انسان کو کچھ بنانا ہو تو کس چیز سے بنائے گا؟ جو کچھ دستیاب ہے اُس کی مدد سے، اور کس چیز سے؟ کسی بھی انسان کے لیے دستیاب سٹاک ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ جو پرندہ مٹھی میں ہے وہ اُن درجنوں پرندوں سے بہتر ہے جو کسی گھنے درخت کی ٹہنیوں پر بیٹھے چہچہا رہے ہوں۔ زمینی حقیقت ہی سب سے بڑی حقیقت ہوتی ہے۔ اِس سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے وہ محض حقیقت نما ہے‘ اور کچھ نہیں۔ کوئی بھی کاریگر کن اشیا کی مدد سے اپنا کام کرتا ہے؟ اوزاروں کی مدد سے۔ کون سے اوزار؟ جو دستیاب ہوں۔ اگر اوزار اچھے ہوں تو کام ڈھنگ سے ہوگا۔ اوزار معقول نہ ہوں تو سمجھ لیجیے کام تو گیا کام سے۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ لوگ کام تو کر رہے ہیں مگر اُنہیں معقول اوزار میسر ہیں نہ معیاری افرادی قوت۔ کسی بھی آجر کے لیے سب سے بھیانک خواب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہے، کوئی ادارہ قائم کرنا چاہے اور معقول و مطلوب افرادی قوت نہ ملے!
آج ہمارے معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ کام کرنے سے جی چرانے لگے ہیں۔ محنت کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی جارہی۔ محنت تو سبھی کر رہے ہیں۔ گزر بسر کرنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ سبھی کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ بے دِلی سے کیا جارہا ہے۔ لوگ کام پر یوں جارہے ہوتے ہیں جیسے با دلِ نخواستہ جارہے ہوں۔ کام میں جی نہیں لگتا۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور ڈیوٹی کے اوقات مکمل ہوں اور گھر کی راہ ناپی جائے۔ کام میں دلچسپی نہ لینے کا کلچر اِتنی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ اب تو یہ سوچ کر بھی وحشت سی ہونے لگتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو دو چار برس میں اس معاشرے کا کیا حال ہوگا۔ کسی بھی معاشرے کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار محنت کا ہوتا ہے۔ محنت وہی معاشرے کرتے ہیں جن میں کام سے محبت کا رجحان پایا جاتا ہو۔ معاشی جدوجہد کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ جدوجہد دلجمعی سے نہ کی جائے تو خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کرتی۔ بہت سے معاشروں کے لوگوں نے اپنے ہاں پائی جانے والی بے حسی اور بے دِلی کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ خیرباد کہتے ہوئے جب پوری لگن کے ساتھ محنت کرنے کا شعار اپنایا تب کامیابی، ترقی اور خوش حالی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس معاملے میں چین کی مثال بہت نمایاں ہے۔
دوسری عالمی جنگ تک چین پس ماندہ تھا۔ چینیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ افیون کے نشے میں اِتنے غرق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کے دوبارہ ابھرنے اور کچھ کر گزرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ماؤ زے تنگ جیسا رہنما نصیب ہوا تو چینیوں نے اپنا آپ بدل ڈالا۔ ماؤ زے تنگ نے چو این لائی اور دوسرے بہت سے قائدین تیار کیے۔ چینی سیاست و معیشت میں کسی بھی سطح پر، کسی بھی درجے میں موروثیت تھی‘ نہ ہے۔ قائدین معاشرے کے مختلف طبقات سے آتے تھے اور کسی ذاتی غرض کے بغیر کام کرتے تھے۔ آج بھی چینی معاشرے میں سرکاری افسران اپنی اولاد کو زیادہ سے زیادہ فوائد دلانے کے لیے کام نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ اپنے رشتے داروں کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چینی معاشرے میں بھی خرابیاں ضرور پائی جاتی ہیں مگر مجموعی طور پر معاملات خاصے منضبط ہیں۔ معاشرے کا مجموعی نظم برقرار ہے۔ عام آدمی کو بنیادی سہولتیں آسانی سے ملتی ہیں اور وہ زندگی کا ایک خاص معیار برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
بہر کیف‘ چینیوں نے آٹھ عشروں کے دوران ثابت کردیا کہ اگر کوئی قوم پوری لگن کے ساتھ محنت کرنے کا سوچ لے تو اُسے سپر پاور بننے سے روکا نہیں جاسکتا۔ چینیوں نے محض چالیس سال میں ایسی شاندار ترقی کی ہے کہ دنیا دیکھ کر حیران ہے۔ امریکا اور یورپ بھی خوفزدہ ہیں۔ کام سے محبت ہی نے چین کو جہالت و پستی سے نکال کر علم و فن کی بلندیوں پر پہنچایا ہے اور آج چینی معاشرہ انتہائی ترقی یافتہ اور خوش حال ہے۔
افریقہ، جنوبی امریکا اور مشرقِ بعید کے پس ماندہ معاشروں میں بھی کام کے حوالے سے وہ شدید بے دِلی و بیزاری نہیں پائی جاتی جو ہمارے ہاں عام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کام سے بے رغبتی ہمارے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ معاشرے کی عمومی فکری و عملی سطح یہ ہے کہ لوگ کچھ خاص کیے بغیر بہت کچھ پانے کے متمنی ہیں۔ یہ جان لیوا نوعیت کی خام خیالی ہے۔ حقیقت کی دنیا صلاحیت اور سکت دونوں کی طالب رہتی ہے اور اِن سے بھی پہلے ہے کام کرنے کی لگن، کچھ کر دکھانے کا جذبہ۔ یہ جذبہ نہ ہو تو سب کچھ خاک میں ملتے دیر نہیں لگتی۔ کچھ کر دکھانے کی لگن نہ ہو تو صلاحیت و سکت کا خزانہ بھی کسی کام کا نہیں۔ ملک بھر میں آجر پریشان ہیں کہ لوگوں کو ڈھنگ سے کام کرنے کی طرف مائل کرنے کے لیے کیا کریں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے آجر حق تلفی سے بھی مجتنب نہیں رہتے مگر حقیقت یہ ہے کہ افرادی قوت کا غالب حصہ کام کرنے کی سچی لگن سے عاری ہے۔ بے دِلی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سوال مشاہرے یا اُجرت کا نہیں۔ جہاں معقول اُجرت یا مشاہرہ نہ ہو وہاں کام سے کترانا سمجھ میں آتا ہے مگر اِسے کیا کہیے کہ توقع سے دُگنا یا اِس سے بھی زیادہ معاوضہ پانے والے بھی کام کرنے سے جی چرانے کی روش پر گامزن رہتے ہیں! بیشتر معاملات میں لوگوں کو صرف یافت سے غرض ہے، اُس کے عوض کچھ دینے سے نہیں۔
کسی بھی معاشرے میں حقیقی ترقی اُسی وقت ممکن ہے جب کسی آجر کو ایسے اجیر ملیں جو کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا چاہتے ہوں۔ کاروباری ادارے اُسی وقت پنپتے ہیں جب کام کرنے والے اپنا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے کریں۔ اخلاقی طور پر درست روش یہی ہے کہ انسان کو جتنا مشاہرہ یا اُجرت دی جارہی ہو اُتنا کام تو کرے۔ لوگ اپنے حصے کا کام محض بوجھ سمجھ کر سر سے اتار پھینکنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ روش کام کے ماحول اور معیار‘ دونوں پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ جب کسی سیٹ اَپ میں کوئی ایک فرد غیر معیاری طریقِ کار اختیار کرتا ہے تب دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ پائیں اور کچھ زیادہ کام نہ کرنا پڑے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ یہ اس کائنات کا اصول ہے ہی نہیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو حالات کی مہربانی سے محنت کیے بغیر کچھ مل جائے مگر اِسے اصول یا قائدے کے طور پر اپنایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جس ہستی نے ہمیں خلق کیا ہے‘ وہ ہمیں جو کچھ بھی دینا چاہتی ہے اُس کے عوض محنت کی شرط عائد کرتی ہے۔ سب کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے اُنہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِتنا رزق ملتا ہے کہ زندہ رہ سکیں؛ تاہم ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا محبوب طریقہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پوری دیانت اور جاں فشانی کے ساتھ محنت کے ذریعے رزق تلاش کرنے پر مامور کیا ہے۔
آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ تسلیم کرنا ہے کہ معاشرے محنت ہی کے ذریعے پنپتے ہیں۔ سہل انگاری اور کرپشن کے ذریعے کچھ لوگ دوسروں کا حق مار کر کچھ پا تو سکتے ہیں، پنپ نہیں سکتے۔ جو لوگ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں طے کرنا پڑے گا کہ جب بھی اُنہیں کسی کی خدمت (یعنی معاشی سرگرمی) کا موقع ملے گا تب وہ اپنے پورے وجود کو بھرپور لگن کے ساتھ بروئے کار لاتے ہوئے اپنے حصے کا کام بطریقِ احسن مکمل کریں گے۔ ہر آجر کو پوری اُجرت دینی چاہیے اور اُسے یہ اطمینان بھی ہونا چاہیے کہ ہر اجیر اپنے حصے کا کام پورا کرے گا۔ اس وقت ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والی کیفیت ہے۔ ہر آجر کو دستیاب سٹاک سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔ دستیاب سٹاک کا معیار بلند کیے بغیر چارہ نہیں۔