"MIK" (space) message & send to 7575

پیکیج کی ’’انتظاری‘‘ کیوں؟

باصلاحیت ہونا کیسی بات ہے؟ آپ کہیں گے کہ بہت اچھی بات ہے۔ بالکل درست! مگر کیا صرف باصلاحیت ہونا آپ کو کچھ دے سکتا ہے؟ باصلاحیت ہونا ایسا ہی ہے جیسے آپ کی جیب میں نوٹ بھرے ہوں۔ یہ نوٹ بہت کام کے ہیں کیونکہ اِن کی مدد سے آپ بہت کچھ خرید سکتے‘ پا سکتے ہیں۔ اب اگر آپ جیب نوٹوں سے بھری رہنے دیں یعنی اُنہیں خرچ ہی نہ کریں تو؟ ظاہر ہے آپ کو اس بات کا طمینان ضرور رہے گا کہ آپ کے پاس دولت ہے مگر حتمی تجزیے میں یہ دولت آپ کے لیے کسی کام کی ثابت نہ ہوگی۔ دولت آپ کے لیے صرف اُس وقت مفید ثابت ہوسکتی ہے جب آپ اُس سے اپنی مرضی کی چیز خریدیں یا اپنی پسند کے مطابق کوئی خدمت حاصل کریں۔ اگر کسی کی تجوری کرنسی نوٹوں، سونے کے زیورات اور ہیرے موتی سے بھی بھری ہو تو محض اِس دولت کا ہونا زندگی کو بدل نہیں سکتا۔ اس دولت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے ہی سے زندگی میں کوئی بڑی، مثبت تبدیلی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ صلاحیت کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے کوئی صلاحیت نہیں بخشی۔ ہر انسان مختلف النوع صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر، پروان چڑھاکر بہت کچھ کرسکتا ہے، بہت کچھ پاسکتا ہے۔ قدرت جب اپنا کام کرچکتی ہے تب انسان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ صلاحیت کو اچھی طرح شناخت کرکے پروان چڑھانا اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کرنا انسان کا کام ہے۔ یہی تو اُس کا امتحان ہے۔
ہر طرح کے ماحول میں ایسے لوگ نمایاں تعداد میں ملیں گے جو اپنی صلاحیت یا صلاحیتوں سے کہیں کم کام کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ صلاحیت تو بہت ہوتی ہے، سکت نہیں ہوتی۔ ایسے میں صلاحیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ سکت بھی بڑھانا پڑتی ہے۔ سکت یعنی طاقت! کام کرنے کی صلاحیت، لگن اور سکت تین الگ معاملات ہیں۔ صلاحیت تو ہر انسان میں فطری طور پر پائی ہی جاتی ہے۔ لگن پیدا کرنا پڑتی ہے اور سکت کا معیار بھی بلند کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی خاص صلاحیت کو پروان چڑھا بھی لیا اور سکت کا معاملہ نظر انداز کردیا تو بات بنے گی نہیں۔ اگر کسی میں صلاحیت بھی ہے اور سکت بھی مگر لگن نہیں تو جان لیجیے کہ اُس کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ آپ کو اپنے آس پاس ایسے بہت سے باصلاحیت افراد ملیں گے جن میں سکت تو ہے مگر لگن برائے نام بھی نہیں۔ جب تک لگن نہ ہو تب تک انسان کچھ نہیں کر پاتا۔ ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو لگن کے عامل کو نظر انداز کرکے اپنا اور دوسروں کا نقصان کرتے ہیں۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ کرنے بلکہ کر دکھانے کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ پہلا مرحلہ اپنے آپ کو پہچاننے کا ہے۔ ''جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نے رب کو پہچانا‘‘۔ اِس جملے کا حقیقی مفہوم اِس کے سوا کچھ نہیں کہ جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو یہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ رب نے اُسے کسی خاص مقصد کے تحت خلق کیا ہے اور اُس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے اپنے وجود کو رُو بہ عمل لانا پڑے گا۔ رئیسؔ صاحب کہا کرتے تھے کہ انسان کو جو کچھ آتا ہے وہ اُسے کرنا چاہیے، کچھ کر دکھانا چاہیے اور اِس کے لیے پیکیج کی ''انتظاری‘‘ میں نہیں رہنا چاہیے۔ پرندوں کی مثال بہت نمایاں ہے۔ وہ کسی صلے کی تمنا کیے بغیر چہچہاتے ہیں، ماحول کو ترنم ریز کردیتے ہیں۔ پرندوں کے چہچہانے سے پورا ماحول سحر آگیں ہو جاتا ہے۔ اُس انسان کے مقدر کو کیا کہیے جو بہت کچھ کرسکتا ہو مگر کچھ بھی نہ کرتا ہو اور محض اس لیے نہ کرتا ہو کہ کہیں سے کسی صلے کا آسرا ہی نہیں۔
کسی صلے کی تمنا میں کچھ کر دکھانے کی ذہنیت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان یہ سوچتا ہے کہ میں اپنی صلاحیت سے دوسروں کو مفت میں مستفید کیوں کروں۔ یہ بات ایک خاص حد تک ہی درست ہے۔ اُس سے آگے کا معاملہ بھی تو سمجھنے کا ہے۔ اگر کوئی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتا تو بے شک دوسرے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ یہی تو چاہتا تھا کہ کسی کو بغیر کسی معاوضے کے کچھ نہ دے مگر سوچیے کہ ایسا کرنے سے کیا وہ خود بھی محروم نہیں رہ جاتا؟ درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے گریز کرتا ہے تب ایک طرف تو اللہ کی بخشی ہوئی نعمت کی ناقدری کرتا ہے اور دوسری طرف اپنا وقت اور موقع بھی ضائع کرتا ہے۔ جو وقت گزر گیا وہ پھر ہاتھ نہیں آنے والا۔ صلاحیتوں کے اظہار کا جو موقع ہاتھ سے نکل گیا وہ صرف پچھتاوا دے سکتا ہے۔ اگر انسان ایسی غلطی کر بیٹھے تب بھی پچھتاوے پر احتسابِ نفس کو ترجیح دے یعنی اپنا محاسبہ کرکے معاملات درست کرنے کی طرف مائل ہو۔ جب تک سکت موجود ہے تب تک اپنی ہر صلاحیت کے اظہار کو ترجیحات میں سرِفہرست رکھا جائے۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور انسان کمزور پڑتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب صلاحیت تو ہوتی ہے اور مہارت بھی مگر نہ لگن بچتی ہے نہ سکت۔ اگر سکت ہو مگر لگن نہ ہو تب بھی خسارہ۔ لگن بھرپور ہو اور سکت کا ذخیرہ ختم ہو چلا ہو تب بھی نقصان۔ ہائے رے انسان کی مجبوریاں!
پیکیج کی انتظاری والی ذہنیت انسان کو پچھتاوے کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو غیر معمولی صلاحیت اور مہارت کے حامل ہوتے ہوئے بھی محض اس لیے کچھ کرنے سے مجتنب ہیں کہ اُنہیں مرضی کا معاوضہ نہیں مل رہا۔ معاوضہ تسلی بخش ہونا ہی چاہیے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کام ہی سے مجتنب رہنے کو کسی بھی درجے میں دانش کا مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انسان اگر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا رہے تو بالآخر اپنی مرضی یا ضرورت کے مطابق معاوضہ یا صلہ پا ہی لیتا ہے۔ یہ بھی قدرت ہی کا قانون ہے کہ وہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتی۔ اگر محنت کا بڑا حصہ ضائع ہو رہا ہوتا تو یہ دنیا اب تک نہ چل رہی ہوتی۔ بہت سوں کو آپ ستائش اور صلے کی تمنا کیے بغیر‘ محنت کرتا ہوا پائیں گے۔ اُن کا بھروسا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی لگن کا گراف گرنے نہیں دیتے۔ یہی مقصودِ ربّانی ہے کہ اُس کی ذاتِ والا صفات پر بھروسا کرتے ہوئے مصروفِ عمل رہا جائے۔ محنت کرنا ہمارا کام ہے اور یہ یقین رکھنا بھی ہمارا ہی کام ہے کہ اللہ کسی کی محنت کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔
تخلیقی نوعیت کے شعبوں میں بہت سوں کو ہم نے ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ اچھے پیکیج کے انتظار میں سُوکھ جاتے ہیں اور پھر اُن کے مزاج میں تلخی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ تلخی بڑھتے بڑھتے اُن میں کام کرنے کی رہی سہی لگن اور صلاحیت کو لپیٹ میں لیتی ہے اور کام مزید بگاڑ دیتی ہے۔ عام آدمی اگر اچھا صلہ نہ ملنے پر کام نہ کرے تو زیادہ بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی لکھاری اگر اچھے صلے کے انتظار میں اپنا وقت ضائع کرے اور صلاحیت و سکت کو بروئے کار نہ لائے تو اُس کام کا دُکھ ستاتا رہتا ہے جو ''بے کیا‘‘ رہ جاتا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں میں پیکیج کا انتظار خطرناک گُل کھلاتا ہے کیونکہ وقت گزر جاتا ہے، موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور وہ بعد میں روتے ہی رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ کرسکتے تھے وہ کیوں نہ کیا۔ پرندوں سے سیکھئے کہ وہ اپنی مرضی کے پیکیج کا انتظار کیے بغیر چہچہاتے ہیں اور یوں خود بھی خوش ہوتے ہیں اور ماحول کو بھی خوش گوار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی دن صبح صادق کے وقت تمام پرندے یہ سوچ لیں کہ جب کچھ مل نہیں رہا تو ہم کیوں چہچہائیں تو؟ ذرا سوچیے، پرندوں کی مسحور کن آوازوں سے عاری ماحول کیسا ہوگا!
کوئی بھی صلاحیت محض اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے اپنی مرضی کا ماحول پیدا ہونے تک چھپاکر رکھا جائے۔ ہر صلاحیت بروئے کار لانے کے لیے ہوتی ہے۔ قدرت نے اِسی میں ہمارے لیے سامانِ راحت کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں