طاقت کے کھیل میں بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ کھیل انسان سے سب کچھ وصول کرتا ہے۔ ایک طرف تو اُس کی صلاحیت و سکت کا امتحان ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ صورتِ حال میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو کس طور اور کتنا بدلتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے کہ ضرورت کے مطابق وہ کہاں سختی اور کہاں نرمی برتتا ہے۔ طاقت کے کھیل میں جن باتوں کا خیال ایک فرد کو رکھنا پڑتا ہے اُنہی باتوں کا خیال معاشروں اور ریاستوں کو بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ہر دور میں وہی ریاستیں بڑی اور فیصلہ ساز طاقتیں بن پائی ہیں جنہوں نے طاقت کے ہر پہلو کو سمجھا اور برتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی فرد کسی ایک معاملے میں بہت مضبوط ہو اور سب کچھ حاصل کرلے، اپنی مرضی کے مطابق جی لے۔ یہی معاملہ ریاستوں کا ہے۔ ریاستوں کو طاقت بننے کے لیے بہت سے معاملات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بعض ریاستیں عسکری اعتبار سے بہت مضبوط ہوتی ہیں مگر دیگر بہت سے معاملات میں اُن کا حوصلہ تھوڑی ہی دیر میں جواب دے جاتا ہے۔ محض عسکری قوت کی بنیاد پر کوئی بھی ریاست دوسروں سے اپنی ساری باتیں نہیں منواسکتی۔ عالمی نظام میں نمایاں کردار پانے کے لیے تو بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا ہی پڑتا ہے۔
امریکا اور یورپ ہمارے لیے ایک کلاسیکل نمونے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان دونوں خطوں نے خود کو کئی اعتبار سے مضبوط کیا ہے، نمایاں حیثیت یقینی بنائی ہے۔ دو عالمگیر جنگوں کے نتیجے میں یورپ تباہی سے دوچار ہونے کے بعد بھی اِس لیے ابھر پایا کہ اُس کی علمی بنیاد مضبوط تھی۔ علمی بنیاد کی مضبوطی ہی نے اُسے عسکری بنیاد کو مضبوط بنانے کی راہ بھی دکھائی۔ یہی معاملہ جاپان کا تھا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے اختتامی لمحات میں جاپان کو مکمل تباہی سے دوچار ہونا پڑا مگر چونکہ علمی بنیاد بہت مضبوط تھی اس لیے جاپان بہت جلد تعمیرِ نو کے مرحلے سے گزر کر عالمی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل ہوگیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دنیا میں امریکا اور یورپ نے عسکری حوالے سے بھی اپنی بات منوائی ہے مگر یہ بات ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اِن دونوں خطوں نے جدید فطری علوم و فنون میں بھی اپنی مہارت بڑھانے پر توجہ دی۔ تعلیمی نظام کو مزید مضبوط کیا، جدید دور کے تقاضے نبھانے پر توجہ دی، معیشت کو مستحکم کیا، ثقافت کے محاذ پر کام کیا یعنی دنیا کو مختلف معاشرتی معاملات میں رجحانات اور فیشن دیے۔ کوئی بھی ریاست عسکری قوت سے ہٹ کر جو کچھ بھی کرتی ہے وہ اُس کی نرم قوت کہلاتا ہے۔ جنگی ساز و سامان اور فوج کو سخت قوت قرار دیا جاتا ہے۔ نرم قوت میں وہ سب کچھ آ جاتا ہے جو عسکری قوت سے ہٹ کر درکار ہوسکتا ہے۔
امریکا اور یورپ سے ہٹ کر کسی نے نرم قوت کے معاملے میں اگر اپنے آپ کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ صرف چین ہے۔ جاپان نے عصری فطری علوم و فنون، معیشت اور ایسے ہی دیگر معاملات میں اپنے آپ کو خوب منوایا؛ تاہم عسکری قوت کے معاملے میں وہ زیادہ پُرجوش نہیں۔ اُسے اپنے دفاع کے لیے اب بھی امریکا اور یورپ پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جاپان کا بھی خوفزدہ ہونا لازم ہے کیونکہ ایک زمانے میں اُس نے چین کو بھی اپنا غلام بنایا تھا۔ موقع ہاتھ آجائے تو چین بدلہ لے سکتا ہے۔ ایسے میں امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان کا متحرک ہونا فطری امر ہے۔ امریکا ہو یا یورپ‘ کوئی بھی خطہ اگر عالمی سیاست و معیشت میں اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے یعنی فیصلہ سازی کے مرحلے میں اپنی بات پوری طاقت کے ساتھ منوانے کا خواہش مند ہے تو اُسے ثابت کرنا پڑے گا کہ اُس نے طاقت کے تقاضے نبھائے بھی ہیں۔ محض جنگی ساز و سامان اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں کے بل پر کوئی بھی خطہ اپنے آپ کو باقی دنیا سے برتر ثابت نہیں کرسکتا۔ کئی محاذوں پر اپنے آپ کو منوانے کی صورت ہی میں وہ برتر تسلیم کیا جائے گا۔ امریکا نے اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کی بدولت نرم قوت میں اضافے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ آج امریکا کے پاس محض جدید ہتھیار اور دوسرا جنگی ساز و سامان ہی نہیں بلکہ نرم قوت بھی ہے یعنی وہ معیشت، معاشرت، ثقافت اور علم و فن کے حوالے سے بھی اپنے آپ کو منوا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی معیشت قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے مگر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکا نے نرم قوت بڑھانے پر جو توجہ دی تھی اُسی کی بدولت آج امریکا عالمی مالیاتی و سیاسی اداروں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ وہ معیشت کی کمزوری نرم قوت کے دیگر پہلوؤں کی مدد سے پوری کرتا ہے۔
فی زمانہ نرم قوت کی بہترین مثال یورپ ہے۔ یورپ نے جنگ و جدل کے بازار میں بہت لین دین کیا ۔سینکڑوں سال تک لڑتے رہنے کے بعد اب یورپی قوتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ جنگ و جدل سے کچھ نہ کچھ تو حاصل ہوسکتا ہے مگر بہت کچھ یا سب کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ سوچ بدل گئی ہے۔ یورپی قوتیں اب اپنے آپ کو فطری علوم و فنون کے میدان میں زیادہ منوارہی ہیں۔ چند عشروں کے دوران جدید ترین ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ درجے کی تحقیق کے ذریعے یورپ نے اپنے لیے پنپنے کی گنجائش پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ یہ دانش مندی کا مظہر ہے۔ یورپ کے بڑے اذہان نے اپنے خطے کو نمایاں رکھنے کے لیے کچھ سوچا اور پھر اپنے لیے ایک الگ راہ متعین کی۔ آج یورپ جدید ترین علوم و فنون میں تحقیق کا بہترین مرکز ہے۔ انتہائی معیاری تعلیمی ادارے یورپ کی سرزمین پر ہیں۔ دنیا بھر سے طلبہ پڑھنے کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ یہ گویا آمدن کا اضافی ذریعہ ہوا۔ آج یورپ اپنی نرم قوت کی بنیاد پر بہت کچھ حاصل کر رہا ہے۔ اُس نے اپنے دفاعی معاملات امریکا کے حوالے کر رکھے ہیں۔ اس کے عوض امریکا اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے عمل میں یورپ سے مدد کا طلب گار رہتا ہے۔ یوکرین نے سرد جنگ کے خاتمے پر دفاع کی یقین دہانی پر ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونا قبول کیا تھا مگر اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ آج سب کے سامنے ہے۔ روسی حملے کے بعد امریکا اور کسی بھی یورپی طاقت نے یوکرین کو بچانے کے لیے آگے بڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کل کو یورپ کے لیے بھی ایسے ہی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سوا کوئی بھی یورپی طاقت ایسی نہیں جو اپنا دفاع اپنے طور پر کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
خیر‘ بات ہو رہی ہے نرم قوت کی۔ روس نے چین کو ابھرتا دیکھ کر تحریک پائی اور کچھ کرنے نکلا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے نرم قوت کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ روس کو اگر عالمی سیاسی و معیشت میں کوئی بڑا کردار درکار ہے اور وہ طاقت کے علاقائی و عالمی کھیل میں کچھ پانے کا خواہش ہے تو نرم قوت پر توجہ دینا ہوگی۔ محض عسکری قوت کی بنیاد پر کسی علاقے کو تو فتح کیا جاسکتا ہے، اُس پر آباد لوگوں کے دِلوں کو نہیں۔ علم و فن، معیشت اور معاشرت کو نظر انداز کرکے کوئی بھی ریاست کبھی کچھ نہیں کر پائی۔ روس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ عسکری قوت پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے نرم قوت کے شعبے میں اپنی صلاحیت و سکت کا دائرہ وسیع کرنے پر متوجہ ہو۔ یہ حقیقت روسی قیادت کو ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فی زمانہ فل سکیل جنگ کی زیادہ گنجائش نہیں۔ عسکری مہم جُوئی چھوٹے چھٹے مشنز تک محدود رہے تو اچھا۔ ہاں! نرم قوت کے معاملے میں اپنے آپ کو بہت وسعت دی جاسکتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے، بہترین تحقیق، ٹیکنالوجی کی بہتر تعلیم و تربیت، بہتر معاشی و سیاسی تربیت، معاشرت و ثقافت‘ اِن تمام شعبوں میں اپنے آپ کو بلند کرنے کی صورت ہی میں روس ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکے گا۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کو مٹھی میں کیا ہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُنہوں نے نرم قوت کے معاملے میں لاپروائی نہیں برتی۔ چین اب عسکری قوت بڑھا رہا ہے تاہم وہ اب بھی نرم قوت ہی کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوا رہا ہے۔