"MIK" (space) message & send to 7575

جب صرف وجود رہ جائے

ترقی کی رفتار اِتنی اور ایسی ہے کہ بہت کچھ دکھائی تو دے رہا ہے مگر سمجھ میں نہیں آرہا۔ بعض معاملات بہت کوشش کے باوجود تفہیم کی منزل سے گزرنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب اگر کسی کو سب کچھ سمجھنا ہے تو محض آنکھیں کھلی رکھنے سے بات نہیں بنے گی۔ صرف سن لینا بھی کافی نہ ہوگا۔ معاملات کا فہم اُسی وقت ممکن بنایا جاسکتا ہے جب طے کیا جائے کہ ہر اہم معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ شعوری کوشش کے بغیر اب کوئی بھی معاملہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔ یہ مسئلہ چند افراد کا نہیں‘ پورے پورے معاشروں کا ہے۔ ذہن بُری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی الجھے ہوئے ذہن کو درست حالت میں واپس لانا اور معاملات کا ادراک کرنے کے قابل بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ فی زمانہ تو یہ ایک طرح کا مجاہدہ ہے۔ کم ہی لوگوں میں اس نوعیت کے مجاہدے کا جگرا پایا جاتا ہے۔ یہ تو ہوا ذہن کی الجھنوں کا معاملہ۔ یہ ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جس سے انکار بھی ممکن نہیں اور جسے سمجھنے سے گریز بھی کسی طور عقل کا سودا نہیں۔ اب کھلی آنکھوں اور اُن سے بھی زیادہ کھلے کانوں کے ساتھ جینا ہے، جو کچھ دکھائی اور سنائی دے اُس کا تجزیہ کرتے رہنا بھی لازم ہے تاکہ منطقی نتائج تک پہنچ کر اپنی ضرورت کے مطابق بروقت فیصلے کیے جاسکیں۔
بہت کچھ بہت تیزی سے از کار رفتہ ہوتا جارہا ہے یعنی ایسی اشیا کی تعداد بڑھ رہی ہے جو بدلے ہوئے ماحول میں اپنی افادیت کھو بیٹھی ہیں یا پھر یہ کہ اہمیت برائے نام رہ گئی ہے۔ ماحول میں بہت سی اشیا و خدمات کا دھیرے دھیرے غیر متعلق ہوتے جانا اور پھر اُن کی اہمیت و افادیت کا بالکل ختم ہو جانا بھی ایسی حقیقت ہے جس سے چشم پوشی کا نقصان ہم سب کو پہنچ سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ پہنچ رہا ہے۔ ایک دور تھا کہ گھر گھر آڈیو اور وڈیو کیسٹس ہوا کرتی تھیں۔ ایک آڈیو کیسٹ مجموعی طور پر ایک سے ڈیڑھ یا پھر دو گھنٹے کی ہوا کرتی تھی۔ وڈیو کیسٹ بالعموم تین گھنٹے کے دورانیے کی ہوتی تھی تاکہ پوری فلم سما جائے۔ جو فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کے شوقین تھے اُن کے گھروں میں آڈیو اور وڈیو کیسٹس کے انبار ہوا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ایسے شوقین بھی دیکھے گئے جن کے گھر میں ایک کمرا صرف آڈیو اور وڈیو کیسٹس کے لیے مختص ہوا کرتا تھا! دونوں طرح کے کیسٹس رکھنے کے لیے خانے بنائے جاتے تھے۔ خصوصی طور پر تیار کردہ ریک اور شیلف بھی ملا کرتے تھے۔ آج بہت سے گھروں میں کتابوں کے شیلف دکھائی دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں وڈیو کیسٹس کے شیلف نظر آتے تھے۔
ٹیکنالوجی کا سفر آگے بڑھا تو ایسا بہت کچھ میدان میں آگیا جس نے لوگوں کے لیے اپنی پسند کے گانے سننا اور فلمیں دیکھنا آسان کردیا۔ اور آسان بھی کیسا؟ اب ہتھیلی پر دھرے ہوئے سیل فون کی مدد سے گانے سنے جاسکتے ہیں، فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے رولر کوسٹر کی طرح سفر شروع کیا تو آڈیو اور وڈیو کیسٹس افادیت کھو بیٹھیں۔ خاصے سستے زمانے میں آڈیو کیسٹ چالیس‘ پچاس روپے کی ملا کرتی تھی اور وڈیو کیسٹ کی قیمت ڈیڑھ سو سے دو سو روپے ہوا کرتی تھی۔ جس دور میں تنخواہ بارہ پندرہ سو روپے ماہوار ہوا کرتی تھی تب لوگ گانے سننے اور فلمیں دیکھنے کا شوق پورا کرنے کے لیے آڈیو‘ وڈیو کیسٹس خریدنے یا کرائے پر لانے کی مد میں ماہانہ ڈھائی تین سو روپے خرچ کردیا کرتے تھے یعنی آمدن کا 20 فیصد اس شوق کی نذر ہو جایا کرتا تھا۔
جب زمانہ بدلا تو ساری کی ساری آڈیو اور وڈیو کیسٹس از کار رفتہ یعنی ناکارہ ہوگئیں۔ اِن دونوں چیزوں کی کوئی ضرورت ہی نہ رہی۔ لوگوں نے جن آڈیو، ویڈیو کیسٹس کی خریداری پر سستے دور میں ہزاروں روپے خرچ کیے تھے وہ کباڑی کے ہاتھ یوں بیچیں کہ پانچ روپے فی کلو کا نرخ بھی نہ مل سکا! بہت سوں نے اب بھی چند آڈیو، وڈیو کیسٹس یادگار کے طور پر سنبھال رکھی ہیں۔ خاکسار کے پاس بھی چند آڈیو اور وڈیو کیسٹس ہیں جو گزرے ہوئے حسین زمانوں کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ جن کے پاس اپنی اور اپنے پیاروں کی ریکارڈنگز والی آڈیو‘ وڈیو کیسٹس تھیں اُنہوں نے ان کی ڈیجیٹل فائلز بنوالیں۔ پھر اِن کیسٹس سے بھی جان چھڑائی گئی۔ آڈیو اور وڈیو کیسٹس اب بھی ہیں اور اُن سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے مگر محظوظ ہوا نہیں جاتا کیونکہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے سامنے بالکل ناکارہ ہیں، کسی کام کی نہیں۔ آج اگر کوئی آڈیو کیسٹ پلیئر (عرفِ عام میں ٹیپ ریکارڈر) پر کیسٹ لگاکر گانا سنے گا تو یہ عمل گزرے ہوئے زمانے کی یاد تازہ کرنے کے نام پر تو شاید قبول کر لیا جائے‘ عملاً اِس کی افادیت کچھ بھی نہیں۔ اب ماچس کی ڈبیا کے حجم کے ایم پی تھری پلیئر میں ہزاروں گانے محفوظ کیے اور سنے جاسکتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آڈیو، وڈیو کیسٹس کا وجود سلامت ہے؛ تاہم افادیت ختم ہوچکی ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ آج بہت سے انسانوں کا بھی ہے۔ وہ بھی موجود ہیں مگر اُن کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے سمجھنے کے لیے آپ کا آئن سٹائن یا نیوٹن ہونا لازم ہو۔ جو لوگ وقت کے ساتھ خود کو نہیں بدلتے وہ بالآخر غیر متعلق اور از کار رفتہ ہو جاتے ہیں۔ وہ سب کے سامنے ہوتے ہیں، وجود رکھتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، سانس بھی لیتے ہیں، بات بھی کرتے ہیں، اُنہیں دکھائی اور سُنائی بھی دیتا ہے مگر اُن کا وجود بظاہر بے فیض و بے مقصد سا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں اُسی طرح غیر متعلق اور ناکارہ ہوتی جاتی ہیں جس طور آڈیو، وڈیو کیسٹس غیر متعلق ہوکر رہ گئیں۔ اگر تبدیلی کا عمل تیز ہو تو کسی بھی چیز کے ناکارہ ہونے کی رفتار بھی خاصی تیز ہوتی ہے۔ بہت سی اشیا مارکیٹ میں آتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے غیر متعلق ہوکر کباڑ خانے کی نذر کردی جاتی ہیں۔ پاکستان میں سی ڈی پلیئرز کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ لوگوں نے ڈیسک ٹاپ یا پرسنل کمپیوٹرز پر گانے سننا اور فلمیں دیکھنا شروع کیا تو سی ڈی پلیئر کی کوئی قدر باقی نہ رہی۔
اگر کسی کو کسی قابل رہنا ہے تو اپنے آپ کو بدلتے ہوئے چلنا پڑے گا۔ بدلتے ہوئے وقت نے بہت ستم ڈھائے ہیں۔ ایک بڑا ستم یہ ہے کہ بدلتے رہنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اب وہی ڈھنگ سے جی سکتا ہے جو اپنے آپ کو بدلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہو۔ اِس عمل سے چونکہ کسی بھی طرح کا چھٹکارا نہیں اس لیے لازم ہے کہ انسان تبدیلی کے عمل سے گزرنے کا ہنر سیکھے۔ اب کسی بھی معاملے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کسی بھی تبدیلی سے چشم پوشی بھی نہیں برتی جاسکتی۔ ہم اپنے گرد ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کا نتیجہ بھی وہ بھگت رہے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اُنہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے نئے ہنر نہ سیکھنے کے باعث یہ لوگ آمدن کی دوڑ ہی میں پیچھے نہیں رہتے بلکہ شعور کے معاملے میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اِنہیں مستقل طور پر اِس بات کا یقین دلانا پڑتا ہے کہ تبدیل ہوئے بغیر کچھ خاص حاصل نہ ہوسکے گا۔
ہمارا معاشرہ تبدیلی کے عمل کو اپنانے کے معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ لوگ جدید ترین آلات اور خدمات سے مستفید تو ہو رہے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلتے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ مطالعے کا رجحان دم توڑ چکا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کی پوسٹیں پڑھنے ہی کو مطالعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ادبِ عالیہ کا مطالعہ کرنے والے خال خال ہیں۔ سوچ کو بلند کرنے پر متوجہ ہونے والوں کی تعداد افسوسناک حد تک کم ہے۔ جو معاشرے وقت کے ساتھ خود کو نہیں بدلتے وہ بھی زندہ تو رہتے ہیں مگر اُن کی زندگی موت ہی کے درجے کی ہوتی ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکا کے متعدد معاشروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پسماندگی اِن کا مقدر ہے۔ خود کو بدلنے پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں اب اِنہیں کسی شمار میں رکھا ہی نہیں جاتا۔ اِن معاشروں سے سیکھا جاسکتا ہے کہ صرف وجود کافی نہیں‘ افادیت بھی ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں