ٹرینڈز متعارف کرانے کا جنون اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ہمیں دیکھے۔ دنیا بھر کے ایسے تمام ٹرینڈز ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں جن سے لوگ جان چھڑانا پسند کرتے ہیں، دور دور ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرینڈز دینا اچھی بات ہے مگر صرف منفی ٹرینڈز دینا تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کوئی کام کی بات ہو تو جوش و خروش کے ساتھ کہی جائے۔ کوئی ڈھنگ کا معاملہ ہو تو آگے بڑھایا بھی جائے۔ یہ کیا کہ جن باتوں کو دنیا بھر میں ترک کردینا دانش مندی سمجھا جاتا ہے اُنہیں ہم نے یوں گلے سے لگایا ہوا ہے گویا اُن کے بغیر زندگی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہو!
دنیا بھر میں حکمرانی در حقیقت ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کا بنیادی کام یہی تو ہے کہ اُس کی حدود میں بسنے والے ڈھنگ سے جینے کے قابل رہیں، اُن کی زندگی میں کوئی بھی ایسی مشکل باقی نہ رہے جس پر آسانی سے قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔ ریاستی مشینری کا فریضہ ہے کہ عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیوں کا اہتمام کرے۔ احساسِ ذمہ داری کی حامل ہر ریاست اور حکومت ایسا ہی کرتی ہے۔ یہ کوئی خیال و خواب کا معاملہ نہیں۔ حقیقی فلاحی ریاست کا جو تصور ہمارا دین ہمیں دیتا ہے وہ عملی شکل میں ہمارے سامنے پیش کیا جاچکا ہے مگر ہوا یوں کہ ترقی یافتہ معاشروں نے اُسے اپنایا۔ آج یورپ میں سکینڈے نیویا کے ممالک خالص مادّی اور دُنیوی سطح پر فلاحی ریاست کے بہترین نمونے ہیں۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، نیدر لینڈز، فن لینڈ وغیرہ ایسی طرزِ حکمرانی کے حامل ہیں جو عوام کو بہترین ممکنہ مادّی آسائشیں فراہم کرتی ہیں۔ زندگی مکمل آزاد ہے۔ یہاں زندگی کے اخلاقی و روحانی پہلو پر بحث مقصود نہیں۔ کم از کم جنہیں دُنیا پانے کی تمنّا تھی‘ اُنہوں نے دنیا پا تو لی۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ یہ ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم...
والی کیفیت ہے۔ کچھ بھی کہیے اور سمجھیے، یہ ہے تو خسارے ہی کا سودا کہ دنیا کو پانے کی دُھن میں ہم باقی معاملات بھی فراموش کر بیٹھے۔ کئی ماہ سے ملک کے تمام معاملات گویا داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ کسی ایک معاملے میں استحکام دکھائی نہیں دے رہا۔ اہم ترین معاملات کو یوں دیکھا جارہا ہے گویا عام سے معاملات ہوں۔ کسی کو یہ خیال بھی نہیں کہ ملک کہاں کھڑا ہے، کن مسائل میں الجھا ہوا ہے، کن الجھنوں سے دوچار ہے۔ کوئی ایک دشمن ہو تو رو لیجیے‘ یہاں تو ہر طرف دشمن ہیں جو آپ کو ہر قدم پر پسپا دیکھنے کے خواہش مند ہیں، قدم قدم پر آپ کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔ ایک سازش ختم نہیں ہوتی کہ دوسری سامنے آجاتی ہے۔ ایک ایجنڈا ابھی پورا نہیں ہوا ہوتا کہ دوسرا تیار کھڑا ملتا ہے۔ اور جو تھوڑی بہت کسر دشمنوں نے چھوڑ دی ہوتی ہے وہ ہم خود پوری کردیتے ہیں۔ اہلِ سیاست نے معاملات کو جس ڈگر پر ڈال دیا ہے وہ تو صرف تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ سیاست ملک چلانے کے لیے ہوتی ہے‘ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ گروہی نہیں، صرف ذاتی مفاد کی حد سے آگے نہیں دیکھا جارہا۔ صرف اپنی تجوری کی فکر لاحق ہے، ملک کا خزانہ خالی پڑا رہے تو پڑا رہے۔ لوگ اپنی بوٹی کے لیے گائے ذبح کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں حکومتوں کا آنا اور جانا عمومی معاملہ ہے۔ جاپان اِس کی بہت واضح مثال ہے۔ کسی زمانے میں اٹلی کا بھی یہی معاملہ تھا۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ڈیڑھ‘ ڈیڑھ سال کی حکومتیں رہی ہیں۔ ہم برطانیہ کو کیوں بھول رہے ہیں؟ وہاں بھی تو پانچ سال میں تین وزرائے اعظم دیکھے گئے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں اگر کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر پاتی تو یہ افسوس ناک ضرور ہے، حیرت انگیز نہیں۔ پچیس‘ تیس سال پہلے بھارت میں بھی یہ تماشا ہوتا رہا ہے۔ ہم وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جو تھوڑی تھوڑی میعاد کے لیے قائم ہوئیں اور وہ بھی بہت سی جماعتوں اور اتحادوں کے اشتراک سے؟ پھر انہوں نے اصلاحِ احوال پر زور دیا۔ طے کیا کہ سیاسی عدم استحکام کو خیرباد کہنا ہے۔ اور کہہ بھی دیا۔ ہم ہیں کہ وہی مرغی کی ایک ٹانگ کے مصداق اب تک اپنی خرابیوں پر اڑے اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط برائے نام نہیں۔ لوگوں میں نظریے سے وابستگی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ نری جذبایت ہے جو قدم قدم پر بے نقاب ہو رہتی ہے۔ اس پر بھی یہ سوچا جارہا ہے کہ ایک پورا ملک پانچ سال تک چلانے کو دے دیا جائے۔ ہم اب تک محض سیاست دانوں کو اپنا حکمران بنانے کی روش پر گامزن ہیں۔ دنیا بھر میں حکومت کی زمامِ کار اُنہیں سونپی جاتی ہے جو statesmen ہوتے ہیں یعنی حکمرانی کے رموز سے پوری طرح آشنا۔ ریاستی مشینری کس طور کام کرتی ہے اور حقیقی بہبودِ عامہ کس طور یقینی بنائی جاسکتی ہے‘ یہ سب کچھ جنہیں معلوم ہو اور متعلقہ تجربہ بھی رکھتے ہوں اُنہیں ملک کی باگ ڈور تھمائی جاتی ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ حکومت چلانے کا ہوکا اُنہیں ہے جو حقیقی مفہوم میں عوامی نمائندے بھی نہیں۔ کسی حلقے میں آٹھ دس امیدواروں کو پچھاڑ کر جیتنے والا حلقے کے مجموعی ووٹوں کا محض پندرہ یا بیس فیصد لے کر بھی علاقے کا نمائندہ کہلاتا ہے۔ حلقے کے باقی 80 فیصد کا نمائندہ تو وہ ہے ہی نہیں۔ اس قباحت کا ایک حل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی کے اصول کی بنیاد پر فتح کا تعین کیا جائے مگر ہمارے سیاست دان اس کے لیے تیار نہیں کیونکہ اِس صورت میں اُن کی دال نہیں گلتی۔ اُنہیں تو بس اپنے مطلب کا نظام چاہیے۔
یہ اپنے مطلب کا نظام چاہنے کی خواہش ہی تو ہے جس نے اس ملک کو اِس نہج تک پہنچایا ہے۔ سیاسی ابتری اور بے چینی ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ لوگ خرابیوں کا دائرہ وسیع کرتے رہتے ہیں تاکہ اُن کے لیے کچھ نہ کچھ نکل آئے۔ خرابیوں سے اپنے لیے کچھ پانے کی ذہنیت جب تک برقرار ہے، ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ ملک کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزارا جارہا ہے۔ سیاست کے نام پر معاشرے میں جو کچھ بھی جتنا خراب کیا جاسکتا ہے‘ کیا جارہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں جو تھوڑی بہت محبت اور اپنائیت رہ گئی تھی وہ بھی ٹھکانے لگائی جارہی ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انتہائی نوعیت کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ عدم برداشت کا رویہ کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ قبول شے نہیں مگر یہ رویہ پھیلایا جارہا ہے، لوگوں کو اِس کی طرف لایا جارہا ہے۔ اپنی غرض کے لیے سیاست دان اپنے اپنے چاہنے والوں کو انتہا پسندی اور قطعی عدم برداشت کی طرف لے جارہے ہیں۔ فریقِ ثانی کا موقف سننے اور تسلیم کرنے سے یکسر انکار اور گریز کو ایک نئی سیاسی طرزِ عمل کا روپ دے کر عام کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔ انتخابی شکست تسلیم نہ کرنے کی روش معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کر رہی ہے جو معیشت اور معاشرت‘ دونوں کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔
سیاست صرف اِس چیز کا نام ہے کہ کسی سے جو بھی اختلاف روا رکھا جائے وہ صرف ملک و قوم کے لیے روا رکھا جائے۔ ہر حال میں کرسی بچانے کی دھن میں رہنے والے اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ روش کبھی کبھی پورے معاشرے کے وجود کو داؤ پر لگادیتی ہے۔ سیاست کو محض ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے بروئے کار لانے کی ہر کوشش معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارتی رہتی ہے۔ یہ بات ہمارے ہر اُس سیاست دان کو سمجھنا ہے جو کشتی میں سوراخ تو کر رہا ہے مگر یہ بھول بیٹھا ہے کہ کشتی ڈوبی تو وہ بھی ڈوب ہی جائے گا۔
یہ نازک وقت ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا کا تقاضا ہے کہ ہم بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک و قوم کی بقا اور سلامتی یقینی بنانے کی خاطر مکمل سنجیدگی کے ساتھ مائل بہ عمل رہیں۔ معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ ملک و قوم کو دیگر تمام مفادات پر مقدم رکھا جائے۔