آج ہمارے معاشرے کو بہت کچھ درکار ہے۔ معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے میں محض تماشا دیکھتے رہنے سے کام نہیں چلتا۔ آگے بڑھ کر تدارک کی نیت سے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ پورے معاشرے میں روز بروز منفی سوچ پنپتی ہی جارہی ہے۔ اِس کے مقابلے کے لیے مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے بارے میں اب تک سوچا بھی نہیں جارہا۔ جو ممالک ترقی و خوش حال کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اُن کے لیے مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ملکوں کے درمیان ترقی و خوش حالی کا فرق تو ہر دور میں رہا ہے مگر اب معاملہ بہت مختلف ہے کیونکہ تمام معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اب اگر کوئی ملک رُل جائے تو تادیر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اور پھر پس ماندہ ممالک کا معاملہ تو ہے بھی بہت قابلِ رحم۔ ترقی یافتہ ممالک نے مل کر ایسا جال بُن رکھا ہے جس سے پس ماندہ ممالک نکل ہی نہیں پاتے۔ جب بھی کوئی پس ماندہ ملک تھوڑی سی بہتری یقینی بناکر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے تب ترقی یافتہ دنیا حرکت میں آتی ہے اور اُس کی راہ میں مشکلات کھڑی کردیتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو قرضوں کے جال میں ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ اب نجات کی کوئی راہ نہیں سُوجھتی۔
پس ماندہ ممالک کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے مثبت سوچ۔ مثبت سوچ کی راہ پر چل کر ہی کوئی بھی معاشرہ اپنے آپ کو کسی قابل بنا پاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک منفی سوچ سے نجات پانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا۔ آج کی دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ الجھنیں تمام معاشروں کو درپیش ہیں۔ قابلِ رشک حد تک ترقی یافتہ ممالک بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ پس ماندہ ممالک کا بہت بُرا حال ہے کیونکہ اُن کے لیے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی الجھنیں بہت زیادہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ترقی یافتہ و پس ماندہ ممالک کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ترقی اور خوش حالی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لیے سنبھلنا اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ناگزیر ہے مگر وہ اس معاملے میں انتہائی درجے کی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ اُنہیں مختلف محاذوں پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض حالات میں دباؤ بھی ایسا ہوتا ہے کہ پس ماندہ ممالک اپنے حق میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ اُنہیں اِس قابل رہنے ہی نہیں دیا جاتا۔ دنیا بھر کی الجھنیں اب پس ماندہ معاشروں کا مقدر بنی ہوئی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ الجھنیں پس ماندہ ممالک کا مقدر بنائی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ ایک طویل مدت تک ترقی یافتہ دنیا نے سازشوں کے تحت بھرپور سَفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پِچھڑے ہوئے معاشروں کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ان کے حالات ہمیشہ بگاڑے جاتے رہے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن ہی نہیں ہوسکا۔
پاکستان بھی ایک طویل مدت سے پس ماندگی کا شکار ہے۔ معاشی اور معاشرتی‘ دونوں سطحوں پر بگاڑ بڑھا ہے۔ دنیا بھر میں جو خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں وہ ہم پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شکست و ریخت کا عمل ڈھائی تین عشرے قبل شروع ہوا تھا۔ افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکر کشی نے قیامت ڈھائی تھی۔ اس جنگ کا اچھا خاصا حصہ ہمیں بھی جھیلنا پڑا۔ 30 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کی ''میزبانی‘‘ نے ہمیں بہت سے چیلنجز کی میزبانی کا شرف عطا کیا! نائن الیون کے بعد افغانستان پر مغرب کے اتحادیوں کی لشکر کشی نے پاکستان کو بھی خلجان میں مبتلا کردیا۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے پوری قوم کو لپیٹ میں لیا۔ قوم کی اخلاقی اقدار بھی تباہ ہوئیں اور نفسی پیچیدگیوں کا بھی ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی آمد نے بھی پاکستان کی مشکلات بڑھائی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کسی بھی ٹیکنالوجی سے فائدہ کم اٹھا پاتے ہیں اور نقصان زیادہ جھیلنا پڑتا ہے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران ہمارے ہاں یہی تو ہوا ہے۔ ٹیکنالوجیز سے ہم نے کم فائدہ اٹھایا ہے اور اُنہوں نے ہم سے زیادہ کھلواڑ کیا ہے! ہر عمر کے افراد ٹیکنالوجی کی مدد سے کچھ سیکھنے کے بجائے اس سے صرف محظوظ ہوتے رہنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ بھی ہم سب نے دیکھا اور بھگتا ہے۔
خیر، بات یہ ہو رہی ہے کہ آج کے معاشرے کی کسی جہت میں اور کسی بھی سطح پر مثبت سوچ بہت ہی کم اور کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ لوگ ہر منفی رجحان کو بہت تیزی سے قبول کرتے ہیں‘ اپنا لیتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کسی بھی منفی رجحان کو اپنانے میں کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ ساری محنت تو مثبت رجحان کو اپنانے میں کرنا پڑتی ہے۔ معاملات کو بگاڑ کی طرف لے جانا کبھی مشکل نہیں رہا۔ انسان کا اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ معاملات کو بگاڑ کی طرف جانے سے روکے، مثبت سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے معمولات اور فکری ساخت میں وہ تمام تبدیلیاں یقینی بنائے جن کے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں۔ منفی سوچ تو آج کل پوری دنیا میں پائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا نے کم و بیش ہر انسان کو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حیثیت میں متاثر کیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے معاشروں میں خرابیاں اس لیے زیادہ دکھائی دے رہی ہیں کہ منفی سوچ کے تدارک کے حوالے سے حکومت کچھ کرتی ہے نہ عوام۔ منفی افکار و اعمال کا ایک ریلا ہے کہ اپنے ساتھ بہت کچھ بہائے لیے جارہا ہے۔ زندگی کی عمومی روش ایسی ہے کہ عوام اپنے لیے کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہے۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی فکر کچھ اور کرنے کے قابل رہنے ہی کہاں دیتی ہے۔
زندگی امتحان میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ یوں تو خیر ہر دور میں زندگی امتحان ہی رہی ہے مگر اب معاملہ بہت مختلف اور پیچیدہ ہے۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر الجھنوں سے نمٹنا ہے، اپنے لیے راہ نکالنا ہے۔ مسلسل جدوجہد بھی کرنا ہے، اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے بہت سی اشیا و خدمات کا اہتمام بھی کرنا ہے اور فراغت کا اہتمام کرکے باطن کی تسکین کا سامان بھی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے؟ دنیا میں تو کچھ بھی ناممکن نہیں مگر ہاں، انتہائی مشکل ضرور ہوسکتا ہے۔ آج بیشتر پاکستانیوں کو ہر کام بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ مشکلات واقعی ہیں اور بہت ہیں۔ دوسرا بنیادی سبب یہ ٹھہرا کہ سوچ منفی ہے۔ ہر معاملے میں منفی انداز سے سوچنا ہمارے مزاج کا حصہ ہوگیا ہے۔ ہم ممکنات کے بارے میں سوچنے پر ناممکنات کے خیالوں میں گم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی بھی کام کی ابتدا سے قبل ہم الجھے ہوئے ہوتے ہیں اور ناکامی کے بارے میں سوچ کر خوفزدہ سے ہوتے ہیں۔ جب ناکامی کے بارے میں سوچنے سے کام کی ابتدا ہوگی تو کامیابی کہاں سے ملے گی؟ کامیاب وہ ہوتے ہیں جو صرف کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ناکامی بھی کھیل کا حصہ ہے مگر اُس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔ یہ سوچ ہی ہے جو ہمیں کسی بھی نتیجے کی طرف لے جاتی ہے۔ منفی افکار و نظریات کی دلدل میں دھنسے ہوئے پاکستانی معاشرے کے لیے مثبت سوچ آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے کو اس وقت ڈھنگ سے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ لازم ہے کہ صاف ستھرا، مثبت افکار و نظریات سے مزین ماحول یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے نئی نسل کی راہ نمائی کا اہتمام ناگزیر ہے کیونکہ اُسی کو ملک سنبھالنا اور چلانا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین اور لکھاریوں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ علم و ادب کی دنیا کے لوگوں کو محض مادی سوچ ترک کرکے قوم کی راہ نمائی کے لیے میدان میں آنا ہوگا۔ یہ کام جنگی بنیاد پر کرنا ہے۔ عام آدمی منفی طرزِ فکر کی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہے۔ اُسے نکالنا لازم ہے۔ جنہیں معاشرے کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دینا ہے اُنہیں اب اس حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ تاخیر قابلِ قبول ہے نہ تساہل۔