اور اُن کی کارکردگی کا گراف افسوس ناک حد تک گرا ہوا ہے۔ اصلاحِ احوال کے حوالے سے کی جانے والی مساعی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاستدانوں سے عوام کو سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ وہ کوئی بھی مسئلہ مؤثر طور پر حل کرنے کے بجائے معاملات کو ٹالنے کے عادی ہیں۔ بات غلط نہیں! بہت سے چھوٹے معاملات بہت عمدگی سے اور خاصے کم خرچ پر درست کیے جاسکتے ہیں مگر نہیں کیے جاتے۔ کرپشن اور بری طرزِحکمرانی‘ دونوں ہی معاملات اِس کے لیے ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں معاملات کبھی درست ہوسکیں گے؟ کیا ہمارے منتخب حکمران عوام کے لیے راحت کا سامان پیدا کریں گے؟ اور کیا ہماری انتظامی مشینری کبھی اس بات کو پسند کرے گی کہ عوام کے بنیادی مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کرکے اُن کے لیے راحت و فرحت کو یقینی بنایا جائے؟ ان سوالوں کا جواب آسان 'نہیں‘ ہے۔ کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ بات کچھ یوں ہے کہ جیسا معاشرہ ہے‘ ویسے ہی اُس کے نمائندے ہیں۔ حکمران بھی ہم ہی میں سے ہوتے ہیں۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی حکمران۔ اور جو کچھ حکمرانوں میں پایا جاتا ہے‘ وہی ہم سیکھتے ہیں۔ جیسے حکمران اور ہم ہیں‘ ویسے ہی سرکاری کارندے ہیں۔ حکومتی و ریاستی مشینری کے پرزے بھی اِسی معاشرے اور ماحول سے تعلق رکھتے ہیں‘ یعنی ہم سب ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
آج کل ہمار ے معاشرے میں بہت سے الفاظ اصطلاح کا درجہ پاگئے ہیں۔ اب لفظ ''منجن‘‘ ہی کو لیجیے۔ آج کل یہ لفظ بلا ضرورت‘ محض ذاتی مفاد کی تکمیل کے لیے کسی بھی وقت پیش کیے جانے والے انفرادی یا ذاتی نوعیت کے ''بیانیے‘‘ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ کوئی ہر وقت اپنا کوئی معاملہ بیان کرتا رہے تو ہم کہتے ہیں لو! اُس نے اپنا منجن بیچنا شروع کردیا! عام آدمی سے اعلیٰ ترین سطح تک سب اپنا اپنا منجن بیچنے میں مصروف ہیں۔ حکومتی شخصیات عوام کے مسائل حل کرنے پر متوجہ رہنے کے بجائے محض اپنے حصے کا منجن بیچنے پر تلی رہتی ہیں۔ عوام کیا چاہتے ہیں؟ اپنے مسائل کا حل! عوام کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ حکومت کس طور معاملات کو درست کر رہی ہے۔ وہ معاملات کی درستی چاہتے ہیں‘ اور بس۔ کیا حکومت ایسا کر پا رہی ہے؟ نہیں! یہی تو مسئلہ ہے۔ عام آدمی کو بجلی ڈھنگ سے مل رہی ہے نہ پانی۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی جھیلنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں وہ کیونکر مطمئن ہو سکتا ہے؟ عام آدمی کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ حکومت بیرونی سطح پر کیا کر رہی ہے‘ کہاں کون سے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ وہ تو اپنے گھر میں بنیادی سہولتیں دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی معاملات میں بھی پریشان کا سامنا کرنا پڑے تو اُس کی نظر میں حکومت ناکام ہے، پھر چاہے پوری دنیا ہی اُسے سراہتی رہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حکومتی عمائدین ہر معاملے میں فلسفہ جھاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بات کہیں کی بھی ہو‘ گھوم پھر کر اپوزیشن پر تنقید تک پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کا رونا رونے ہی سے فرصت نہیں مل پارہی۔ عوام کے نصیب میں اب پچھلی حکومتوں کی برائی سننا ہی رہ گیا ہے۔ لوگ دنیا بھر کے افسانے نہیں سننا چاہتے۔ اُنہیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ کون سا ملک کیا کر رہا ہے‘ وہ کسی بھی معاملے میں لفاظی چاہتے ہیں نہ گہرا، گمبھیر فلسفہ۔ بلند بانگ دعوے بھی انہیں درکار نہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کے بنیادی مسائل حل ہوں اور معقول طرزِ زندگی ممکن بنایا جائے۔ جب حکومت واقعتاً کچھ کرتی ہے تب کچھ نتائج بھی سامنے آتے ہیں اور لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
مسائل اُس وقت حل ہوتے ہیں جب اُنہیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محض باتیں بگھارنے اور دعوے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات کم و بیش ہر سطح کی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اب معاملات عوام کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتے۔ ایسے میں زور معاملات کی درستی پر دیا جانا چاہیے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ اب بھی فلسفہ بگھارنے کا کھیل جاری ہے۔ عوام بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں اور اُنہیں سہانے خواب دکھانے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ زندگی دشوار سے دشوار تر ہوئی جارہی ہے اور حکومت پتا نہیں کون کون سے راگ الاپ کر عوام کا دل بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لوگ صرف کام کی باتیں سننا چاہتے ہیں مگر حکومتی شخصیات اُنہیں ایران توران کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ لوگ اعداد و شمار چاہتے ہیں۔ بنیادی مسائل حل کرنے کے حوالے سے جو کچھ بھی کیا گیا اور کیا جارہا ہے‘ اُس کے بارے میں اُنہیں بتایا جائے۔ اِس سے زیادہ وہ کچھ نہیں چاہتے۔ حکومت جو کچھ بھی کرتی ہے اُسے صرف اور اعداد و شمار کے پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہی حقیقت ہے اور اِس سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے وہ محض افسانہ ہے۔
فلسفہ بھی بہت ہوچکا اور راگ راگنیاں بھی‘ بات بات پر منجن بیچ کر ٹائم آؤٹ لینے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ سیاست دانوں اور ریاستی مشینری کی پوری توجہ کارکردگی کا گراف بلند کرکے عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ فلسفہ بگھارنے کی روایت کا گلا گھونٹا جائے اور اعداد و شمار کی زبان میں بات کرنے کو نمایاں ترجیحی درجہ دیا جائے۔ دنیا بھر میں حقیقی کام کی زبان یہی ہے۔ ہر کامیاب معاشرے محنت اور اُس کے نتائج پر متوجہ رہتا ہے۔ ایران توران کی ہانکنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بات وہی کام کی ہے جو اعداد و شمار کے پیمانے پر درست ثابت ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں