"MIK" (space) message & send to 7575

بحرانوں کا موسم

پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی اور مخالفین کی حکومت آ بھی گئی مگر بحران ہیں کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہے۔ لیں بھی کیسے کہ ہر بحران اتنا جاندار ہے کہ اُسے آسانی سے شکست دی نہیں جاسکتی۔ ملک بحرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ قدم قدم پر خرابیاں ہیں، فتنے ہیں۔ ایسے میں بہتری کی توقع رکھنا عبث معلوم ہوتا ہے۔ مایوسی ہے کہ فکر و نظر پر چھائی ہوئی ہے۔ لوگ ہر اُس بات پر یقین کے حامل دکھائی دیتے ہیں جس کا زندگی سے کوئی بھی بنیادی تعلق نہیں بنتا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مسائل بہت اور توانا ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
قوم جن بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے وہ کوئی راتوں رات پنپ کر ہمارے سامنے نہیں آگئے۔ ہر بحران کو پروان چڑھنے میں ایک وقت لگا ہے۔ یہ تو پون صدی کا قصہ ہے۔ معاملات راتوں رات پروان نہ چڑھے ہوں تو راتوں رات درست بھی نہیں کیے جاسکتے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر چیز خرابی کی طرف ہی بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں ہمیں جتنی اچھائی دکھائی دے رہی ہے وہ محض مادّی سطح پر ہے۔ اخلاقی اور روحانی سطح پر وہاں بھی بُرا حال ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے سوچنے والے بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان اور مضطرب ہیں کہ اُن کی ساری ترقی اور مادّی چمک دمک باقی دنیا کو پس ماندہ رکھنے پر منحصر ہے۔ یورپ میں ضمیر کی خلش زیادہ ہے۔ وہاں کے حقیقت پسند تجزیہ کار اور دانشور اب کہنے لگے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ دوسروں کو بہت سے معاملات میں محروم رکھ کر پایا ہے۔ خیر‘ ترقی یافتہ معاشروں میں ضمیر کی خلش سے متعلق بحث پھر کبھی سہی۔ یہاں تو معاملہ اپنے مسائل کا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ اپنے بحرانوں سے کیونکر نجات پائی جاسکتی ہے۔ جب معاشرے پس ماندگی کا شکار ہوتے ہیں تو ہر معاملے میں صرف خرابی پنپتی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ فطری معلوم ہوتا ہے۔ لوگ محض تماشا دیکھنے تک محدود ہو جاتے ہیں۔ بہت کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اور ہم تھوڑی سی کوشش سے روک بھی سکتے ہیں مگر نہیں روکتے، بلکہ روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ سب کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ میں کیوں آگے بڑھوں، دوسروں کو بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ کئی حکومتوں کی پیدا کردہ مشکلات نے بگڑتے بگڑتے اب بحرانوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہر بحران ہمیں پستی کے گڑھوں میں دھکیلتا جارہا ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں ہم دعویٰ کرسکیں کہ درست ہے اور ہمیں کچھ سکون دے سکتا ہے۔ جن اداروں کو ہم بہت مضبوط گردانتے ہیں اُن کی مضبوطی کا مدار بھی دوسرے بہت سے اداروں کی کمزوری پر ہے۔ جو لوگ ہمیں بہت خوش حال دکھائی دیتے ہیں اُن کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ کسی نہ کسی کا حق مار کر اپنی تجوری بھرنے کی ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ٹیکس میں ڈنڈی مارتا ہے تو کوئی غریبوں کا حق مارتا ہے۔ حق مارنے کے معاملے میں انسان نزدیک ترین رشتوں کا احترام بھی بھول جاتا ہے۔ ٹیکس میں ڈنڈی مارنا ریاست سے غداری ہے اور رشتہ داروں کا حق مارنا اللہ سے غداری ہے۔ ہم یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ حتمی تجزیے میں ہم ہی جواب دہ ٹھہرائے جائیں گے۔
ہمارا معاشرہ یہاں تک ایسے ہی نہیں پہنچ گیا۔ ہم نے عشروں تک بہت سے معاملات کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ ہم میں سے جسے جو کردار ادا کرنا تھا اُس سے اُس نے پہلو تہی کا رویہ اپنایا ہے۔ جب کوئی اپنے حصے کا کام نہیں کرتا تو کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ یہ عمل جاری رہے تو کمی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ یوں ایک چھوٹی سی مشکل بہت بڑے بحران میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بجلی کے بحران ہی کو لیجیے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ گھروں میں میٹر کی رفتار سست کرنے کے لیے بریکٹ میں تار لگایا کرتے تھے۔ اس کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ بجلی کا بل معقول ہوا کرتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ لوگوں نے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے بجلی کے تار میں کنڈا لگانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھا کہ کئی علاقوں سے ریکوری تقریباً صفر ہوگئی۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم پر مامور ادارے نے ریکوری نہ ہونے پر لوڈ شیڈنگ شروع کی اور خسارہ تمام صارفین پر تقسیم کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بجلی کا بحران اصلاً ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔ آج بھی کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں اور دیہات میں بجلی دھڑلے سے چرائی جارہی ہے۔ کہیں ادارے ہی کے متعلقین نے چوری چھپے ناجائز کنکشن دے رکھے ہیں۔ چوری اور ناجائز کنکشنز کے ذریعے ادارے کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کہیں اور نہیں جاتا، باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ صرف بجلی کے معاملے میں کرپشن نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے تو باقی تمام معاملات میں بھی رفتہ رفتہ پنپنے والی خرابیوں نے جمع ہوکر کیا کیا قیامت ڈھائی ہوگی۔ اور اندازہ کیا لگانا، ہم تو اِن خرابیوں کو بھگت ہی رہے ہیں۔
ایک زمانے سے ہم سنتے آئے ہیں کہ سرکاری دفاتر کا بہت بُرا حال ہے، اُن میں کام برائے نام ہوتا ہے اور صرف کرپشن کا بازار گرم رہتا ہے۔ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے مگر کبھی ہم نے سوچا ہے کہ معاشرے میں پنپنے والی خرابیوں نے اب نجی اداروں کو بھی نہیں بخشا۔ کرپشن پورے معاشرے پر محیط ہو تو کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں رہ پاتا۔ اب نجی شعبے کے اداروں میں بھی ہڈ حرامی، حرام خوری اور کرپشن عام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نجی اداروں کے مالکان بہت سخت مزاج ہوتے ہیں اور کسی کو فارغ کرنے میں دیر نہیں لگاتے مگر اب یہ آجر بھی مجبور ہیں کیونکہ اِن کے تمام اجیر اِسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی کو نکال کر یہ کسی اور کو لائیں گے تو وہ بھی ہڈ حرام ہی ہوگا۔ جب معاشرے میں کام نہ کرنے کا کلچر پروان چڑھ چکا ہو تو کام کرنے والوں کو کہاں لایا جائے گا؟ کیا آسمان سے؟ ظاہر ہے کہ حاضر و دستیاب سٹاک ہی سے کام چلانا پڑے گا۔
بہت سے مسائل نے ساڑھے سات عشروں کے دوران پروان چڑھ کر بحران کی شکل اختیار کی ہے اس لیے ہم ان تمام بحرانوں سے راتوں رات نجات پانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے لیے پہلے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات میں اپنے فکر و نظر پر غور کرنا ہے، اپنی اصلاح پر متوجہ ہونا ہے۔ جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تب تک کچھ بھی درست نہیں ہوگا۔ حکومتی یا ریاستی مشینری میں خامیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں مگر ہم اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہاں بھی تو اِسی معاشرے کے لوگ بیٹھے ہیں۔ جیسا معاشرہ ہے ویسی ریاستی مشینری ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسا معاشرہ ہے۔ حکومتوں کی پیدا کردہ خرابیاں اپنی جگہ اور باقی معاشرے کی پیدا کی ہوئی الجھنیں اپنی جگہ۔
ملک بحرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے تو اِس میں کوئی ایک طبقہ قصور وار نہیں۔ پورے معاشرے کو مل کر اپنی تمام خامیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ اصلاحِ احوال کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔ حکومتی مشینری کے درست ہو جانے سے بھی کچھ نہیں ہونے والا اگر باقی معاشرہ اپنی خرابیوں سے چھٹکارا پانے کا نہ سوچے۔ بالکل اِسی طرح اگر باقی معاشرہ درست ہو جائے اور حکومتی مشینری اپنی سستی‘ کاہلی اور کرپشن سے گلو خلاصی پر آمادہ نہ ہو تو کچھ بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
اگر ہم واقعی اپنے تمام بحرانوں سے نجات پانا چاہتے ہیں تو حقیقی اصلاحِ احوال پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بحران پنپتے ہی رہیں گے اور ہر موسم ہمیں بحرانوں کے پنپنے کا موسم محسوس ہوتا رہے گا۔ ہر بحران چونکہ بہت سی یکساں خرابیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے اس لیے اُسے نچلی سطح پر جاکر ہی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے۔ محض جھنجھلاہٹ سے معاملات درست نہیں کیے جاسکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں