"MIK" (space) message & send to 7575

مغرب کی ہٹ دھرمی برقرار

روس نے ایک بار پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس بار یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپر سونک میزائل (سیٹن ٹو) کے ذریعے فن لینڈ کو صرف 10 سیکنڈ اور برطانیہ کو 200 سیکنڈ میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ دھمکی ایک بار پھر نیٹو کی توسیع کے معاملے پر دی گئی۔ روس طویل مدت سے اس بات کا شدید مخالف رہا ہے کہ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی مشرق کی سمت توسیع کی جائے۔ نیٹو کی توسیع کے ذریعے اُس میں مشرقی یورپ اور بحیرۂ بالٹک کی ریاستوں (لتھوانیا، لٹویا اور اسٹونیا) کی شمولیت کو روس اپنی سلامتی اور سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتا ہے۔ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں روس کی بالا دست حیثیت کو نقصان سے بچانے کے لیے روسی قیادت امریکا اور یورپ کو خبردار کرتی رہی ہے کہ وہ اِن دونوں خطوں میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے سے باز رہیں۔ یوکرین ایک زمانے سے نیٹو میں شمولیت کے لیے پَر تولتا رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے مابین تنازع کا بنیادی سبب نیٹو کا معاملہ ہی تھا۔ جب روسی قیادت نے یہ دیکھا کہ یوکرین کسی بھی طور اپنے ارادے سے باز نہیں آرہا تو اُس نے لشکر کشی کو ترجیح دی تاکہ امریکا اور یورپ کو واضح پیغام مل جائے۔ یوکرین پر لشکر کشی نے خود روس کو بھی نقصان سے دوچار کیا ہے؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے لیے یہ صورتِ حال زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے کیونکہ چین کو روس کے ساتھ کھڑے ہونے اور اُس کی حمایت میں بعض اقدامات کرنے سے روکا نہیں جاسکا۔ امریکا اور یورپ نے روس پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں‘ اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نقصان انہیں خود بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔
روس کے مزید بپھرنے کا سبب فن لینڈ کا مؤقف ہے۔ فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینسٹو کہتے ہیں کہ اُن کا ملک بہت جلد نیٹو کی رکنیت کے لیے باضابطہ درخواست دینے والا ہے۔ روس نہیں چاہتا کہ اُس کے پڑوس میں کوئی بھی ملک نیٹو کا رکن ہو۔ اگر روس کے قرب و جوار کی ریاستوں کو نیٹو کی رکنیت مل گئی تو وہاں نیٹو کے فوجی اڈے بنیں گے اور اُن میں امریکی و برطانوی فوجی بھی تعینات ہوں گے۔ روس نہیں چاہتا کہ نیٹوکے فوجی اِس خطے میں قدم جمائیں۔ یہی سبب ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن انتہائی غیر لچکدار موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خبردار کردیا ہے کہ نیٹو کی توسیع کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر اس کے لیے کوئی اور جنگ بھی چھیڑنا پڑی تو ایسا کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ فن لینڈ کے صدر نے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے جس میں اُنہیں بتایا کہ اُن کا ملک اب نیٹو کی رکنیت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس گفتگو کے دوران اُنہوں نے روسی ہم منصب پر نیٹو سے متعلق اپنے ملک کا موقف کھل کر بیان کیا۔ مقصود یہ بتانا تھا کہ اب نیٹو کی توسیع روکی نہیں جاسکتی۔ یہ روسی قیادت کو مزید برہم اور مشتعل کرنے کے لیے کافی ہے۔ روسی دفاعی کمیٹی کے نائب سربراہ الیکسی زووا ولیوف نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا ہے کہ نیٹو کی توسیع اور اُس میں فن لینڈ، سویڈن وغیرہ کی شمولیت پورے خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ روس کسی بھی حال میں یہ توسیع برداشت نہیں کرے گا۔ اُس نے کہا کہ جب جان پر بن جائے تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی خارج از امکان نہیں۔
بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ بات بالائے فہم ہے کہ جب یوکرین کے معاملے میں روس کا انتہا سے گزر جانا دیکھا جاچکا تو نیٹو کی توسیع کا معاملہ پھر کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب ابھی یوکرین کی جنگ بھی ختم نہیں ہوئی۔ فن لینڈ اور سویڈن ترقی یافتہ، خوش حال ممالک ہیں۔ اگر روس سے مناقشہ عسکری مہم جُوئی تک پہنچا تو اِن ممالک کو بھی خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سکینڈے نیویا کا خطہ انتہائی پُرسکون کہلاتا ہے۔ یہ فلاحی ریاستیں ہیں جن میں لوگ بھرپور ٹیکس دے کر بھرپور سہولتوں کے ساتھ پُرلطف زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر یہ ریاستیں اپنا امن و سکون کیوں داؤ پر لگانا چاہتی ہیں؟ یوکرین کی حالت دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا جارہا؟ امریکا اور یورپ مل کر ایسی صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ عسکری مہم جُوئی ہو۔ کیوں؟ دونوں کا مفاد اِسی بات میں ہے کہ دنیا بھر میں خرابیوں کا سلسلہ جاری رہے۔ ایسی حالت ہی میں اِن کا اسلحہ فروخت ہوسکتا ہے اور کئی خطے اس قدر کمزور رہیں گے کہ کبھی اِن کے خلاف اٹھنے کی سکت ہی اپنے اندر نہ پائیں گے۔
روس کو دبوچنے کی کوشش میں امریکا اور یورپ نے ایسی صورتِ حال پیدا کی جس میں خود اُنہیں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو خود یورپ کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں کیونکہ روس کی طرف سے گیس کی فراہمی بند کردیئے جانے کی صورت میں یورپ کے لیے موسمِ سرما گزارنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ روس عالمی سیاست و معیشت میں کوئی بڑی اور فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی اُس کی معیشت میں متعدد ممالک کی معیشتیں گندھی ہوئی ہیں۔ روسی معیشت کے کمزور پڑنے کی صورت اِن معیشتوں کو بھی الجھنوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ایک بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ بالا دستی کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکا اور یورپ ہیں اور دوسری طرف روس اور چین۔ امریکا اور یورپ طاقت کے استعمال کو بالکل درست سمجھتے ہیں۔ روس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُس نے نیٹو کی توسیع روکنے کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یوکرین پر لشکر کشی سے دریغ نہیں کیا۔ یہ لشکر کشی کس حد تک بارآور ثابت ہوئی‘ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا اور تبھی معلوم ہوسکے گا کہ حتمی تجزیے میں کس نے کیا پایا؛ تاہم یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ امریکا اور یورپ جو کچھ چاہتے تھے‘ روس نے وہی کیا یعنی یوکرین پر حملہ کردیا۔ چین کا معاملہ بہت مختلف رہا ہے۔ وہ عسکری مناقشوں میں الجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس حوالے سے چین کی پالیسی اور حکمتِ عملی کو سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔ چینی قیادت معیشت و معاشرت کے ذریعے امریکا اور یورپ کو نیچا دکھانے پر کمر بستہ ہے۔ اس معاملے میں اُس کی منصوبہ سازی خاصی وسیع اور وقیع ہے۔ وہ کسی بھی ملک کے خلاف (فوجی) طاقت استعمال کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ کام وہ معیشت سے لے رہی ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازع میں بھی اُس نے یہی کیا ہے۔ جب امریکا اور یورپ نے اُس پر دباؤ ڈالا کہ روس پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی نہ کرے تو اُس نے ایسا کرنے سے انکار تو نہ کیا مگر روس کے ساتھ کھڑی ضرور رہی۔ ایسا کرنا اس لیے لازم تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ابھی فروری ہی میں وسیع البنیاد تعاون اور اشتراکِ عمل کا معاہدہ ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ کو اس معاہدے کے حوالے سے چین کی سنجیدگی کا جائزہ بھی لینا تھا۔ چین نے روس کو مایوس نہیں کیا۔ اُس نے ہر فورم پر روس کا ساتھ دیا اور دوسری طرف امریکا اور یورپ کو بھی پریشانی سے دوچار کیا۔ یہ سب کچھ معاشی محاذ پر کیا گیا ہے۔ روس نے یوکرین کے خلاف فوجی محاذ کھولا اور چین نے معاشی جنگ کا میدان سجالیا۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر شنگھائی جیسے انتہائی وقیع صنعتی، تجارتی اور مالیاتی مرکز کو بند کرکے چین نے امریکا اور یورپ کی معیشتوں کو ہلا ڈالا۔ اگر معاملات کو خوش اُسلوبی سے طے نہ کیا گیا تو چینی حکمتِ عملی امریکا اور یورپ میں عام آدمی کا جینا دشوار کردے گی۔ چین نے شنگھائی کارڈ کھیل کر مغرب کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اپنی ہٹ دھرمی ترک کرے اور جہاں جہاں دوسروں کو بھی رعایتیں ملنی چاہئیں وہاں اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی ضد چھوڑ دے۔ مغرب کی ہٹ دھرمی دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔ چین اور روس مل کر ایک ایسا محاذ کھول سکتے ہیں جس کے دامن میں مغرب کے لیے صرف شکست ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں